#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالاَحزاب ، اٰیت 50 تا 52
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
یٰایھاالنبی
انا احللنالک ازواجک
الٰتی اٰتیت اجورھن وماملکت
یمینک مماافاءاللہ علیک وبنٰت عمک
و بنٰت عماتک وبنٰت خالک وبنٰت خٰلٰتک الٰتی
ھاجرن معک وامراة مومنة ان وھبت نفسھا للنبی
ان ارادالنبی ان یستنکحھا خالصة لک من دون المؤمنین
قد علمنا مافرضنا علیھم فی ازواجھم وماملکت ایمانھم لکیلا
یکون علیک حرج وکان اللہ غفورارحیما 50 ترجی من تشاء منھن وتئوی
الیک من تشاء ومن ابتغت ممن عزلت فلاجناح علیک ذٰلک ان تقر اعینھن ولا
یحزن ویرضین بمااٰتیتھن کلھن واللہ یعلم مافی قلوبکم وکان اللہ علیما حکیما
51
لایحل لک النساء من بعد ولاان تبدل بھن من ازواج ولو کان حسنھن الّا ماملکت
یمینک
وکان اللہ علٰی کل شئی رقیبا 52
اے ھمارے نبی ! ھم نے وہ تمام عورتیں آپ کے نکاح کے لیۓ جائز کی ہوئی ہیں
جن کی آپ کفالت کرتے ہیں ، وہ عورتیں بھی جائز قرار دی ہیں جو آپ کے زیرِ
معاہدہ ہیں ، اسی طرح آپ کے والد کے بھائی و بہن اور آپ کی والدہ کے بھائی
و بہن کی اُن زرینہ اَولادوں کے ساتھ بھی آپ کے رشتے روا ہیں جنہوں نے آپ
کے ساتھ اپنے گھروں سے ہجرت کی ھے اور اُن عورتوں کے ساتھ بھی ایسا ہی حسنِ
معاملت روا ھے جنہوں نے آپ کو اپنی جان کا نگران بنالیا ھے ، اگر آپ اُن
عورتوں کے نگرانِ کار کے طور پر اُن عورتوں کو بھی اپنے ادارہِ نکاح کے
ذریعے دائرہِ نکاح میں لانا چاہیں تو اِس کا بھی آپ کو اختیار ھے لیکن یہ
اختیار ہر مسلمان کے لیۓ ایک ایسا عمومی اختیار نہیں ھے کہ جو مسلمان بھی
چاھے وہ اپنی اپنی مرضی کے فیصلے کرتا پھرے بلکہ یہ آپ کا ایک خصوصی اختیار
ھے کیونکہ یہ بات تو اللہ ہی سب سے بہتر جانتا ھے کہ کس کو یہ اختیار دینا
نتیجہ خیز ہو سکتا ھے اور کس کو یہ اختیار دینا نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا ھے
، آپ اِن عورتوں میں سے کُچھ عورتوں کو اپنی صوابدید کے مطابق کارِ نبوت کے
لیۓ مفید جان کر خود سے قریب بھی رکھ سکتے ہیں اور کُچھ عورتوں کو غیر مفید
جان کر خود سے دُور بھی کر سکتے ہیں کیونکہ اِس حُکم کی حکمت و حقیقت یہ
اَمر ھے کہ اتنے مصائب جھیلنے کے بعد اَب تو اِن جان باز عورتوں کی آنکھیں
ٹھنڈی ہوجائیں اور یہ عورتیں تو اتنی آزمائشوں سے گزرکر یہاں تک پُہنچی ہیں
کہ اَب آپ جو بھی اِن کو دے دیں گے یہ اُسی پر راضی ہو جائیں گی ، ادارہِ
نکاح میں شامل کرنے کے لیۓ ھم نے عورتوں کے جس مجبور معاشرتی دائرے کا ذکر
کیا ھے اِس وقت آپ نے اُن عورتوں کے اُسی مجبور معاشرتی دائرے کا خیال
رکھنا ھے اور اُس دائرے سے باہر کسی آسودہ حال دائرے پر نگاہ بھی نہیں
ڈالنی ھے چاھے وہ دائرہ اور اُس کے اہلِ دائرہ کتنے ہی دل کش کیوں نہ ہوں
تاہم آپ کی زیرِ معاہدہ عورتیں ھماری اِس پابندی سے مُتثنٰی ہیں اور یاد
رکھیں کہ اللہ ہر ایک انسان کے ہر ایک عمل کو ہمہ وقت اپنی نگاہ میں رکھتا
ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا میں بیان کیۓ گۓ اِس مضمون کو سمجھنے کے لیۓ سب
سے پہلے انسان کو یہ بات سمجھنی چاہیۓ کہ قُرآنِ کریم اللہ تعالٰی کے جو
اَحکامِ اَمر و نہی بیان کرتا ھے اُن اَحکامِ اَمر و نہی میں سے جس عمل کے
بجا لانے کا حُکم دیا جاتا ھے اُس عمل سے انسان جان جاتا ھے کہ اِس عمل کے
مُخالف عمل کی اُس کے لیۓ مُمانعت ہوگئی ھے اور جس عمل سے انسان کو منع کیا
جاتا ھے اُس سے بھی انسان جان جاتا ھے کہ اِس عمل کے مُخالف عمل کی اُس کو
اجازت دے دی گئی ھے اور نبی علیہ السلام کی جس ہستی کے ذریعے اللہ تعالٰی
انسان کو یہ اَحکامِ اَمر و نہی دیتا ھے کبھی تو اُس ہستی کی ذات کو بھی
اِن احکامِ اَمر و نہی میں شامل کرلیتا ھے اور کبھی اُس ہستی کی ذات کو
شامل کیۓ بغیر ہی انسان کو اُس کی زبان سے کوئی حُکمِ اَمر یا حُکم نہی دے
دیتا ھے ، نبی کی ذات کو حُکم میں شامل کرنے کی مثال تو اٰیاتِ بالا کا یہی
مضمون ھے جس کے اِس حُکم میں اُمت کے جُملہ اَفراد کے ساتھ نبی علیہ السلام
کی ذاتِ گرامی بھی شامل فی الحُکم ھے اور نبی علیہ السلام کو حُکم میں شامل
کیۓ بغیر براہِ راستت اَفرادِ اُمت کو نبی علیہ السلام کی زبان سے حُکم
دینے کی مثال سُورَةُالنساء کی اٰیت 23 ھے جس میں انسان کو براہِ راست
اَحکامِ نہی دیۓ گۓ ہیں اور اِن احکام میں نبی علیہ السلام کی ذاتِ گرامی
کا ذکر شامل کیۓ بغیر بھی شاملِ ذکر ھے لیکن بُنیادی طور پر اِن دونوں
مقامات پر دیۓ گۓ دونوں اَقسام کے اَحکام اَفرادِ اُمت کی تعلیم کے لیۓ دیۓ
گۓ ہیں جن میں نبی علیہ السلام بذاتِ خود بھی ایک مُعلم کے طور پر شاملِ فی
الاَحکام ہیں ، اگر اٰیتِ بالا کے یہ اَحکام صرف نبی علیہ السلام کی ذات کے
لیۓ خاص ہوتے تو اِن اَحکام کی حیثیت ، اہمیت اور واقعیت اِس واقعیت سے
مُختلف مُختلف ہوتی جو اٰیتِ بالا کی اِس واقعیت میں نظر آتی ھے ، اٰیاتِ
بالا کے اِس مفہومِ بالا کی تفہیمِ مزید کے لیۓ دُوسری جو بات سمجھنا لازم
ھے وہ یہ ھے کہ اِس سُورت کی اٰیت 40 میں { ماکان محمد ابا احد من رجالکم }
میں اللہ تعالٰی کا جو فیصلہ وارد ہوا ھے وہ فیصلہ اِس اُمت کے کُچھ خاص
رجال کے بارے میں نازل ہونے والا ایک خاص فیصلہ نہیں ھے بلکہ اُمت کے عام
رجال کے بارے میں نازل کیا گیا ایک عام فیصلہ ھے جس کی عمومیت کی رُو سے
اِس اُمت کے تمام اَفرادِ اُمت کے ابنِ رسُول ہونے کی نفی کی گئی ھے اور
اسی فیصلے کے ایک عقلی و مَنطقی نتیجے میں جُملہ نساۓ اُمت نبی علیہ السلام
کی رُوحانی ولدیت کے تابع ہو چکی ہیں کیونکہ رجال کی اِبنیت کی مُطلق نفی
نساء کی بِنتیت کے مُطلق اِثبات کو لازم کرتی ھے ، بادی النظر میں قُرآن کے
