زندہ انسان پر زندہ قُرآن کی زندہ حُجت !

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ یٰسٓ ، اٰیت 68 تا 76 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
من نعمره
ننکسه افلا
یعقلون 68 وما
علمنٰه الشعر وما
ینبغی لهٗ ان ھوالّا ذکر
و قراٰن مبین 69 لینذر من
کان حیا ویحق القول علی الکٰفرین
70 اولم یروااناخلقنالھم مما عملت ایدینا
انعاما فھم لھامٰلکون 71 وذللنٰہا لھم فمنہارکوبھم
ومنہایاکلون 72 ولھم فیہا منافع ومشارب افلایشکرون 73
واتخذوامن دون اللہ اٰلھة لعلھم ینصرون 74 لایستطیعون نصرھم
وھم لھم جند محضرون 75 فلایحزنک قولھم انا نعلم مایسرون ومایعلنون
76 اولم یرالانسان اناخلقنٰه من نطفة فاذاھو خصیم مبین 77 وضرب لنا مثلا ونسی
خلقه قال من یحی العظام وھی رمیم 78 قل یحییھاالذی انشاھا اول مرة وھوبکل خلق علیم
79 الذی جعل لکم من الشجر الاحضر نارا فاذاانتم منه توقدون 80 اولیس الذی خلق السمٰوٰت والارض
بقٰدر علٰی ان یخلق مثلھم بلٰی وھوالخلٰق العلیم 81 انماامره اذا اراد شیئا ان یقول له کن فیکون 82 فسبحٰن
الذی بیده ملکوت کل شئی والیه ترجعون 83
اہلِ زمین و اہلِ زمانہ تو تاحال یہ سادہ سی بات بھی نہیں سمجھ پاۓ ہیں کہ ھم جس انسان کو اپنے حُسنِ بیان کا ترجمان بناتے ہیں تو ھم اُس انسان کی منزلِ حیات و مرکزِ خیالات کو تخلیق کے اُس سچے زمانے میں لے جاتے ہیں جس سچے زمانے میں اُس کے سارے خیال بھی سچے اور اُس کے سارے اقوال بھی سچے ہوتے ہیں ، ھم نے اسی مقصد کی تَکمیل کے لیۓ اپنے نبی کو اُس کی تخلیق کے اُس سچے زمانے میں پُہنچایا ھے اور ھم نے اُس کو ایک شاعرِ خوش بیان بنانے کے بجاۓ اپنے اُس قُرآن کا عالم و عامل بنایا ھے جو ہر جان و جہان کے لیۓ ھمارا ایک یادگار تُحفہِ ھدایت ھے ، ھمارے اِس عمل کی غایت یہ ھے کہ ھمارا رسُول ہر زندہ انسان پر ھمارے اِس زندہ قُرآن کو ایک زندہ و تابندہ حُجت بنا دے ، کیا انسان نے ھماری اِس ھدایت سے پہلے ھمارے اِس انعام پر بھی غور نہیں کیا ھے کہ ھم نے اپنے دَستِ قُدرت سے زمین میں اُس کے لیۓ وہ تابع دار چوپاۓ بناۓ ہیں جن میں سے کُچھ چوپائیوں کا وہ گوشت کھاتا ھے اور کُچھ چوپائیوں کو وہ اپنی سفری سواری بناتا ھے اور وہ اِن سے اور بھی بہت سے نفع بخش کام لیتا رہتا ھے اور اسی طرح ھم نے زمین میں انسان کے لیۓ کھانے پینے کی بیشمار چیزیں بھی پیدا کی ہیں تو کیا وہ ھماری اِن نعمتوں سے صرف فائدہ اُٹھاۓ گا اور ھمارے پیغامِ توحید اور ھمارے رسُول کی رسالت پر کبھی بھی ایمان نہیں لاۓ گا اور ہمیں چھوڑ کر ہمیشہ ہی اپنے خیالی خُداوں کو اپنا حاجت روا بناۓ گا اور اُن کی اِس بے اختیاری و بے اعتباری کو جانتے ہوۓ بھی اُنہی کا حاضر باش غلام بنا رھے گا لیکن آپ انسان کے اِس طرزِ عمل پر آزردہ و افسردہ ہونے کے بجاۓ انسان کی نافرمانی کی اِس تاریخ کو پیش نظر رکھیں کہ ھم نے اِس کو ایک قطرے سے دجلہ اور ایک ذَرے سے آفتاب بنایا ھے اور ھم سے یہ ھماری توانائی پانے کے بعد ھمارے ہی مقابلے میں کھڑا ہو گیا ھے اور ھماری تخلیق ہونے کے باوصف بھی ھم سے ھماری ہی تخلیق کے بارے میں یہ سوال کر رہا ھے کہ جب اُس کی ہڈیاں گل سڑ جائیں