گُم راہ ہونے اور گُم راہ رہنے کا اَنجام !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالصٰفٰت ، اٰیت 22 تا 39 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
احشروا
الذین ظلموا و
ازواجھم ماکانوا
یعبدون 22 من دون
اللہ فاھدوھم الٰی صراط
الجحیم 23 وقفوھم انھم
مسئلون 24 مالکم لاتنصرون 25
بل ھم الیوم مستسلمون 26 واقبل
بعضھم علٰی بعض یتسائلون 27 قالوا
انکم کنتم تاتوننا عن الیمین 28 قالوا بل
تکونوا مؤمنین 29 وماکان لنا علیکم من سلطٰن بل
کنتم قوماطٰغین 30 فحق علینا قول ربناانالذائقون 31
فاغوینٰکم انا کنا غٰوین 32 فانھم یومئذ فی العذاب مشترکون
33اناکذٰلک نفعل بالمجرمین 34 انہم کانوااذاقیل لھم لاالٰه الااللہ
یستکبرون 35 ویقولون ائنالتارکوااٰلھتنا لشاعر مجنون 36 بل جاء بالحق
وصدق المرسلین 37 انکم لذائقواالعذاب الالیم 38 وماتجزون الّا ماکنتم
تعملون 39
قیامت آتی ھے تو زمین پر غیراللہ کی بندگی کرنے والوں اور اُن کے ساتھ شریکِ بندگی ہونے والوں کو پکڑلینے کا اور جن کی بندگی کی جاتی ھے اُن کو بھی جکڑلینے کا حکم دے دیا جاتا ھے اور پھر اُن اسیرانِ جہنم کو جہنم کے سامنے جمع کرکے پُو چھا جاتا ھے کہ تُم لوگ جو دُنیا میں ایک دُوسرے کے ہمدم و غم خوار تھے آج ایک دُوسرے سے اتنے بیزار کیوں ہو کہ ایک جگہ پر جمع ہونے اور ایک طرح کے حالات سے دوچار ہونے کے باوجُود بھی ایک دُوسرے کی کوئی مدد نہیں کرتے ، یہ بات سن کر مشرکوں کے وہ مُقتدا و مُقتدی ایک دُوسرے کے ساتھ ایک لفظی تُوتکار شروع کردیتے ہیں جس لفظی تُوتکار میں وہ مُشرک مُقتدی اپنے مُشرک مُقتداؤں سے کہتے ہیں کہ یہ سب تُمہارا کیا دھرا ھے جو آج ھم اِس عذاب کا شکار ہوۓ ہیں اور پھر وہ مشرک مُقتدا اپنے اُن مشرک مُقتدیوں سے کہتے ہیں کہ تُم نے دُنیا میں جو کفر و شرک کیا تھا اپنی مرضی سے کیا تھا ھماری زور زبردستی سے نہیں کیا تھا ، جس طرح ھم خود بخود گُم راہ ہوۓ تھے اسی طرح تُم بھی خود بخود ہی گُم راہ ہوۓ تھے اِس لیۓ اپنے پالنہار کی جس دُھتکار کار ھم کاشکار ہوۓ ہیں اُسی پِھٹکار کا تُم بھی شکار ہوۓ ہو اور ھماری یَکساں گُم راہی کی سزا بھی یَکساں ھے اور حقیقت بھی یہی ھے کہ اللہ تعالٰی شرک کے اِس مُشترکہ عمل کے عاملوں کو اسی طرح کے مُشترکہ عذاب میں مُبتلا کرتا رہتا ھے کیونکہ یہ زمین کے وہی مُنکر لوگ ہیں جن کو جب بھی اللہ کا رسُول کہتا ھے اللہ کے سوا کوئی بھی بندگی کا حق دار نہیں ھے تو یہ گھمنڈی لوگ کہتے ہیں ھم کیوں اِس شاعر و مجنون انسان کی باتوں میں آکر اپنے قدیم معبودوں کو چھوڑ دیں حالانکہ ھمارے اِس زمانے کے اِس رسُول کی طرح ہر زمانے میں ھمارا ہر رسُول وہی حق لے کر آیا ھے جس حق نے سابقہ زمانے کے ہر اُس سابقہ حق کی بھی تصدیق کی ھے جس حق کو وہ مُنکر لوگ پہلے سے جانتے تھے اور اُس سابقہ و موجُودہ حق کی یہ تصدیق و توثیق ہی اُس حق کے حق ہونے کی وہ مُعتبر دلیل ہوتی تھی جس کا اعتبار کرنے سے وہ ہمیشہ انکار کرتے رہتے ہیں اِس لیۓ جب اِن کا یومِ حساب آتا ھے تو اِن سے ہمیشہ یہی کہاجاتا ھے کہ آج تُم کو ھماری طرف سے بدترین عذاب کی صورت میں جو بدترین بدلہ دیا جا رہا ھے وہ تُمہارے اُن بدترین جرائم کی ایک بدترین جزا ھے جو بدترین جرائم کرتے کرتے تُم اِس مقامِ سزا تک آۓ ہو !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
