ہیں لوگ جہاں میں وہ ہی اچھے جو کام آتے ہیں دوسروں کے ۔۔
یہ جملہ صادر آتاہے گُلزار ہجری کی آصفہ خلیلی پر جنہوں نے ایک تعلیمی
ادارہ قائم کیا ہواہے جہاں غریب اور یتیم بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی ہے
جبکہ شام میں انہی بچوں کے والدین بالخصوص خواتین کو بھی تعلیم فراہم کی
جاتی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ ماں کا تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے۔ آصفہ
خواتین کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کیلئے مختلف سول سوسائٹی اداروں کے
ساتھ ملکر مینا بازار، خواتین کی فنی تربیت اور کونسلنگ کے سیشنز بھی منعقد
کرواتی رہتی ہیں۔
آصفہ خلیلی نے گلزار ہجری میں 2010میں جب کام شروع کیا تویہ علاقہ خاصا
سنسان ہو ا کرتا تھا اور یہاں کی آبادی انتہائی غربت میں گزر بسر کر رہی
تھی۔ابتدا میں انہوں نے صرف چار بچوں کو پڑھانا شروع کیا جبکہ اس وقت
400طالب علم ان کے ادارے سے فیضیاب ہورہے ہیں۔ آصفہ خلیلی اپنی کہانی سناتے
ہوئے آبدیدہ ہوجاتی ہیں اوربتاتی ہیں کہ اس علاقے میں کوئی اسکول نہیں
تھااور جب انہوں نےعلاقے کے بچوں کو در بدر پھرتے دیکھا توان سے رہا نہ گیا
اورانہوں نے سوچا اگر انکے پاس علم ہے تو کیوں نہ وہ اسے دوسروں تک
پہنچائیں ۔ یوں انہوں نے بچوں کو پڑھانے کا فیصلہ کیا۔ سب سے پہلا مسئلہ
انکو جگہ کا تھا انکی خالہ کی معرفت سے انہیں یہ جگہ ملی ۔ لیکن دوسرا بڑا
مسئلہ اب والدین کو راضی کرنا کہ وہ اپنے بچوں کو پڑھنے کیلئے بھیجیں۔ جب
وہ لوگوں کے گھروں پر گئیں تاکہ انہیں تعلیم کی اہمیت سے آگاہ کر سکیں تو
لوگ سمجھتے نا جانے انہیں کوئی لالچ ہے یا کوئی اور وجہ کہ وہ انکے بچوں کو
پڑھانا چاہتی ہیں۔ اور جب انہوں نے بچیوں کو پڑھانے کی بات کی تو بہت سے
لوگ انکے خلاف ہوگئے کیونکہ وہ لوگ لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف تھے اور اسکی
اہمیت کو نہیں سمجھتے۔ جس سے وہ بہت دلبرداشتہ ہو گئیں لیکن پھر بھی خود کو
سمجھایا کہ انہیں خود اپنے گھر سے یہاں تک پہنچنے کے لیئے بہت لمبا سفر
کرنا پڑا تھا، کئی مرتبہ لوگوں نے انہیں راستے میں روک کر ڈرایا دھمکایا کہ
وہ کس مقصد کے تحت اس علاقے میں آرہی ہیں ۔ انہیں کہا گیا کہ اپنی یہ دکان
یہاں سے بند کرو ورنہ نتائج اچھے نہیں ہونگےـ اس کا حل انہوں نے یو ں نکالا
کہ اگر مسئلہ انکا تعلق کسی اور علاقے سے ہونا ہے توکیوں نہ وہ اسی علاقے
میں سکونت اختیار کر لیں، یہ ایک بڑا فیصلہ تھا جس کیلئے انہیں اپنے شوہر
کو راضی کرنا پڑا جو کہ خود ایک بڑا چیلنج تھا۔ جب وہ یہاں رہائش پذیر
ہوگئیں تو لوگوں نے ان پر اعتماد کرنا شروع کردیااور بتدریج انکی محنت رنگ
لانے لگی۔ انہوں نے بچوں کی ماؤں کو شام کی چائے پر اپنے گھر دعوت دینا
شروع کیا تاکہ ان خواتین کی کونسلنگ کی جائے اور انہیں بتایا جائے کہ تعلیم
کتنی ضروری ہے۔ انہیں بتایا جائے کہ اگربچے تعلیم یافتہ ہونگے تو لڑائی
جھگڑے کے بجائے ایکدوسرے کی عزت اور مدد کریں گے اور اچھی جگہ روزگارملنے
میں بھی آسانی ہوگی ۔ کئی بار ایسا ہوا کہ علاقے کے مردوں نے انہیں کہا کہ
آپ ہماری خواتین سے نہ ملا کرے آپ ا ن کو ہمارے خلاف ورغلا رہی ہیں جس کا
جواب انہوں نے دیا کہ تعلیم دینا ورغلانا نہیں ہے اور میں یہ کام کرتی رہوں
گی ۔ اسی دوران انہوں نے علاقہ معززین سے رابطہ کیا اوربتایا کہ بچوں سے
پوچھا جائے کہ وہ انہیں کیا سکھا رہی ہیں ۔ جس پر علاقہ معززین نے انکے کام
اور جذبے کو سراہا۔ لاک ڈاون کے دنوں میں اس علاقے کے لوگوں کے حالات خاصے
خراب ہوئے ہر کوئی پریشان تھا لوگوں کے گھروں میں فاقے ہورہے تھے ۔ تو اس
دوران انہوں نے کچھ اور لوگوں کے ساتھ مل کرمتاثرین تک راشن پہنچانے کا کام
بھی کیا ۔
آصفہ خلیلی جیسی باہمت خاتون ہمارے معاشرے کا مثبت پہلو ہیں جنہوں نے بے
شمار مشکلات کے باوجود اپنا مقصد نہیں چھوڑا اور نہ ہی وہ پیچھے ہٹییں۔ وہ
دوسروں کے لیئے روشن مثال بن گئیں ہیں۔
|