گی تو اُن کون زندہ کون کرے گا ، سو اے ھمارے رسُول ! آپ انسان پر یہ اَمر واضح کر دیں کہ انسان کی اِن ہڈیوں کو وہی اللہ دوبارہ زندہ کرے گا جس نے انسان کو پہلی بار پیدا کیا ھے اور جو اِن سب کی پیدائش کو جانتا ھے اور اُس اللہ کی کی قُوتوں اور قُدرتوں کا یہ عالَم ھے کہ اُس نے سبز درختوں کی رگوں میں وہ آگ جمع کر رکھی ھے جس کو انسان جلاتے اور کام میں لاتے ہیں اور وہ وہی اللہ ھے جس بڑے بڑے آسمانوں اور بڑی بڑی زمینوں کو پیدا کیا ھے اِس لیۓ تُم خود ہی سوچو کہ اُس دانا و بینا اور فعال و خلّاق اللہ کے لیۓ اِن چھوٹے چھوٹے جسموں کو پیدا کرنا کون سا مُشکل کام ھے ، اُس کی تو قُوتوں اور قُدرتوں کا یہ عالَم ھے کہ اگر وہ کسی چیز کو وجُود میں لانے کے لیۓ ایک لفظ ہوجا کہتا ھے تو وہ چیز فورا ہی ہوجاتی ھے اور وہ عالَم کا ایک ایسا خلّاق ھے جو اپنی کسی نہ کسی نئی تخلیق کے لیۓ ہر لَمحہ و ہر آن مُتحرک و فعّال رہتا ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
سُورَہِ یٰسٓ کی اِن آخری 15 اٰیات کا مرکز و محور اِن اٰیات کی وہ پہلی دو اٰیات ہیں جن کے سمجھنے کا دار و مدار اِس بات پر ھے کہ اگر اِن دو اٰیات کا معنوی رَبطِ سمجھ آجاۓ تو اِس مضمون کی ساری اٰیات کا سارا مضمون سمجھ آجاتا ھے لیکن اگر اِن پہلی دو اٰیات کا معنوی رَبط سمجھ نہ آۓ تو پھر اِن ساری اٰیات کو اِس طرح ٹکڑوں ٹکڑوں میں بیان کرنا ہی مُمکن ہوتا ھے جس طرح روایتی اہلِ تفسیر نے اِن کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے بیان کیا ھے جس کی مثال اہلِ روایت کے ایک بڑے ترجمان مولانا ابوالاعلٰی مودودی کی اِن دو اٰیات میں سے پہلی اٰیت کی یہ ترجمانی ھے کہ { جس شخص کو ھم لمبی عمر دیتے ہیں اس کی ساخت کو ھم الٹ ہی دیتے ہیں ، کیا ( یہ حالات ) دیکھ کر انہیں عقل نہیں آتی } مولانا مودودی مرحوم نے اِس پہلی اٰیت کی اِس ترجمانی کے بعد دُوسری اٰیت کی دُوسری ترجمانی اِس طرح کی ھے کہ { ہم نے اس ( نبی ) کو شعر نہیں سکھایا ھے اور نہ شاعری اِس کو زیب ہی دیتی ھے ، یہ تو ایک نصیحت ھے اور صاف پڑھی جانے والی کتاب ، تاکہ وہ ہر اس شخص کو خبردار کردے جو زندہ ہو اور انکار کرنے والوں پر حُجت قائم ہو جاۓ } اِس کے بعد مرحوم نے سلسلہِ کلام کی پہلی اٰیت کی یہ تشریح کی ھے کہ { ساخت الٹ دینے سے مُراد یہ ھے کہ اللہ تعالٰی بڑھاپے میں آدمی کی حالت بچوں کی سی کردیتا ھے ، اُسی طرح وہ چلنے پھرنے سے معذور ہو تا ھے ، اُسی طرح دُوسرے اُسے اُٹھاتے بٹھاتے اور سہارا دے کر چلاتے ہیں ، اُسی طرح دُوسرے اس کو کھلاتے پلاتے ہیں ، اُسی طرح وہ اپنے کپڑوں میں اور اپنے بستر پر رفع حاجت کرنے لگتا ھے ، اُسی طرح وہ ناسمجھی کی باتیں کرتا ھے جس پر لوگ ہنستے ہیں ، غرض جس کمزوری کی حالت سے اُس نے دنیا میں اپنی زندگی کا آغاز کیا تھا اختتامِ زندگی پر وہ اسی حالت کو پہنچ جاتا ھے } اور مولانا مرحوم نے سلسلہِ کلام کی دُوسری اٰیت کی یہ تشریح کی ھے کہ { یہ اس بات کا جواب ھے کہ کفار توحید و آخرت اور زندگی بعد موت اور جنت و دوزخ کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی باتوں کو محض شاعری قرار