محشر کے روز میدانِ محشر سے جن لوگوں کو ہانک کر جہنم کی طرف لے جانے کا حُکم دیا جاتا ھے اور آئندہ بھی دیا جاۓ گا اُن لوگوں کے جُرم کے بارے میں اٰیاتِ بالا کے آغازِ کلام کی پہلی اٰیت میں ظلم کا جو لفظ استعمال کیا گیا ھے اور اہلِ لُغت نے اُس لفظ کے معروف مصدر { ظلما } کی جو لُغوی تعریف کی ھے وہ ایک اعلٰی چیز کو اُس کے اعلٰی مقام کے بجاۓ ایک ادنٰی مقام پر رکھنا یا ایک ادنٰی چیز کو اُس کے ادنٰی مقام پر رکھنے کے بجاۓ ایک اعلٰی مقام پر رکھنا ھے اور جو انسان کسی بھی اعلٰی و اَدنٰی چیز کو اُس کے حقیقی مقام سے سے ہٹاکر اُس کے غیر حقیقی مقام پر رکھتا ھے وہ انسان اِس لفظ کی اِس لُغوی تعریف کی بنا پر ایک ظالم انسان ہو تا ھے اور چونکہ ظلم کی اس تعریف کی رُو سے وہ سارے لوگ ظالم ہوتے ہیں جو فاطر کے نظامِ فطرت کے قوانینِ فطرت کو توڑنے کا ارتکاب کرتے ہیں اِس لیۓ عُلماۓ تفسیر نے اٰیاتِ بالا کے اِس مقام پر ظلم سے وہ عام معاشرتی ظلم مُراد لیۓ ہیں جو ہر انسانی معاشرے میں ہمیشہ ہوتے رہتے ہیں لیکن مُحوّلہ بالا اٰیت کا خاتمہِ کلام جس صیغہِ کلام { یعبدون } پر ہوا ھے وہ صیغہِ کلام انسان کی اُس بندگی پر دلالت کرتا ھے جو بندگی انسان اللہ تعالٰی کے بجاۓ غیراللہ کے لیۓ کرکے اُس کی اَدنٰی مخلوق کے ادنٰی افراد کو اُس کے اعلٰی مقام پر بٹھا دیتا ھے اِس لیۓ { یعبدون } کا یہ صیغہ اِس اٰیت کے اِس مفہوم کو انسانی معاشرے کے عام جرائم سے جُدا کرکے اِس مفہوم کو انسان کے اُس بدترین جرم کے ساتھ خاص کردیتا ھے جس جُرم کا نام شرک ھے اور جو اللہ تعالٰی کے نزدیک انسان کا ناقابلِ معافی جرم ھے اِس لیۓ قیامت کے روز سب سے پہلے انسان کے جس جرم پر انسان کی باز پرس کی جاۓ گی وہ انسانی شرک کا یہی ناقابلِ معافی جرم ہو گا اور اسی ناقابلِ معافی جرم کے اُن مجرموں کو میدانِ محشر سے ہانک کر جہنم کے عین سامنے لے جایا جاتا ھے اور جہنم کے عین سامنے کھڑا کرکے اُن سے وہ سوال و جواب کیا جاتا ھے جس سوال و جواب کا اٰیاتِ بالا میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ھے ، شرک جو انسان کا ایک ناقابلِ معافی جرم ھے وہ زمین پر اِس لیۓ ہمیشہ ہی عام ہوا ھے اور ہمیشہ ہی عام رہا ھے کہ شیطان نے روزِ ازل میں جب انسان کے اقتدار سے بغاوت کی تھی اور انسان کو روزِ اَزل سے روزِ ابد تک گُم راہ کرنے کے لیۓ اللہ تعالٰی سے جو مُہلت لی تھی اور اُس مُہلت کے بعد شیطان نے انسان کو گُم راہ کرنے کا جو ایک مُہلک منصوبہ بنایا تھا اُس مُہلک منصوبے پر عمل کرتے ہوۓ وہ روزِ اَزل سے ہی انسان کو اُس کے مذہبوں ، اُس کی ملتوں اور اُس کے فرقوں میں تقسیم کرتا چلا آرہا ھے اور انسان بھی شیطان کے اُس منصوبے کے عین مطابق ہمیشہ ہی اپنے مذہبوں ، اپنی ملتوں اور اپنے فرقوں میں تقسیم ہوتا چلا آرہا ھے ، شیطان اپنے اِس شیطانی منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیۓ ہر روز اپنے شیطانی فرقے کے ہر مُعلم و مُتعلم اور ہر مُقتدا و مُقتدی کو شرک کا آموختہ یاد کرتا ھے اور اُس کے فرقے کا ہر مُعلم و مُتعلم ، ہر مُرشد و مرید اور ہر امام و مُقتدی بھی ہر روز اپنے ہر ایک مُتعلم و مُقتدی کو شرک کا وہی آموختہ یاد کراتا ھے جس سے شرک ایک ایسا مُستقل شیطانی مذہب بن گیا ھے جس کے خلاف انسان توحید کی تعلیم و تربیت کا اِس لیۓ اہتمام نہیں کر سکا ھے کیونکہ وہ ہر زمانے میں اپنے مذہب و ملت کی تفریق کرنے اور اپنی فرقہ پرستی کی تعلیم لینے اور تعلیم دینے کے کام میں مصروف رہا ھے اور زمان و مکان کے اِس طویل تر دورانیۓ میں ایک قلیل تر وقت کے لیۓ اللہ تعالٰی کے جو انبیاء و رُسل اہلِ زمین کے پاس آتے رھے ہیں اُن میں سے زیادہ انسانوں نے اُن کے پیغامِ توحید کو قبول نہیں کیا ھے اور جن چند لوگوں نے قبول کیا ھے تو اُنہوں نے بہت جلد اُس پیغام کو فراموش کر دیا ھے ، جہاں تک اٰیاتِ بالا میں بیان کی گئی قیامت کی دیگر تفصیلات کا تعلق ھے تو وہ تفصیلات ھم نے اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا میں بیان کردی ہیں جو شیطان کے ہاتھوں انسان کے گُم راہ ہونے اور گُم راہ رہنے کی اُن تفصیلات پر مُشتمل ہیں جو تفصیلات اِس سے پہلے بھی قُرآنِ کریم میں انسانی عبرت و موعظت کے لیۓ بیان ہوئی ہیں اور اِس کے بعد بھی بیان ہوں گی !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 456939 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More