میں نے سوچا کہ آج ایک ایسے موضوع کو زیرِبحث لایا جاۓ۔جس
کا شمار عوام و ناس میں کس قدر مقبولیت اختیار کر چکا ہے اس کا اندازہ
لگانا شاید میرے لیے ناممکن ہو۔لو جی بات کرتے ہیں آج ایسی ایپ کی جس نے
سوشل میڈیا استعمال کرنے والے ہر فرد کو اپنا اسیر بنا لیا ہے اور اس کا
ذیادہ اثر نوجوانوں پر دیکھنے کو ملا ہے۔جی ہاں بات ہو رہی ہے ٹک ٹاک کی جس
کو اپنے موباٸل فون میں انسٹال کرنا ہر فرِدِ ملت اپنا قومی فریضہ سمجھتا
ہے۔یہ ایپ اب ہر عمر کے لوگوں میں مقبولیت اختیار کر چکی ہے۔بچوں سے لے کر
بڑے اور جانے کس کس قسم کے لوگ اس پر ویڈوز بناتے ہیں اور ایسی ایسی کہ
دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے کہ سامنے موجود شخص کا تعلق آخر کس
صنف سے ہے۔
چلیں صنف کا اندازہ لگانا تو ایک بات لیکن مجھے ا ن لوگوں کی سمجھ نہیں آتی
جو انتہاٸی د کھی ویڈیوز بنا کر سب کو یہ پیغام دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ ا
ن کے ساتھ واقعی دھوکا ہوا ہے۔اور دوسری طرف وہ جنہوں نے ناچ ناچ کر پورے
ٹک ٹاک پر انِی مچا رکھی ہے۔انسان کے اندر ٹیلنٹ ہونا اچھی بات ہے لیکن
کبھی کبھار وہ ٹیلنٹ ،ٹیلنٹ نہیں بلکہ کچھ اور ہی ہوتا ہے۔
ٹک ٹاک کا ایک Most Trending Song ”بے وفا بے وفا نکلی ہے تو“ بھٸی کسی ایک
بندے نے اس پر ویڈیو کیا بنا لی ا س کی دیکھا دیکھی سبھی ا س کے پیچھے چل
پڑے اور پورے ٹک ٹاک والے بے وفاٸی کا رونا روتے ہوٸے ایسے نظر آتے ہیں
جیسے ا ن سب کے ساتھ بے وفاٸی کرنے والا ایک ہی بندہ ہے اور ا س نے لڑکیوں
سمیت لڑکوں کے ساتھ بھی بے وفاٸی کر ڈالی ہے۔ا س بندے کا تعلق ا ن لوگوں
میں سے ہے جو فیس بک پر لڑکیوں کی فیک آٸی ڈی بنا کر لڑکوں کو اپنی سچی
محبت کے جال میں پھنسا کر ا نہیں اس بات کا یقین دلاتے ہیں کہ ”مینو پتا بس
لارے آوے توں ویاہ نیٸں کرانہ میرے نال“۔
لوگوں کو خاص طور پر مرد حضرات کو بہت حد تک اس جال کی سمجھ آ گٸ ہے اور ا
ن کا پروفاٸل پک دیکھنے اور ہیلو ہاۓ کے بعد تیسرا سوال ہی یہ ہوتا ہے
”تمہیں تمہارے ماں باپ کی قسم سچ بتانا لڑکی ہو یا لڑکا“۔ خیر مذاق ایک طرف
بات ہو رہی تھی ٹک ٹاک کی۔ جہاں بہت سے لوگ اسے برا کہتے ہیں وہاں بہت سے
لوگ اسے اچھا بھی سمجھتے ہیں۔ وہ ٹیلنٹڈ لوگ جن میں Acting کا ٹیلنٹ کوٹ
کوٹ کر بھرا ہوا ہے اس ایپ کے ذریعے ا ن لوگوں کے لیے نٸ راہیں ہموار ہوٸی۔
لوگوں نے اس کے ذریعے پیسے بھی کمانا شروع کر دیٸے اور وہ لوگ جن کے ماں
باپ ا نہیں سارا دن ٹک ٹاک پر لگے رہنے کے طعنے دیتے تھے۔اپنے بچوں کی خون
پسینے کی کماٸی دیکھ کر شاید ا ن کی آنکھوں میں بھی آنسو آگٸے ہوں گے۔
ٹک ٹاک پر مشہور ہونا اب ایک عام بات بن گٸ ہے اور کوٸی بھی بندہ” منہ چ کے
ٹیڈ کڈّے “ اس پر اپنے جلوے دکھا سکتا ہے۔ Followers بڑھتے ہیں تو وہ شکل
جسے ماں باپ بھی دیکھنا پسند نہیں کرتے ا سے لوگ پہچاننا شروع کر دیتے
ہیں۔اور جوں ہی کوٸی نیا بندہ اس فیلڈ میں اپنی انٹری مارتا ہے تو لوگ ایسے
ا سے کومنٹس پاس کر رہے ہوتے ہیں جیسے وہ نوری نتھ ہوں اور کہہ رہے ہوں کہ”
نواں آنیٸے سونٹیا“ ۔
ہر چیز کی ذیادتی بری چیز ہے۔ایسے ہی ہمیں اس چیز کو بھی اپنے سر پر مثلت
نہیں کرنا چاہیے۔شوق کے ساتھ ساتھ ٹک ٹاکرز کا دعاٶں پر بھی کافی زور چل
رہا ہے کیونکہ خبریں گردش کر رہی ہیں کی جلد یا بدیر یہ بین ہو جاۓ گی۔
|