فون کیا تو پتا چلا کہ پورے خاندان کا انتقال ہوگیا ہے۔۔ مری سانحے کا شکار ہونے والے ایسے خاندان کی کہانی جس میں کوئی زندہ نہ بچا

image
 
“میرا بھائی کہیں نہیں جاتا تھا۔ زندگی میں پہلی بار بچیوں کے کہنے پر مری چلا گیا۔ بچی نے کہا تھا کہ صبح جائیں گے اور شام کو واپس آجائیں گے لیکن کون جانتا تھا کہ یہ واپسی اب کبھی نہیں ہوگی“-
 
یہ کہنا ہے مری سانحے میں اپنے پورے خاندان سمیت موت کا شکار ہونے والے شہزاد صاحب کے بھائی کا جنہوں نے اپنے مرحوم بھائی کو بیٹے کی طرح پال پوس کر بڑا کیا تھا۔ محمد ابراہیم کا کہنا ہے کہ ان کا بھائی بہت اچھا انسان تھا اور ان کے دوستوں کی طرح رہتا تھا۔
 
فوجی نے فون اٹھا کر بھتیجی کے انتقال کی اطلاع دی
محمد شہزاد کے ایک اور بھائی محمد جہانگیر نے بتایا کہ وہ مری کی خبریں دیکھ کر پریشان تھے اور جب انھوں نے اپنی بھتیجی کو فون کیا تو ایک فوجی نے فون اٹھا کر بتایا جس بچی کی جیب سے فون ملا ہے اس کا انتقال ہوچکا ہے۔ تھوڑی دیر بعد پتا چلا کہ گاڑی برف کے اندر دھنسی ہونے کی وجہ سے پورے خاندان کا انتقال ہوگیا ہے۔ یہ خبر سنتے ہی محمد جہانگیر نے پورے خاندان کو اطلاع دی اور اپنے بھائی کے گھر تالے توڑ کر داخل ہوئے اور قرآن خوانی شروع کروائی۔
 
image
 
گھر والوں کے سوا ہر چیز اپنی جگہ موجود ہے
محمد جہانگیر کہتے ہیں کہ مرحوم شہزاد کے گھر میں سناٹا تھا۔ ہر چیز اسی جگہ موجود تھی جیسے وہ جانے سے پہلے چھوڑ کر گئے تھے۔ یہاں تک کہ فریج کے اندر دودھ کی دیگچی بھی بالکل ویسے ہی رکھی تھی۔ سارے گھر میں کمی تھی تو ان لوگوں کی جو وہاں رہا کرتے تھے۔
 
آخری کال پر کہا کہ میرے لئے دعا کرو
محمد شہزاد کے ایک شاگرد جو ان کے ساتھ ورک شاپ پر کام کرتے تھے، سیاست ڈاٹ پی کے کو بتایا کہ محمد شہزاد نے آخری رابطہ ان سے ہی کیا تھا “میری ان سے چند سیکنڈ ہی بات ہوئی جس میں ان کا کہنا تھا کہ “یہاں بہت برف باری ہورہی ہے میرے لئے دعا کرو کہ اللہ آسانی پیدا کرے“ اس کے بعد انھوں نے خود کال کاٹ دی۔
 
image
 
محمد شہزاد کے بھائی اور محلے والوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت ہیلی کاپٹر بھیج کر لوگوں کو بچانے کی کوشش کرتی تو شاید آج شہزاد اور ان کے بچے اپنے گھروں میں موجود ہوتے لیکن ایسا نہ ہوا اور بھرا ہوا گھر ویران ہوگیا۔
YOU MAY ALSO LIKE: