نظامِ زمین و فلک اور انتظامِ زمین و فلک !

#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالصٰفٰت ، اٰیت 1 تا 21 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
الصٰفٰت صفا 1
والزٰجرٰت زجرا 2
فالتٰلیٰت ذکر 3 ان الٰھکم
لواحد 4 رب السمٰوٰت والارض
ومابینھما ورب المشارق 5 انازینا
السماء الدنیا بزینة الکواکب 6 وحفظا
من کل شیطٰن مارد 7 لایسمعون الی الملا
الاعلٰی ویقذفون من کل جانب 8 دحورا ولھم
عذاب واصب 9 الّا من خطف الخطفة فاتبعه شہاب
ثاقب 10 فاستفتھم اھم اشد خلقا ام من خلقنٰھم من
طین لازب 11 بل عجبت و یسخرون 12 واذاذکروالایذکرون
13 واذاراواٰیة یستسخرون 14 وقالواان ھٰذاالّاسحرمبین 15 او
اٰباؤناالاولون 17 قل نعم وانتم دٰخرون 18 فانما ھی زجرة واحدة
فاذاھم ینظرون 19 وقالوایٰویلنا ھٰذایوم الدین 20 ھٰذایوم الفصل الذی
کنتم بهٖ تکذبون 21
فلک میں اپنی قطاریں بنانے والے ، زمین پر زجر و توبیخ کرنے والے اور زمین و آسمان میں ھماری اِس کتاب کی اتباع کرنے والے اِن سارے لشکروں کو یقین ھے کہ تُمہارا مالک وہی ایک اللہ ھے جو ارض و سما کا خالق ھے اور جو ارض و سماء کے درمیان موجُود چیزوں کا مالک ھے اور جو ہر مشرق و مغرب کا نگران ھے ، اُس نے اپنے اِس نظامِ زمین و فلک اور اِس انتظامِ زمین و فلک کو چلانے کے لیۓ جو دیدہ و نادیدہ لشکر قائم کیۓ ہوۓ ہیں اُن لشکروں میں آسمان کی وسعتوں میں ڈُوبتے اُبھرتے تارے بھی اُس کے وہ مُتحرک لشکری ہیں جو اپنے دائرہِ عمل میں آنے والے ہر مُفسد کو فساد سے روکتے ہیں اور جو اُن بلندیوں کے کسی راز کی کسی کو بھی سُن گُن نہیں لینے دیتے اور اگر کوئی شیطانی قُوت اُدھر کا رُخ کرتی ھے تو وہ ہر سمت سے اُس کو مار مار کر بھگادیتے ہیں اور اگر کوئی شیطانی قُوت کوئی آسمانی راز اُچک لیتا ھے تو یہ شُعلہِ جوّالہ بن کر اُس پر ٹُوٹ پڑتے ہیں ، آپ ھمارے اِس صف بہ صف انتظام و انصرام کا انکار کرنے والوں سے پُوچھیں کہ اگر اِس عالَم میں اِن ٹُوٹتے جُڑتے تاروں کا بار بار توڑنا اور بار بار جوڑنا اللہ کے لیۓ کوئی مُشکل کا نہیں ھے تو پھر اپنی اُس مخلوق کو دُوسری بار بنانا کون سا مُشکل کام ھے جس کو پہلی بار اُس نے لیس دار مِٹی بنا کر اُس لیس دار میں بنایا تھا اور پھر اُس لیس دار مِٹی سے نکال کر زمین پر چلایا اور پھیلایا تھا اور آپ حق کے اِن مُنکروں کے اِس مسخرے پن پر تو بالکُل بھی حیران نہ ہوں جو دل لگی باتوں پر دل لگی اور نصیحت کی باتوں پر فضیحت کرتے ہیں اور جو قُدرت کی طرف سے قُدرت کی ظاہر ہونے والی نشانی کو سحر کہہ کر جُھٹلاتے ہیں اور بار بار یہی ایک بات دُھراتے ہیں کہ مرنے کے ھماری بکھری ہوئی ہڈیاں کس طرح آپس میں جُڑیں گی اور ھم کس طرح جی اُٹھیں گے اور پھر ھم سے بھی پہلے مرنے والے ھمارے باپ دادا کس طرح زندہ ہو جائیں گے ، آپ اِن سے کہیں کہ اِن سب لوگوں کا زندہ ہونا اُس ایک جِھڑکی کی بات ھے جس کو سُن کر وہ زندہ و حیران ہو کر کہیں گے ہاۓ ھماری خرابی کہ یہ تو وہی دن ھے جس کا ھم انکار کیا کرتے تھے اور اُس وقت اُن سے کہا جاۓ گا ہاں ! یہ وہی دن ھے جس کی تُم دل کھول کر تکذیب کیا کرتے تھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم کی یہ سُورت جو 182 اٰیات پر مُشتمل ھے وہ اپنی اٰیات کی اِس تعداد کے لحاظ سے قُرآنِ کریم کی دُوسری بڑی سُورت سُورَةُالشعراء سے 45 اٰیات چھوٹی اور قُرآنِ کریم کی تیسری بڑی سُورت سُورَہِ اٰلِ عمران سے صرف 18 اٰیات چھوٹی ھے ، قُرآنِ کریم کی اِس تیسری بڑی سُورت کے جو تین بڑے موضوعات ہیں اُن تین بڑے موضوعات میں پہلا بڑا موضوع توحید کا وہی عظیم اور قدیم موضوع ھے جو قُرآن کا بُنیادی موضوع ھے اور جس کا اِس سُورت میں اِس سُورت کی پہلی تین اٰیات کے بعد ہی آغاز ہو گیا ھے ، اِس سُورت کا دُوسرا بڑا موضوع ابراہیم علیہ السلام کی بُت شکنی کا وہ عظیم الشان واقعہ ھے جس عظیم الشان واقعے کے مطابق ابراہیم علیہ السلام نے انسانی تاریخ میں سب سے پہلی بار اپنے زمانے کے سب سے بڑے بُت خانے کے بے احساس بتوں کے سر قلم کر کے اُس زمانے کے سب بُت پرستوں پر اللہ تعالٰی کی توحید کی ایک عقلی و عملی دلیل پیش کی تھی ، ابراہیم علیہ السلام کی حیاتِ نبوت کا یہ عظیم الشان واقعہ اِس سُورت کی اٰیت 84 سے لے کر اٰیت 101 تک پھیلا ہوا ھے اور اِس عظیم الشان واقعے کے معا بعد وہ دُوسرا عظیم الشان واقعہ آیا ھے جس میں ابراہیم علیہ السلام اور آپ کے بیٹے اسماعیل علیہ السلام نے اللہ تعالٰی کے حُکم کے سامنے سربخم و سرنگوں ہوکر اللہ تعالٰی سے سر بلندی و سرخ رُوئی حاصل کی تھی ، اِس سُورت کا یہ عظیم الشان واقعہ بھی اِس سُورت کی اٰیت 102 سے لے کر اِس کی اٰیت 111 تک پھیلا ہوا ھے اور اِس اعتبار سے ابراہیم علیہ السلام کا یہ ذکرِ نبوت اِس سُورت کا سب سے نمایاں ذکر ھے جو اِس سُورت کی 30 اٰیات پر مُشتمل ھے اور اِس سُورت کا تیسرا بڑا موضوع شہرِ مکہ کے فتح ہونے کی وہ پیش گوئی ھے جو ھے قُرآنِ کریم نے رسُول اللہ کے آغازِ نبوت کے اُس ابتدائی زمانے میں کی تھی جب چالیس پچاس اَفراد کے سوا آپ کے تمام جاں نثار اہلِ مکہ کے ظلم و ستم سے تنگ آکر مکے سے ہجرت کر چکے تھے اور اُس وقت کوئی انسان تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ اتنی جلدی ہی وہ وقت آجاۓ گا جب شہرِ مکہ ابراہیم علیہ السلام کے آخری فرزند محمد علیہ السلام کے ہاتھوں فتح ہو جاۓ گا اور حرمِ مکہ اُن بتوں کے ناپاک وجُود سے ہمیشہ کے لیۓ پاک ہو جاۓ گا جن کے سر پر پہلی ضرب ابراہیم علیہ السلام نے لگائی تھی ، اِس سُورت کی آخری 4 اٰیات سے پہلی 9 اٰیات قُرآنِ کریم کی اسی پیش گوئی پر مُشتمل ہیں ، اہلِ روایت نے اِس سُورت کی پہلی تین اٰیات کے پہلے تین مضامین کو فرشتوں سے متعلق قرار دیا ھے لیکن سُورت ھٰذا کے مجموعی مضامین کے مجموعی تاثر سے معلوم ہوتا ھے کہ پہلی اٰیت کا پہلا مضمون تو یقینا اللہ تعالٰی کے اُن کار گزار فرشتوں سے متعلق ھے جو تحت الثرٰی سے اوجِ ثریا تک پھیل کر زمین کے ایک ایک ذرے اور آفتاب کی ایک ایک کرن تک پھیل پھیل کر اللہ تعالٰی کے اُن اَحکام کی تعمیل و تکمیل میں مصروف رہتے ہیں جو اَحکام اللہ تعالٰی نے اُن کے سپرد کیۓ ہوۓ ہیں اور اُن فرشتوں کے اُن کاموں میں وہ کام بھی شامل ہیں جن کا متنِ اٰیات میں ذکر کیا گیا ھے ، اِس سُورت کی دُوسری اٰیت کا دُوسرا مضمون اللہ تعالٰی کے اُن انبیاء و رُسل کے بارے میں ھے جو اپنے اپنے زمانے میں اللہ تعالٰی کے حُکم پر اہلِ زمین کی زجر و توبیخ کے لیۓ اہلِ زمین کے پاس آتے رھے ہیں اور اُن انبیاء و رُسل کے بعد وہ اہلِ خلافت بھی اِس اٰیت کا مصداق ہو سکتے ہیں جو اللہ تعالٰی کے