دے کر اپنے نزدیک بے وزن ٹھیرانے کی کوشش کرتے تھے } اِن اٰیات کی یہ ترجمانی و تشریح تنہا مولانا مودودی نے ہی نہیں کی ھے بلکہ دیگر روایت پرست بزرگوں نے بھی یہی ترجمانی و تفسیر کی ھے اور ھم ایسے مواقع پر مولانا مودودی کا حوالہ صرف اِس لیۓ دیتے ہیں کہ اُن کی تحریر دُوسرے بزرگوں کی تحریروں کے مقابلے میں مثال کے لیۓ زیادہ قابلِ فہم ہوتی ھے ، بہر حال ہمیں اِن میں سے کسی ترجمان کی کسی ترجمانی اور کسی مُفسر کی کسی تفسیر پر بھی کوئی اعتراض نہیں ھے ، ہمیں جو اعتراض ھے وہ اُن کی اُس ترجمانی و تفسیر کے بے مقصد و بے معنی ہونے پر ھے کیونکہ اُن کی اِس ترجمانی و تفسیر کے مطابق اِن دونوں اٰیات و مضمونِ اٰیات کا باہم دیگر کوئی رَبط بھی نہیں ھے اور اِس ترجمانی و تفسیر کے مطابق اِن اٰیات اور اِن کے مضمونِ اٰیات کا کوئی مقصد و مُدعا بھی نہیں ھے ، اِس ترجمانی و تفسیر میں سب سے پہلی خرابی یہ ھے کہ اٰیت کے متن میں تو حرفِ { من } تبعیض کے لیۓ آیا ھے جس سے بعض بوڑھے لوگ مُراد ہیں لیکن اِس اٰیت کے ترجمہ کاروں اور تفسیر کاروں نے ہر بوڑھے کی یہی ایک مُشترکہ کیفیت بیان کی جو قُرآن کے مقصد کے بھی خلاف ھے اور عام انسانی مشاھدے کے اعتبار سے بھی درست نہیں ھے کیونکہ ہر بوڑھے آدمی کا یہ اَحوال ہرگز نہیں ہوتا جو ان اہلِ تفسیر نے بیان کیا ھے اور بفرضِ محال اگر ہر بوڑھے کا بڑھاپا اس طرح خراب ہونے کا کوئی اچانک حادثہ ہو بھی جاۓ تو انسانی بڑھاپے کی اِس خرابی کا آخر نبی علیہ السلام کے شاعر ہونے یا شاعر نہ ہونے سے کیا تعلق ھے اور اِن دونوں اٰیات کا دیگر اٰیات کے ساتھ کیا تعلق ھے اور اِن ساری اٰیات کا وہ مقصد و مُدعا کیا ھے جو اللہ تعالٰی اہلِ ایمان کو سمجھانا اور سکھانا چاہتا ھے ، حقیقت یہ ھے کہ اِن بے جان ترجموں اور اِن بے مغز تفسیروں کے یہی وہ مفاسدِ جلی و خفی ہیں جن کی بنا پر ھم نے اٰیاتِ بالا کی وہ تعبیر اختیار کی ھے جو اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا میں ھم نے درج کی ھے اور اُس مفہوم کے مطابق اِس سے نبی علیہ السلام کی وہ ذاتِ گرامی مُراد ھے جس کو اللہ تعالٰی نے آپ کے اُس معصوم بچپن کی طرف پھیر دیا تھا جس معصوم بچپن میں انسان کے خیال و اقوال میں سچ ہی سچ ہوتا ھے سچ کے سوا کُچھ بھی نہیں ہوتا اور اہلِ زبان کے اُسلوبِ کلام میں بھی اُس معصوم بچپن کو فرشتوں کی معصومیت سے تشبیہ دی جاتی ھے اور اِس کلام کا مُدعاۓ کلام بھی کفار و مشرکین پر یہ ظاہر کرنا ھے کہ ھمارے اِس پیغام بر کا کلام نہ تو شاعروں کے مبالغہ آمیز کلام کی طرح کوئی مبالغہ آمیز کلام ھے ، نہ ہی کاہنوں کے کلام کی طرح سچ اور جھوٹ کا کوئی ملغوبہ ھے اور نہ ہی عام انسانوں کے مصلحت آمیز کی طرح کوئی مصلحت آمیز کلام ھے بلکہ یہ تو معصوم بچوں کے بیغرض کلام کی طرح ایک بیغرض کلام اور فرشتوں کے پاکیزہ کلام کی طرح ایک پاکیزہ کلام ھے جو انسانی دلوں میں پاکیزگی پیدا کرنے کے لیۓ اللہ تعالٰی کی طرف سے محمد علیہ السلام کے پاکیزہ دل پر نازل کیا گیا ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558403 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More