#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالصٰفٰت ، اٰیت 40 تا 49
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
الّا
عباداللہ
المخلصین
40 اولٰئک لھم
رزق معلوم 41 فواکه
وھم مکرمون 42 فی جنٰت
نعیم 43 علٰی سررمتقٰبلین 44
یطاف علیھم بکاس من معین 45 بیضاء
لذةللشٰربین 46 لافیھا غول ولاھم عنہا ینزفون 47
وعندھم قٰصرٰت الطرف عین 48 کانھن بیض مکنون 49
محشر کی اُس محشرِ عمل میں وہی بدنام و بد اَنجام لوگ نہیں ہوں گے جن کا
ذکر ہوا ھے بلکہ اُس محشر کی اُس محشرِ عمل میں وہ نیک نام و نیک اَنجام
لوگ بھی ہوں گے جن کو اُن نعمت بھری جنتوں میں کھانے کے لیۓ تر و تازہ پَھل
دیۓ جائیں گے اور کھانے کے بعد جب وہ اُن سکون بھری جنتوں کے درمیان رُو
برُو بیٹھے ہوں گے تو اُن کے ہاتھوں میں نیل گاۓ کے سینگوں کی طرح کے بنے
ہوۓ پتلے پتلے سے نازک گلاس ہوں گے اور اُن کے آس پاس وہ بیشمار خوش گوار و
بے خمار صافی چشمے ہوں گے جن کا پانی پینے والوں کو بہلانے والا پانی ہوگا
بہکانے والا پانی نہیں ہو گا اور یہ پانی اُن کے حلق سے اُترتے ہی اُن کے
فہم میں تازگی اور نظر میں نُور بھر دے گا اور جنت کے اُن چشموں کے دھانے
شتر مُرغ کے انڈے کی طرح سفید اور اُن کے جھرنوں سے رسنے والا پانی بھی
دُودھ کی طرح سفید ہو گا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا سے پہلی اٰیات میں اہلِ شرک کے اَنجامِ جہنم کا ذکر ہوا تھا
اور اٰیاتِ بالا میں اہلِ ایمان کے مقامِ جنت ، انعامِ جنت ، اکرامِ جنت
اور طعامِ جنت کا جو مضمون وارد ہوا ھے اور اُس مضمون میں جو چند توجہ
الفاظ وارد ہوئے ہیں اُن الفاظ میں پہلا لفظ اسمِ واحد { مَعین } بروزنِ
متین و مدین ھے جس کا لفظی معنٰی آبِ رواں اور مقصدی معنٰی چشمہِ رواں ھے ،
اِس مضمون کا دُوسرا توجہ طلب لفظ { عِین } بروزنِ تین و طین ھے جس کا لفظی
معنٰی نیل گاۓ اور مُرادی مفہوم اہلِ جنت کے استعمال میں آنے والا وہ گلاس
ھے جس کو اہلِ جب جنت دُور سے دیکھیں گے تو وہ اُن کو نیل گاۓ کے سینگ کی
طرح نظر آۓ گا ، اِس مضمون کا تیسرا توجہ لفظ لفظ { عَین } بروزنِ غین و
دَین ھے جس کا لفظی معنٰی آب رواں ھے ، انسانی و حیوانی آنکھ کو بھی اُس
آنکھ میں پانی ہونے اور اُس آنکھ سے پانی بہنے کی بنا پر کلامِ عرب میں عین
کہا جاتا ھے اور اِس مقام پر اِس کا مقصدی و مُرادی مفہوم صرف جنت کا چشمہِ
رواں ھے ، اِس مضمون کا چوتھا توجہ طلب لفظ { کاس } بروزنِ رأس و بأس ھے
جس کا لفظی مفہوم پتوں کا وہ حفاظتی حلقہ ھے جو عموما پُھول کے ارد گرد
قُدرتی طور پر موجُود ہوتا ھے اور گلاس بھی چونکہ انسانی حلق میں جانے والے
پانی کو اپنے حلقے میں محفوظ رکھتا ھے اِس لیۓ اہلِ زبان گلاس کو بھی کأس
کہتے ہیں ، اِس مضمون کا پانچواں توجہ طلب لفظ { قٰصرٰت } ھے جو اسمِ واحد
قصر کی جمع ھے اور اِس واحد کی جمع قٰصرٰت سے مُراد وہ چھوٹے چھوٹے گھر
ہوتے ہیں جو خوش حال لوگ اپنے گھروں کے پچھوڑے میں اور خوش اقبال مُنتظمینِ
شہر اپنے شہروں کے تفریحی پارکوں میں بناتے ہیں ، گھروں کے پاس اور پارکوں
کے آس پاس بننے والے اِن تفریحی گھروں کی خصوصیت اِن کا وہ اختصار ہوتا ھے
جس کی بنا پر اِن گھروں میں آنے والے ایک مُختصر وقت گزاری کے لیۓ اِن میں
آتے ہیں اور وقت گزاری کے بعد اپنے مُستقل ٹھکانوں میں واپس چلے جاتے ہیں ،
اہلِ عرب اِس مادے کے اسی اقتصار کی بنا پر اُس بچے کو بھی قیصر کہتے ہیں
جو ماں کا پیٹ کاٹ کر کے نکالا جاتا ھے اور عُلماۓ فقہ اپنی اُس صلٰوة کو
بھی اسی اقتصار کی بنا پر سفر کی اُس صلٰوةِ کو صلٰوةِ قصر کہتے ہیں جس
صلٰوة کو وہ سفر کے دوران مُقتصر یا مُختصر کرکے ادا کرتے ہیں ، اٰیاتِ
بالا کی یہی وہ وسیع لُغات ہیں جن وسیع لُغات سے ھم نے اٰیاتِ بالا کا وہ
محتاط مفہوم اخذ کیا ھے جو اٰیاتِ بالا کے متنِ بالا کے تحت ھم نے درج کیا
ھے جس کا حاصل اہلِ جنت کے وہ گھر ہیں یا ہوتے ہیں جن میں وہ تفریح طبع کے
لیۓ بیٹھتے ہیں اور جن کے آس پاس وہ ساری سہولیات موجُود ہوتی ہیں جن کا
اٰیاتِ بالا میں ذکر ہوا ھے اور جن سہولیات کو اہلِ روایت نے رگِ گُل سے
بُلبل کے پر باندھ کر روایت کیا ھے ، عُلماۓ روایت کے ایک بڑے سرخیل مولانا
سید ابوالاعلٰی مودودی مرحوم نے اِن اٰیات کی یہ آزاد ترجمانی کی ھے کہ {
مگر اللہ کے چیدہ بندے ( اس انجام بد سے ) محفوظ ہوں گے ، ان کے لیۓ جانا
بوجھا رزق ھے ، ہر طرح کی لذیذ چیزیں ، اور نعمت بھری جنتیں ، جن میں وہ
عزت کے ساتھ رکھے جائیں گے ، تختوں پر آمنے سامنے بیٹھیں گے ، شراب کے
چشموں سے ساغر بھر بھر کر ان کے درمیان پھراۓ جائیں گے ، چمکتی ہوئی شراب ،
جو پینے والوں کے لیۓ لذت ہوگی ، نہ ان کے جسم کو اس سے کوئی ضرر ہوگا اور
نہ ان کی عقل اس سے خراب ہوگی اور ان کے پاس نگاہیں بچانے والی خوب صورت
آنکھوں والی عورتیں ہوں گی ، ایسی نازک جیسے انڈے کے چھلکے کے نیچے چھپی
ہوئی جھلی } اور مولانا مودودی مرحوم نے اپنی اِس مُجمل ترجمانی کو مُفصل
بنانے کے لیۓ اِس کے تفسیری حاشیۓ میں اِس اَمر کی جو اضافی وضاحت کی ھے
اُس اضافی وضاحت میں یہ اضافہ فرمایا ھے کہ { اصل میں یہاں شراب کی تصریح
نہیں ھے بلکہ صرف کأس ( ساغر ) کا لفظ استعمال کیا گیا ھے لیکن عربی زبان
میں کأس کا لفظ بول کر ہمیشہ شراب ہی مراد لی جاتی ھے جس پیالے میں شراب
کے بجاۓ دودھ یا پانی ہو یا جس پیالے میں کُچھ نہ ہو اسے کأس نہیں کہتے ،
کأس کا لفظ اسی وقت بولا جاتا ھے جب اُس میں شراب ہو } ہر چند کہ قُرآنِ
کریم نے قُرآن کی ابدی حرمتوں اور قُرآن کی غیر ابدی حرمتوں میں سے کسی
حرمت میں بھی شراب کا ذکر نہیں کیا ھے لیکن اِس کے استعمال کو شیطانی عمل
کہہ کر اِس کی شدت کے ساتھ حوصلہ شکنی کی ھے لیکن جہاں تک اِس پر علمی بحث
کا تعلق ھے تو ھم سُورَةُالبقرة کی اٰیت 219 ، سُورَةُالمائدة کی اٰیت 90
اور 91 میں اِس پر وہ مُفصل گفتگو کر چکے ہیں جس کے اعادہ و تکرار کی یہاں
ضروت نہیں ھے اور اِس مقام کے حوالے سے شاید اتنا کہدینا ہی کافی ھے کہ
اٰیاتِ بالا میں اُن چیزوں میں سے کسی چیز کا ذکر نہیں ھے جن کا اہلِ روایت
کی اِن روایاتِ باطلہ میں ذکر ھے اور اُسی روایتی ذکر سے اِن کی وہ تفسیری
تعلیقات بھی لبالَب بھری ہوئی ہیں جن کو پڑھ کر ہالی وڈ اور بالی وڈ کے
قحبہ خانوں کا گمان ہوتا ھے لیکن اَصل معاملہ یہ روایات بھی نہیں ہیں بلکہ
عُلماۓ روایت کا وہ فکری تضاد ھے جس تضاد کے تحت وہ عالَمِ دُنیا میں جس
چیز کو جتنی شدت سے حرام قرار دیتے ہیں عالَمِ جنت میں اُسی چیز کو اتنی ہی
شدت کے ساتھ حلال قرار دینے پر مُصر رہتے ہیں حالانکہ دُنیا کے سارے رندِ
خرابات شراب خانہ خراب کو غمِ جہان سے نجات پانے کا ایک ذریعہ قرار دیتے
ہیں لیکن جنت تو وہ پاکیزہ مقام ھے جہاں پر کسی رند و زاھد کو ایسا کوئی غم
نہیں ہو گا کہ جس غم سے نجات پانے کی غرض سے اُس کے لیۓ شراب چشمے بناۓ
جائیں گے اور اگر مقامِ جنت بھی وہی ایک رَنجِ جہان ہو گا تو پھر مُلا کی
وہ خیالی جنت شاید اور تو سب کُچھ ہوگی مگر خُدا کی وہ جنت تو بہر حال نہیں
ہوگی جس جنت کا قُرآن نے تعارف کرایا ھے اور قُرآن نے جس پاکیزہ جنت کا
تعارف کرایا ھے وہ جنت انسان کی اصلاح و ارتقاء اور انسان کی رُوحانی تعلیم
و تربیت کا وہ آخری مقام ھے جس آخری مقام پر پُہنچ کر بھی اگر انسان کی
اَخلاقی و رُوحانی تربیت نہیں ہوگی تو پھر اور کہیں پر بھی نہیں ہوگی ،
قُرآنِ کریم کے قانُونِ حلال و حرام کی رُو سے زمین کی ہر ایک چیز اَصلا
حلال ھے سواۓ اُس چیز کے جس کو اللہ تعالٰی نے اپنے کسی حُکمِ مُمانعت سے
حرام کیا ھے اور ھم یہ بات سُورَةُالرعد کی اٰیت 35 کے حوالے سے پہلے بھی
بیان کر چکے ہیں کہ جنت کی تمام نعمتیں ، جنت کی تمام راحتیں اور جنت کی
تمام رحمتیں وہ تمثیلات ہیں جو انسانی خیالات و تصورات میں مُتمثل ہو کر
انسانی خواہشات میں جگہ بناتی ہیں اِس لیۓ جو رندِ خرابات جنت کی تمنا کرتا
ھے وہ جنت کے اُن چشموں اور پیالوں کا ذکر سن کر اِس بات کی بھی تمنا کرتا
ھے کہ جنت میں بھی اُس کے سامنے وہی صراحی و جام ہو جو دُنیا میں ہوتا ھے
اِس لیۓ اُس کی اِس فکری بد مستی اور خیالی جام بدستی کے سامنے بند باندھنے
کے لیۓ اُس سے کہا گیا ھے کہ اللہ تعالٰی کی اٰیات میں جنت کے جن شفاف
چشموں کا ذکر آیا ھے اُن چشموں کا وہ مشروب انسان کو بہلانے والا مشروب
ہوگا بہکانے والا مشروب نہیں ہو گا ، بالفاظِ دیگر اِن اٰیات میں انسان کو
شراب نوشی کی کوئی ترغیب نہیں دی گئی اور نہ ہی شراب نوشی کی اور بڑی بڑی
مَست آنکھوں والی عورتوں کے ساتھ آنکھ مٹکے کی کوئی تلقین کی گئی ھے اور نہ
ہی نوجوان لونڈوں کے ساتھ شاھد بازی کا کوئی موقع رکھا گیا ھے کیونکہ جنت
انسانی اصلاح کا ایک ادارہ ھے بدمعاشی کا کوئی اڈا نہیں ھے کہ جس میں انسان
کو پہلے شراب کی نہروں میں نہلایا جاۓ گا ، پھر کسی دستِ جواں سال سے بادہ
و جام پلایا جاۓ گا اور اُس کے بعد اُس کو 130 فیٹ کی طویل القامت حوروں کے
ساتھ لڑاکر اہلِ جنت کو کوئی تماشا دکھایا جاۓ گا !!
|