والدہ نے کہا اٹھو زلزلہ آگیا، ہم نے آیتوں کا ورد شروع کر دیا...بلوچستان میں 1945 کے سونامی کا آنکھوں دیکھا حال

image
 
سونامی کا نام تو اب پاکستان کی سیاست میں بھی عام ہے مگر پاکستان میں ایک ایسی شخصیت بھی ہیں جنھوں نے سچ مچ سونامی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس کا خوف اب بھی ان کے دل و دماغ میں اٹکا ہوا ہے۔
 
’رات کا وقت تھا۔ ہم سو رہے تھے کہ والدہ نے کہا اٹھو اٹھو زلزلہ آگیا ہے، ہم نے قرآن کی آیتوں کا ورد شروع کر دیا۔ باہر سمندر دور نظر آیا، جیسے زمین خشک ہو گئی تھی۔ پھر اچانک سے سمندر کی اونچی اونچی لہریں اٹھنے لگیں اور لوگوں نے آوازیں لگائیں کہ کسی اونچی جگہ پر پہنچو۔‘
 
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اس سونامی سے پسنی، گوادر اور دیگر علاقے بھی متاثر ہوئے تھے اس میں 4000 افراد ہلاک ہوئے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے بزرگ امینہ سمیت مکران زلزلے کے چشم دید گواہوں کے انٹرویوز ریکارڈ کیے ہیں، جن میں انھوں نے اس روز کی روداد بتائی ہے۔
 
مکران کے ساتھ انڈین گجرات تک اثرات
پسنی کے ایک اور رہائشی ہارون کا کہنا ہے کہ اس وقت ان کی عمر 17 سے 18 ماہ ہو گی۔ انھیں چچا اور والد نے بچا لیا جبکہ ان کی والدہ چھ دیگر بہن بھائیوں سمیت بہہ گئیں۔
 
اس کے علاوہ ان کے بڑے چچا، دو پھوپھیاں اور ان کے چار بچے بھی اس میں ڈوب گئے۔ اس سونامی کے اثرات کراچی تک آئے تھے۔
 
انڈین گجرات کے رہائشی 81 سالہ شیوا جی بڈھا نے بتایا کہ وہ ایک بحری جہاز پر کام کرتے تھے۔ سنہ 1945 میں ان کی عمر 12 سال کے قریب تھی وہ کارگو جہاز پارس منی کے ہمراہ کراچی کی بندرگاہ گئے جہاں سامان اتارنے میں تاخیر تھی، انھیں کپتان نے کہا کہ جہاز کی صفائی کر لو۔
 
’ہم نے سمندر کے اترنے کا انتظار کیا، صفائی شروع کی، اس کے بعد چائے کے لیے کچن گئے، ایسا محسوس ہوا جیسے جہاز پانی کی بڑی سطح پر تیر رہا ہے، سمندر میں تقریباً 10 فٹ تک پانی اوپر آیا ہوا تھا۔
 
کپتان نے واپسی کا فیصلہ کیا جب ہم گجرات واپس پہنچے تو لوگوں کو یہ قصہ سنایا اور انھوں نے بتایا کہ انھوں نے بھی سمندر کی سطح میں پانچ سے چھ فٹ ابھار دیکھا تھا لیکن کوئی نقصان نہیں ہوا۔
 
image
 
8 ریکٹر کا زلزلہ اور سونامی آنے کا خدشہ
گوادر میں 12 جنوری کو رات دو بجے کے قریب 77 سالوں کے بعد آنے والا زلزلہ ایک بار پھر سونامی کے خدشات اور خطرات کو زیر بحث لایا ہے۔
 
ڈائریکٹر جنرل پاکستان میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ محمد ریاض کا کہنا ہے کہ مکران کی ساحلی پٹی پر زلزلہ آنے کا وقت آن پہنچا ہے۔ اُن کے مطابق اگرچہ اس کے صحیح وقت کا تعین مشکل ہے لیکن مکران ساحل کے سبڈکشن زون کی فالٹ لائن میں اتنی توانائی جمع ہوچکی ہے کہ کسی بھی وقت زلزلہ آ سکتا ہے جو ایک سونامی لا سکتا ہے۔
 
محمد ریاض کے مطابق مکران کے ساحل کے سبڈکشن زون پر آٹھ یا اس سے زائد شدت کا زلزلہ آسکتا ہے جو کراچی اور بلوچستان کی ساحلی پٹی کو متاثر کر سکتا ہے۔
 
اُنھوں نے بتایا کہ یہ فالٹ لائن اب اپنا قدرتی ’ٹائم سکیل‘ مکمل کر چکی ہے اور سبڈکشن زون کافی سرگرم ہے اور شدت پکڑ رہا ہے جس کی وجہ سے اب وہاں کسی وقت بھی زلزلہ اور پھر اس کے نتیجے میں سونامی آ سکتا ہے جس کے نتیجے میں 10 سے 15 فٹ بلند لہریں پیدا ہو سکتی ہیں۔
 
’پیش گوئی مشکل مگر سونامی کا امکان ہر وقت موجود ہے‘
کراچی یونیورسٹی کے شعبے ارضیات کے پروفیسر ڈاکٹر محمد نعمت اللہ کا کہنا ہے کہ ’اس کا تخمینہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ کتنی توانائی پیدا ہوئی اور کتنی خارج ہوئی ہے، کس کو کیا پتہ کہ کل ہو جائے، پانچ سال کے بعد یا سو سال کے بعد، کوئی پیشگوئی نہیں کرسکتا۔ مکران میں جس طرح کا سبڈکشن ہے ایسا ہی جاپان میں بھی موجود ہے وہ بھی پیشن گوئی نہیں کر پاتے ہیں۔‘
 
’مکران میں زلزلے اور سونامی سے قبل 1935 میں کوئٹہ میں زلزلہ آیا تھا، 10 سال کے بعد سے کوئٹہ میں کوئی ’ایکٹویٹی‘ نہیں ہوئی، یہاں تو کئی فالٹ زونز ہیں تو کسی میں بھی ’ایکٹویٹی‘ ہو سکتی ہے۔
 
مکران سبڈکشن کیا ہے؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان کا ساحلی علاقہ سبڈکشن زون میں شامل ہے، جو 1000 کلومیٹر کی ایک پوری پٹی ہے جس پر پاکستان کے ساتھ ایران، عمان اور انڈیا بھی موجود ہیں۔
 
سبڈکشن ایک ارضیاتی عمل ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب ایک سمندری پلیٹ نیچے کی جانب کھسکتی جاتی ہے۔ سبڈکشن زونز میں چونکہ سمندری پلیٹیں شامل ہوتی ہیں وہ ان زلزلوں کے لیے مشہور ہیں جو سونامی پیدا کرتے ہیں۔
 
کراچی یونیورسٹی کےشعبے ارضیات کے پروفیسر نعمت اللہ کا کہنا ہے کہ زمین کی تین باؤنڈریز ہوتی ہیں ایک ڈائیورجن، کنوریجن اور ٹرانسفارم۔ اسی طرح کنوریجن میں دو تہیں ہوتی ہیں، ایک سبڈکشن اور ایک کولین زون کہلاتی ہیں۔ سبڈکشن کا عمل اس کو کہتے ہیں جب ایک پلیٹ دوسری کے نیچے چلی جائے جو آہستہ آہستہ نیچے ہوتی جاتی ہے۔
 
ان کے مطابق یہ عمل لاکھوں برس سے جاری رہتا ہے، سونامی تب پیدا ہوتی ہے جب دو بلاکس میں سے ایک نیچے چلا جائے اور دوسرا اوپر آجائے۔
 
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی سندھ سید سلمان شاہ کا کہنا ہے کہ مکران کی ساحلی پٹی پر دو ٹیکٹونک پلیٹس ملتی ہیں اور گوادر کے جنوب میں تقریباً 40 ناٹیکل میل کے فاصلے پر وہ پوائنٹ ہے جہاں یوریشین اور انڈین پلیٹس ملتی ہیں جو کہ سبڈکشن زون کہلاتا ہے۔
 
image
 
پاکستان میں ارلی وارننگ سسٹم کیا ہے؟
انڈونیشیا میں سنہ 2004 میں سونامی اور اس کے نتیجے میں آنے والی تباہی کے بعد وہ ملک جو سمندر کے قریب ہیں نے پیشگی اطلاع کے لیے ارلی وارننگ نظام قائم کیا۔
 
پاکستان میں محکمہ موسمیات کے سونامی وارننگ سینٹر کے سربراہ امیر حیدر کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے یو این ڈی پی کی جانب سے 20 ارلی وارننگ سٹیشن قائم کیے گئے ہیں۔
 
’گوادر اور پسنی میں یو این ڈی پی نے سائرن لگائے ہیں۔ کراچی سینٹر میں بیٹھ کر ایک کلک پر سونامی سائرن چلائے جا سکتے ہیں، ہنگامی صورتحال میں شراکت داروں کی پوری فہرست ہے، جن کو ایک خودکار نظام کے ذریعے وارننگ الرٹ جاری ہوجائے گی۔‘
 
’زلزلے کے تین منٹ میں خودکار نظام کے ذریعے جمع تفریق (کیلکولیشن) ہو جاتی ہے جبکہ مینوئل طریقے سے سات منٹ میں کر لیتے ہیں، دنیا میں جو سونامی ارلی وارننگ سینٹرز ہیں، ان کے ساتھ معلومات اور قابلیت کا تبادلہ کرتے ہیں۔
 