اَحکامِ نازلہ کے مطابق اپنا نظامِ حکومت چلاتے رھے ہیں یا آئندہ کبھی چلائیں گے اور اِس سُورت کی تیسری اٰیات کا تسیرا مضمون اُن عام اہلِ ایمان کے بارے میں ھے جن کے پاس زمین کی حکمرانی تو نہیں ہوگی لیکن اُن میں وہ خُدا خوفی ضرور موجُود ہوگی جس خُداخوفی کے تحت وہ حتی الامکان اللہ تعالٰی کی کتابِ نازلہ کی تعلیم و تفہیم میں مصروف رہیں گے اور حتی الامکان وہ اُس کتابِ نازلہ کی تعلیم و تفہیم کے مطابق عمل بھی کرتے رہیں گے اور اِن اٰیات کے تین مضامین کا نتیجہِ مضمون جو اِن اٰیات کے کلمہِ تکمیل کے طور پر آیا ھے وہ { ان الٰھکم لواحد } ھے اور جس کا مقصد یہ ھے کہ زمان و مکان کی ہر تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہوچکی ھے کہ تُم سب کا خالق و مالک ایک اللہ ھے ، جہاں تک اِس سُورت کی اٰیت 4 میں وارد ہونے والے مشارق و مغارب کا تعلق ھے تو اِس سے قبل یہی لفظ مشارق و مغارب سُورَةُالاَعراف کی اٰیت 137 میں بھی آیا ھے اور اِس کے بعد یہی لفظ مشارق و مغارب سُورَةُالمعارج کی اٰیت 40 میں بھی وارد ہوا ھے جو اپنی ساخت کے اعتبار سے اُس مُفرد مشرق و مغرب کی جمع ھے جس مُفرد مشرق و مغرب کا سُورَةُالبقرة کی اٰیت 115 ، 142 ، 177 ، 258 ، سُورَةُالشعراء کی اٰیت کی اٰیت 28 ، سُورَہِ مُزمل کی اٰیت 9 میں ذکر ہوا ھے اور اِس مُفرد مشرق و مغرب کا تثنیہ مشرقین اور مغربین ھے جس کا سُورَہِ زُخرف کی اٰیت 38 اور سُورَہِ رحمٰن کی اٰیت 17 میں استعمال عمل میں لایا گیا ھے ، اہلِ روایت نے اِن مشارق و مغارن کی جو تشریح کی ھے اُس کا ماحصل یہ ھے کہ مشرق و مغرب کی تعداد سال کے دنوں کے برابر ھے اور سُورج ہر روز مشرق سے طلوع اور مغرب میں غروب ہوتا ھے اِس لیۓ سال کے جتنے دن ہیں اتنے ہی اِس کے مشارق اور مغارب بھی ہیں اسی لیۓ قُرآن نے اِن کو مشارق و مغارب کہا ھے اور قُرآن نے جہاں پر اِس کے لیۓ مشرقین و مغربین کے الفاظ استعمال کیۓ ہیں تو اِن دو دو مشرق و مغرب سے سُورج کے سردی و گرمی کے اُن دو موسموں کا وہ طلوع و غروب مُراد ھے جس کے طلوع و غروب کے دو الگ الگ مقام ہوتے ہیں ، اہلِ روایت کے بڑے ترجمان مولانا مودودی مرحوم اِس سُورت کی اِس اٰیت میں یہ تحریر کیا ھے کہ { سورج ہمیشہ ایک ہی مطلع سے نہیں نکلتا بلکہ ہر روز ایک نۓ زوایۓ سے طلوع ہوتا ھے ، نیز ساری زمین پر وہ بیک وقت طالع نہیں ہوتا بلکہ زمین کے مختلف حصوں پر مختلف اوقات میں اس کا طلوع ہوا کرتا ھے ، ان وجوہ سے مشرق کے بجاۓ مشارق کا لفظ استعمال کیا گیا ھے اور اِس کے ساتھ مغارب کا ذکر نہیں کیا گیا کیونکہ مشارق کا لفظ خود مغارب پر دلالت کرتا ھے تاہم ایک جگہ رب المشارق والمغارب کے الفاظ بھی آۓ ہیں } اہلِ روایت کی یہ تشریحات اگرچہ درست ہیں لیکن اٰیت ھٰذا کے اِس مقام سے قبل چونکہ اُن آسمانوں اور اُن زمینوں کا ذکر ہوا ھے جن کی سُورَةُالطلاق کی اٰیت 12 میں تعداد سات سات بیان کی گئی ھے اِس لیۓ مشارق و مغارب کے اِس پس منظر و پیش منظر کی رُو سے اِس اٰیت کے اِس مقام پر اُن سات زمینوں اور اُن سات آسمانوں کے وہ سات مشارق و مغارب مُراد لینا زیادہ قرینِ قیاس ھے جن کا سُورَہِ طلاق کی اٰیت 12میں ذکر ہوا ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 458954 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More