2019 سے کرونا نے پاکستان میں قدم رکھے جوابھی تک جمائے
ہوئے ہے 2019 میں وفات پاگئے 2020 میں بھی کئی لوگوں کی جان لے گیا اور
2021 میں بھی سینکڑوں لوگقں کو اپنا شکار بنایا۔ جس ہسپتال میں بھی جائیں
وہاں پرہر کوئی ڈاکٹرز کے بارے میں پوچھتا ہے اور لوگ سسٹریعنی نرسز کو وہ
عزت وقر نہیں دیتے جس کی وہ حقدار ہوتی ہے حالانکہ وہ بھی کوالیفائڈ ہوتی
ہے اورکء لوگوں کی مخالفت اور بڑی مشقت کے بعد وہ لڑکی سے نرس بنتی ہے
کرونا کے دور میں ہم نے دیکھا کہ کئی ہمارے ملک میں ڈاکٹروں کی کمی تو تھی
مگر ہزاروں کی تعداد میں نرسز کہ ضرورت تھی اسی حوالے سے خبروں اور کالمز
کے ذریعے آگاہی بھی دی جس پر کئی ادارے عمل پیرا بھی ہیں۔ ہمارے لاہور کے
کئی نامور لکھاریوں کوبہاولپور یونیورسٹی کے وائس چانسلرنے اسلامیہ
یونیورسٹی وزٹ کی دعوت دی جس پر ان لکھاریوں نے اپنی تحریروں کے موتی پروئے
ان تحاریر میں ایک تحریر یہ بھی تھی کہ اسلامیہ یونیورسٹی میں شعبہ نرسنگ
پرخصوصی توجہ دی جارہی ہے اور اس ادارے کا مشن ہے کہ ہمارے ملک میں نرسز کی
تعداد 90ہزار سے بڑھا کر 10لاکھ تک لے جائیں تاکہ ہمارے ملک کے علاوہ
دیگرممالک کے ہسپتالوں کو بھی ہماری سسٹرز یعنی سٹاف بھیجوائیں جس سے
دیگرممالک سے تعلقات بہترہونگے بلکہ کئی لوگوں کوروزگار بھی ملے گا۔ نرسنگ
کا شعبہ جس کے آغاز کا سہرا ایک مسلمان نرس رفیدہ السلاح کے سر جاتا ہے
نرسنگ پروفیشن آج پاکستان میں اپنے جائز مقام کا متمنی ہونے کے ساتھ اس بات
کا بھی خواہاں ہے کہ اس شعبے سے جڑے افراد بھی خلوص نیت کے ساتھ کام کریں
اور ان کے حوالے سے عام افراد میں جو شکایات پائی جاتی ہیں انہیں دور کریں۔
یقیناً یہی شعبہ نرسنگ کا پیغام ہے جسے اپنانے اور اس پر اپنے اپنے دائروں
میں عمل کرنے کی ضرورت ہے دیکھنا یہ ہے کہ اس پیشے سے وابستہ تقاضوں کو
نبھانے میں نرسنگ اسٹاف پہل کرتا ہے یا حکومت انہیں سہولیات فراہم کر کے یا
حکومتی ادارے سہولتوں کے حوالے سے موجود شکایات کا سدباب کرتے ہیں۔ بہر حال
کوشش جہاں سے بھی ہو یہ ایک حقیقت ہے کہ اس شعبے کو اس کا حقیقی مقام
دلوانے کے لئے دونوں جانب سے بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ محترم قارئین نرسنگ
شعبہ کیلئے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کو خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ یہ
کہنا چاہوں گی جو بھی ادارہ شعبہ نرسنگ کیلئے جدوجہدکررہاہے اسے
سلیوٹ۔نرسنگ وہ شعبہ ہے جو کسی بھی مریض کے زخموں پر مرہم رکھنے اور اس کی
صحت کی بحالی میں اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں یہ
ابھی تک اپنے حقیقی مقام سے بہت دور نظر آتا ہے۔ عالمی سطح پر نرس کو زیادہ
سے زیادہ چار مریضوں پر تعینات کیا جا سکتا ہے اور پاکستان میں ایسے کئی
ہسپتال موجود ہیں جہاں ایک وقت میں نرسنگ اسٹاف بیک وقت پچاس سے زائد
مریضوں کی دیکھ بھال کر رہا ہوتا ہے۔ سرکاری ذرائع کی جانب سے سامنے آنے
والے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک بھر کے سرکاری ہسپتالوں میں پچاس
ہزار سے زائد نرسوں کی کمی کا سامنا ہے۔ یہ نہیں کہ خالی آسامیاں عرصہ سے
خالی ہیں بلکہ سرکاری ذرائع کے مطابق وقتا فوقتاً نرسوں کی خالی آسامیوں پر
تقرریاں کی جاتی رہی ہیں اس کے باوجود اسٹاف کی کمی کا مسئلہ پھر تھوڑے
عرصے بعدپھر سراٹھالیتا ہے۔ اس حوالے سے نرسنگ ایسوسی ایشن اور مختلف نرنسگ
فیڈریشنوں کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں نرسنگ اسٹاف کو
کام زیادہ اور سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایک نرس کو اگر ایک وقت میں
پچاس مریض اٹینڈ کرنے ہوں تو یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ وہ انسان ہے یامشین
ایک انسان ہونے کے ناطے یہ اس کے لئے ممکن نہیں ہوتا اس پر بھی مشکل یہ ہے
کہ جن ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کے لئے تو وارڈ میں دو گھنٹے گزارنا شرط ہوں
وہاں نرسز صبح اور شام کی شفٹ میں چھ گھنٹے اور رات کی شفٹ میں بارہ گھنٹے
تک کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ جس وجہ سے ناصرف مریضوں کو مناسب توجہ نہیں
دی جاتی جو کہ مریضوں کے لواحقین کے غصے اور بعض اوقات ان کی جانب سے
جسمانی تشدد تک کا سبب بن جاتا ہے بلکہ یہ خود نرسنگ کے شعبے سے بھی زیادتی
کے مترادف ہے۔ نرسنگ کا شعبہ عام طور پر میڈیکل پروفیشن کا حصہ سمجھا جاتا
ہے حالانکہ یہ بالکل ایک الگ نوعیت کا شعبہ ہے جس کی ذمہ داریاں عملی طور
پر بعض اوقات ڈاکٹروں سے بھی بڑھ کر ہوتی ہیں۔ گیارہوں گریڈ میں چارج نرس
کے طور پر بھرتی ہونے والا نرسنگ اسٹاف چھ ہزار سے کچھ زائد تنخواہ سے اپنی
ملازمت شروع کرتا ہے اب خودسوچیں اتنی تنخواہ میں کس کاگزارا ہوسکتاہے یہ
نہ مریض اور نہ ہی اسٹاف کے لئے بہتر ہے۔ اس اضافی کام کے بوجھ, قلیل
سہولیات اور دیگر مسائل کی وجہ سے سرکاری ہسپتالوں میں ذیادہ تر نرسز صرف
تجربہ حاصل کرنے کے لئے ملازمت اختیار کرتے ہیں اور جونہی انہیں کسی بہتر
جگہ ملازمت کی آفرہوتی ہے وہ فوراً سرکاری ملازمت چھوڑ کر نجی ادارے یا
بیرون ملک کا رخ کرتے ہیں۔
|