اِس حُکم کا مقصدی مفہوم یہ ھے کہ آپ نے اَب تک جو نکاح کرلیا ھے وہ کرلیا
ھے اِس کے بعد آپ نے مزید کوئی نکاح نہیں کرنا ھے اور اٰیاتِ بالا کے
مفہومِ بالا کو سمجھنے کے لیۓ جو تیسری بات سمجھنی لازم ھے وہ یہ ھے کہ
جنگِ اَحزاب کو اہلِ روایت جنگ خندق کہتے ہیں اور اِس خندق کی چوڑائی وہ 10
گز اور گہرائی 5 گز بتاتے ہیں جس کو عبور کرنا کوئی اَمرِ محال نہیں ھے اِس
لیۓ مان لیجیۓ کہ بیرونی حملہ آور شہرِ مدینہ کے تین ہزار تیر اندازوں کے
تیروں کی زد میں آنے اور اُن کے گھوڑے اُس خندق کو اہلِ شہر کی مُسلسل تیر
اندازی کے باعث عبور نہیں کر سکتے تھے مگر جب قُدرت کی بہیجی ہوئی آندھی سے
اُن کے خیمے اُڑ گۓ تھے ، اُن کے گھوڑے بدک کر بھاگ گۓ تھے ، اُن کی جلائی
ہوئی آگ کے شُعلے لپک لپک کر اُن کی اپنی جانوں کو جلا رھے تھے اور اُن کے
اونٹ اُن کے گھائل جسموں کو کُچل کر مزید گھائل کر رھے تھے تو اُس وقت شہرِ
مدینہ کے مُسلح عساکر اُس خندق کے کنارے پر کھڑے ہو کر اُن بھاگتے دشمنوں
کا تماشا نہیں دیکھ رھے تھے بلکہ یہی وہ وقت تھا جب اہلِ ایمان کے اُن کے
گھوڑوں اور اُن گُھڑ سواروں نے اُس خندق کو عبور کر کے حق کے اُن جارح
دشمنوں کی مشکیں کسنا شروع کردی تھیں اور صُبح کی پہلی کرن نمودار ہونے سے
پہلے ہی انہوں نے دُشمن کے بیشمار مرد و زن کو قیدی بنا لیا تھا اور اِن ہی
قیدیوں میں وہ بیشمار عورتیں بھی شامل تھیں جن پر رَب العالمین نے اپنے
رسُول کی رحمتہ العالمینی کا ابرِ رحمت برسانے کے لیۓ اپنے اُس رسُولِ رحمت
کو نکاح کا ایک ادارہ قائم کرنے کا حُکم دیا تھا اور اُن عورتوں کے لیۓ آپ
کو یہ حُکم دیا تھا کہ اُن عورتوں میں سے جو بھی مجبور و حال گزیدہ عورت آپ
کے پاس آۓ اور آپ کو اپنی جان کا نگرانِ کار بناۓ آپ اُس عورت کی ایک باپ
کی طرح سرپرستی کر کے اُس کا نکاح کرائیں ، اِن میں سے جو عورتیں ایمان لے
آئیں تو اُن کی تعلیم و تربیت کے لیۓ آپ چاہیں تو اُن میں سے کُچھ عورتوں
کو اپنے قرب و جوار میں رہنے دیں اور چاہیں تو اُن کو خود سے فاصلے پر رہنے
دیں لیکن ان عورتوں میں سے آپ کے قریب رہنے کی وہ عورتیں سب سے زیادہ حق
دار ہیں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ھے اور جنہوں نے آپ سے مطلوبہ تعلیم و
تربیت بھی حاصل کر لی ھے ، ہمیں سخت حیرت ھے کہ اہل روایت نے اِس اٰیت کے
ایک لفظ { ان وھبت نفسھا } سے اپنی بد باطنی کا جو طوفان اُٹھایا ھے وہ یہ
ھے کہ ایک طرف تو آپ کی مُتعدد منکوحہ بیویاں بھی موجُود تھیں تو دُوسری
طرف ایک اسپیشل کوٹے کے طور پر اللہ تعالٰی نے آپ کو یہ اجازت بھی دے دی
تھی کہ اِن میں سے جو عورت آپ کے پاس آکر آپ کو اپنا جسم پیش کرے تو آپ اُس
کے جسم سے بھی تمتع حاصل کریں ، اِس کے علاوہ اِن قُرآن دشمن اہلِ روایت نے
اِس اٰیت کے ایک اور لفظ { ماملکت یمینک } سے بھی یہ ثابت کرنے کی کوشش کی
ھے کہ آپ کی اُن مُتعدد بیویوں اور اسپیشل کوٹے کے طور پر آپ کے پاس آنے
والی عورتوں کے علاوہ لونڈیوں کی ایک فوج ظفر موج بھی آپ کو رکھنے کی خصوصی
اجازت دی گئی تھی حالانکہ سُورَةُالنساء کی اٰیت 3 میں اللہ تعالٰی نے
یتیموں کی کفالت کے ضمن میں جہاں دو دو تین تین اور چار چار عورتوں کے ساتھ
نکاح کی ایک خاص ضرورت کے تحت نکاح کی اجازت دی ھے تو وہاں پر یہ بات بھی
واضح کردی ھے کہ اگر تُم کو ضرورت کے تحت نکاح میں لائی گئی اِن عورتوں کے
ساتھ انصاف کے بجاۓ ناانصافی کا خدشہ ہو تو اِس صورت میں اُن میں سے کسی
ایک عورت کے ساتھ نکاح کرو یا اُسی ایک عورت کے ساتھ نباہ کرو جو پہلے سے
تُمہاری ملکِ یمین و زیرِ معاہدہ بیوی ھے اور جس کے ساتھ تُمہارا پہلے سے
رشتہِ نکاح قائم ہو چکاھے لیکن اِن سارے قُرآنی حقائقِ ثابتہ کے باوجُود
بھی اِن لوگوں نے آپ کی اُجلی سیرت اور آپ کے اُجلے کردار کو داغ دار بنانے
والی وہ لاشمار بیہودہ روایات وضع و جمع کر رکھی ہیں جن کو پڑھ کر ایک شریف
انسان ہی نہیں بلکہ ایک قبیح انسان بھی شرم سے پانی پانی ہو جاتا ھے جب کہ
حقیقت یہ ھے کہ نبی علیہ السلام کے پوری زندگی دوران ایک بھی موہُوبہ عورت
ایک دن کے کسی ایک لَمحے کے لیۓ بھی آپ کے گھر میں داخل نہیں ہوئی ھے ، ہر
چند کہ اِن مکروہ لوگوں کی مکروہ روایات نقل کرنا بھی ایک مکروہ عمل ھے
لیکن ایک شرمناک نمونے کے طور پر شرمندگی کے ساتھ ھم بخاری کی کتاب النکاح
کی حدیث نمبر 5234 نقل کر رھے ہیں جس کا محدثانہ عنوان یہ درج کیا گیا ھے
کہ { مایجوز ان یخلوالرجل بالمراة عندالناس } یعنی کسی انسان کے لیۓ یہ بات
کسی طرح بھی جائز نہیں ھے کہ وہ لوگوں کے درمیان ہی کسی عورت کے ساتھ جنسی
تخلیۓ کا عمل کرے اور اِس عنوان کے ذیل میں ایک صحابیِ رسُول انس کے حوالے
سے یہ روایتِ حدیث درج کی ھے کہ { جاءت امراة من الانصار الی النبی فخلا
بھا } یعنی ایک انصاری عورت ایک بھری محفل کے درمیان نبی علیہ السلام کے
پاس آئی اور آپ نے اُس بھری محفل کے درمیان ہی اُس کے ساتھ خلوت کی ، امام
بخاری نے اِس عمل کے لیۓ خلوت کا یہ لفظ ایک عنوانِ جلّی کے ساتھ اِس لیۓ
درج نہیں کیا کہ وہ لفظِ خلوت کا وہ مفہوم سمجھانا چاہتے تھے جس کو ہر
انسان سمجھتا ھے بلکہ اُن کا اِس لفظ کو اپنی حدیث کا سرنامہ بنانا اِس
اَمر کی طرف انسان کی توجہ مبذول کرانا تھا کہ اُس انصاری عورت کے ساتھ یہ
عمل اُس بھری مجلس کے درمیان میں پیش آیا تھا جس مجلس میں آپ اُس وقت
موجُود تھے اور اِس عمل کے بعد آپ نے شرکاۓ محفل کے سامنے ہی اُس عورت سے
کہا تھا کہ { واللہ انکن لاحب الناس الیّ } یعنی میں خُدا کی قسم کھاتا ہوں
کہ تُم انصاری عورتیں مجھے دُنیا کی سب عورتوں سے زیادہ محبوب ہو ، سچ ھے
کہ ؏
چوں کفر اَز کعبہ برخیزد کجا مانند مسلمانی
|