بڑے صاحب ' گائوں کی"کلی والی" اور کالے کارنامے
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
ڈس ایبل افراد جنہیں ہم سپیشل کہہ کر پکارتے ہیں لیکن ہمارا رویہ ان کے ساتھ سپیشل نہیں ہوتا. کھیلوں کے ایک ہزار منصوبے میں سپیشل پرسنز کیلئے گرائونڈ بنا دیا گیا مگر اس پر آغاز میں ایلیٹ کلاس کے "کتوں کا میلہ " لگا دیا گیا یعنی سپیشل لوگ کتوں سے بھی نیچے ہیں ' اور اس کا بنیادی مقصد ایلیٹ کلاس بھی خوش رہے اور صاحب بھی ' کیونکہ صاحب کا تعلق اس ایریا سے ہے اس لئے وابستگی کی بناء پر کچھ کام تو کرنے کا بنتا ہے ' مزے کی بات کہ ایک صاحب نے اسے اپنی کارکردگی سے تعبیر کیا کہ انہوں نے کچے میدان پر آسٹرو ٹرف لگا دیا ' ویسے ہم کھیلوں کے بارے میں اتنا نہیں جانتے لیکن اتنی عقل تو رکھتے ہیں کہ جس جگہ پر آسٹرو ٹرف لگایا جاتا ہے اس پر پہلے بیس بنائی جاتی ہیں ' ٹھیک ہے کہ استعمال شدہ ٹرف لگا دیاگیا لیکن کم از کم کروڑ روپے کی مالیت کا تو تھا ' اب کروڑ روپے مالیت کے غریب عوام کے ٹیکسوں سے خریدے جانیوالے آسٹرو ٹرف کواگر مٹی بھرے زمین پر ڈال دیا جائے تو یہ عوامی پیسوں کا ضیاع نہیں ہوگا یہ سوال کرنے کا ہے. |
|
حکومت کی جانب سے جو سرکاری آٹا جو چوکر ملا ہوتا ہے آٹھ سو پچاس روپے میں شہریوں کو لائنوں میں کھڑا ہو کر ملتا ہے جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حکمرانوں کو عوام سے کتنی محبت اور دلچسپی ہے بس اتنی ہی دلچسپی خیبر پختونخواہ کی صوبائی وزیر اعلی جوکہ کھیلوں کے وزیر بھی ہیں کی کھیلوں کی وزارت سے ہے ان کی محبت بھی کھیلو ں سے اتنی ہی ہے جتنی ہونی چاہئیے' لیکن یا تو ان کے پاس وقت نہیں کہ اپنے وزارت کی جانب توجہ دیں ' یا پھر انہیں صاحب لوگ جو بتاتے ہیں وہی سچ جان کر اس پر یقین رکھتے ہیں حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے. یہ شیوہ ایک زمانے میں سیاستدانوں کا ہوا کرتا تھا کہ جس علاقے سے سیاستدان کا تعلق ہوتا تھا اس پر سیاستدان حکومت میں آنے کے بعد زیادہ مہربان ہوتا ' اور ترقیاتی منصوبے اور بھرتیاں اسی ضلع کی سب سے زیادہ ہوتی البتہ ان کی دیکھا دیکھی اب یہ سلسلہ بیورو کریٹس نے بھی شروع کردیا ہے اور خصوصا کھیلوں کی وزارت میں یہ سلسلہ کچھ زیادہ ہی ہوگیا ہے .سچی باتیں کچھ زیادہ ہی تلخ ہوتی ہیں اس لئے ہمارے کچھ صحافی بھائیوں کو بھی بری لگتی ہیں کیونکہ انہوں نے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو بھی اسی طرح عادی کیا ہے کہ انہیں تنقید برداشت کرنے کی عادت ہی نہیں.کرسی اور طاقت ہاتھ میں آتے ہی ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ہم بڑے اچھے ہیں ' باقی سارے چور ہیں اور چوری کرنے میں لگے ہوئے ہیں. چوری پر یاد آیا سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ میں چوری چھپے بھی بھرتیاں ہوتی ہیں ' کیونکہ صاحب لوگوں کا تعلق ایک مخصوص ضلع سے ہے اس لئے اسی ضلع سے وابستہ پرانے فنکار اسی وابستگی کو کام میں لاتے ہوئے اپنے کام نکال رہے ہیں . رشتہ داروں کی بھرتیوں سے لیکر من پسند عہدوں پر لوگوں کو لانے اور لے جانے کا کام بھی اسی طرح ہورہا ہے کوئی یہ جان سکتا ہے کہ ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسربونیرکی عہدے پر آنیوالا شخص آج کل کس پوزیشن میں ہے اور اس کے کتنے رشتہ دار اس وقت سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ میں ملازم ہیں کتنے ابھی بھرتی ہوئے جو گائوں سے یہ کہہ کر لائے گئے تھے کہ یہ یہاں پر پریکٹس کرے گا اسی فنکار کے زیر استعمال سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ہاسٹل کے کتنے کمرے اور کب سے فنکار کے قبضے میں ہیں حالانکہ ہاسٹل کے یہ کمرے کھیلوں سے وابستہ افرادکیلئے ہیں مگر وہ فنکار ہی کیا جو اپنے لئے راستہ نہ نکال سکے.ویسے ایک زمانے میں یہ بات عام تھی کہ صاحب کا کتا بھی صاحب ہوتا ہے لیکن سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ صاحب کے گائوں کے نزدیک رہنے والا "کلی وال "بھی صاحب ہی ہے اور اسے صاحب ہی سمجھا جائے.کوئی یہ بھی نہیںجاننے کی ہمت نہیںکرتا کہ فنکار تو دوسروں کے تبادلوں میں مصروف عمل ہیں مگر اپنے تبادلے پر خاموش ہیں کیونکہ قانون تو سب پر لاگو ہوتی ہے لیکن یہاںقانون خاموش ہیں کیونکہ اگر کہیں اور تبادلہ ہوگیا تو پھر ہاسٹل میں مفت رہائش کیسے ملے گی.. اسے مفت خوری ہی کہا جائے کہ کھیلوں کی ایک ہزار سہولیات منصوبہ گذشتہ چھ ماہ سے کھڈے لائن ہے ' فنڈنگ نہ ہونے کے باعث منصوبوں پر خاموشی ہیں ' چلو ' یہ بھی لوگ تبدیلی کا اثر سمجھیں لیکن اگراب اتنی تبدیلی بھی تو کرلیں کہ پراجیکٹ کی گاڑیوں کو تو صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ اپنے تحویل میں لے لیںکیا وزیراعلی خیبر پختونخواہ اتنے کمزور وزیر کھیل ہیں کہ اپنی وزارت میں بیورو کریسی کی اس اندھیر نگری پر پر پوچھ بھی نہیں سکتے کہ اس وقت کتنی گاڑیاں پراجیکٹ کی ہیں اور کس کے زیر استعمال ہیں اور فیولنگ کون کررہا ہے .اور یہ سلسلہ کب سے جاری و ساری ہے ' ہمیں پتہ ہے کہ محمود خان سوات کے خان ہیں اور ان کے پندرہ سو سے زائد دکانیں ہیں ' شریف آدمی ہیں مگر محمود خان صاحب آپ کی شرافت سے عام لوگوں کیا فائدہ ' کیا غریب عوام اپنے خون پسینے کی کمائی آپ کی وزارت میں گاڑیوں کے غیر افراد کے استعمال اور اس کی فیولنگ کیلئے دے رہی ہیںاور مخصوص بیورو کریٹ مزے کررہے ہیں ' مزے تو ایبٹ آبا دسے آنیوالے آسٹرو ٹرف پر سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے بڑے بڑے لوگوں نے کرلئے جہاں سے آسٹرو ٹرف آیا اور کچھ حصہ صاحب لوگو ں کے گھروں میں چلا گیا جبکہ کچھ کو مٹی سے بھرے کچی زمین پر مردان میں لگایا گیا کہ یہاں پر ڈس ایبل افراد جنہیں ہم سپیشل کہہ کر پکارتے ہیں لیکن ہمارا رویہ ان کے ساتھ سپیشل نہیں ہوتا. کھیلوں کے ایک ہزار منصوبے میں سپیشل پرسنز کیلئے گرائونڈ بنا دیا گیا مگر اس پر آغاز میں ایلیٹ کلاس کے "کتوں کا میلہ " لگا دیا گیا یعنی سپیشل لوگ کتوں سے بھی نیچے ہیں ' اور اس کا بنیادی مقصد ایلیٹ کلاس بھی خوش رہے اور صاحب بھی ' کیونکہ صاحب کا تعلق اس ایریا سے ہے اس لئے وابستگی کی بناء پر کچھ کام تو کرنے کا بنتا ہے ' مزے کی بات کہ ایک صاحب نے اسے اپنی کارکردگی سے تعبیر کیا کہ انہوں نے کچے میدان پر آسٹرو ٹرف لگا دیا ' ویسے ہم کھیلوں کے بارے میں اتنا نہیں جانتے لیکن اتنی عقل تو رکھتے ہیں کہ جس جگہ پر آسٹرو ٹرف لگایا جاتا ہے اس پر پہلے بیس بنائی جاتی ہیں ' ٹھیک ہے کہ استعمال شدہ ٹرف لگا دیاگیا لیکن کم از کم کروڑ روپے کی مالیت کا تو تھا ' اب کروڑ روپے مالیت کے غریب عوام کے ٹیکسوں سے خریدے جانیوالے آسٹرو ٹرف کواگر مٹی بھرے زمین پر ڈال دیا جائے تو یہ عوامی پیسوں کا ضیاع نہیں ہوگا یہ سوال کرنے کا ہے. آخر میں سوال یہ بھی کرنے کا ہے کہ کھیلوں کی رپورٹنگ وہی کرے گا جنہیں کھیلوں کی مخصوص لوگوں کی حمایت حاصل ہوگی کیونکہ مخصوص لوگ "دڑے دی او ر دڑی شو"والی عادت رکھتے ہیں اور انہی عادات کی وجہ سے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی انتظامیہ بھی ان کی مانتی ہے ' اور وہی رپورٹر ہے جو جی ہاں اور جی حضوری کرسکتا ہوں ' اس کا اندازہ بین الاقوامی ادارے سے وابستہ ایک صحافی کو پشاور سپورٹس کمپلیکس میں رپورٹنگ سے روکنے سے کیا جاسکتا ہے جنہیں یہ کہہ کر نکالا گیا کہ یہاں پر رپورٹنگ کرنا بند ہے ' اور اگر رپورٹنگ کرنی بھی ہے تو صاحب کو درخواست دو گے تبھی رپورٹنگ کرسکو گے ورنہ نہیں ' ایسے میں ایک مخصوص صاحب کے فون کرنے پر انتظامیہ نے یہ کہہ کر پھر رپورٹنگ کرنے کی اجازت دیدی ' اب سوال یہ بنتا ہے کہ کیا صاحب نے واقعی پابندی لگائی ہے یا پھر صاحب کے نام پر صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے تاکہ مخصوص لوگوں کے "کالے کارنامے"سامنے نہ آسکیں. یہ سوال بھی وزیراعلی خیبر پختونخواہ محمود خان سے کرنیکی ضروت ہے جو تبدیلی کے بڑے دعوے بھی کرتے ہیں. کیا اسے بھی تبدیلی سمجھا جائے.
|