’گوادر حساس ہے‘
بلوچستان کی بندرگاہ اور چین پاکستان اقتصادی راہداری کا مرکز گوادر اپنے محل وقوع کی وجہ سے سونامی کے حوالے سے حساس سمجھا جاتا ہے۔
 
امیر حیدر کے مطابق گوادر دونوں طرف سے سمندر کے حصار میں ہے وہاں کی آبادی کو سائٹ ایریا بھی بنا کر دیا گیا ہے اور وہاں پر باقاعدہ سیڑھیاں بھی بنی ہوئی ہے، ہر علاقے کی مختلف سائئٹس ہیں، پہلے مرحلے میں کہاں جانا ہے، دوسرے مرحلے میں کہاں پہنچنا ہے اور انھیں بروشر بھی دیے ہیں کہ انھوں نے گھر سے کیا کیا چیزیں اٹھانی ہیں۔
 
اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی نے 2008 میں گوادر میں پائلٹ پراجیکٹ شروع کیا، جس میں لوگوں کو سونامی کی آگاہی اور تربیت فراہم کی گئی، اس پراجیکٹ کی کوآرڈینیٹر غزالہ نعیم نے سنہ 1945 کے سونامی کے چشم دید گواہوں کے اپنی ٹیم کے ہمراہ انٹرویوز بھی کیے۔
 
غزالہ نعیم کا کہنا ہے کہ 50 ہزار بچوں کو تربیت فراہم کی گئی ہے۔
 
مقامی اداکاروں کی مدد سے ڈرامہ بنایا، جو کیبل کے ذریعے چلایا جاتا تھا اور 10 کے قریب کتابچے معلومات اور کہانی کے طرز پر تحریر کیے گئے، گوادر کے علاوہ پسنی میں بھی لوگوں کو بتایا گیا کہ کس طرح نقل مکانی کرنی ہے اور کن مقامات کی طرف جانا ہے۔
 
’کام میں تسلسل نہیں ہے، پاکستان میں کئی ملین ڈالرز خرچ ہو چکے ہیں، جاپان سے لے کر یو این ڈی پی اور یونسکو تک کے منصوبے شروع ہوئے۔ ان میں حکومت ساتھ ہوتی ہے اور کام کرتی ہے لیکن جب پراجیکٹ ختم ہو جاتا ہے اس کا تسلسل برقرار نہیں رکھا جاتا ہے۔
 
سونامی کی قدرتی نشانیاں
کیا سائنسی طریقہ کار کے علاوہ سونامی کی آمد کی کچھ قدرتی نشانیاں بھی ہیں؟
 
غزالہ نعیم کہتی ہیں کہ سونامی کی کچھ علامات ہیں۔ ’اگر زلزلہ محسوس ہو اور اتنا شدید ہو کہ آپ کھڑے نہ ہو پائیں تو فوری گھر سے نکل کر سمندر کی مخالف سمت میں جائیں، اگر مینگرووز ہیں تو اس کے پیچھے بھی جا سکتے ہیں، پسنی کے لوگوں نے بتایا تھا کہ انھوں نے ریت کے ٹیلوں کے پیچھے پناہ لی تھی۔
 
انھوں نے بتایا کہ سنہ 1945 کے سونامی کے چشم دید گواہوں نے انھیں بتایا تھا کہ سمندر سے اتنا شور آ رہا تھا جیسے ہزاروں جہاز اور ٹرینیں ساتھ آرہی ہوں۔ ’سونامی میں سمندر پیچھے چلا جاتا ہے، آپ نے ڈر کر یا باعث دلچسپی سمندر کی طرف نہیں جانا ہے کیونکہ تھائی لینڈ میں سیاحوں نے سمندر کے بدلتے تیور میں دلچسپی لی اور جیسے ہی سمندر کا فرش خالی ہوا یہ سیپیاں جمع کرنے چلے گئے اور سمندر کی لہر اٹھی اور اپنے ساتھ پانچ ہزار سیاحوں کو لے کر گہرے سمندر میں چلی گئی۔
 
غزالہ نعیم کہتی ہیں کہ مکران میں زلزلہ رات کو آیا تھا اس وقت کوئی انتظامیہ نہیں جاگ رہی ہوتی، دوسرا دور دراز علاقے ہیں جہاں آمد و رفت کا کوئی مؤثر وسیلہ نہیں ہے، لہٰذا لوگوں کو شعور اور آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔
 
ان کے مطابق ’سال میں کم از کم ایک بار تو سکولوں میں ڈرل کی جائے اور انھیں بتایا جائے کہ ہنگامی حالت میں کہاں جانا ہے۔ ’یہ بچے سفیر ہوتے ہیں یہ اپنے گھر میں جاکر یہ بتائیں گے اور یہ پیغام وہاں تک پہنچ جائے گا۔‘
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: