#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ ص ، اٰیت 1 تا 14
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ص
والقرآن ذی
الذکر 1 بل الذین
کفروافی عزة وشقاق 2
کم اھلکنا من قبلھم من قریة
فنادواولات حین مناص 3 وعجبوا
ان جاءھم منذرمنھم وقال الکٰفرون ھٰذا
سٰحر کذاب 4 اجعل الاٰلھة الٰھا واحدا ان ھٰذا
لشئی عجاب 5 وانطلق الملامنھم ان امشواواصبروا
علٰی اٰلھتکم ان ھٰذالشئی یراد 6 ماسمعنابھٰذافی الملة الاٰخرة
ان ھٰذاالّااختلاق 7 ءانزل علیه الذکر من بیننا بل ھم فی شک من
ذکری بل لما یذوقواعذاب 8 ام عندھم خزائن رحمة ربک العزیزالوھاب
9 ام لھم ملک السمٰوٰت والارض وما بینھما فلیرتقوا فی الاسباب 10 جند ما
ھنالک مھزوم من الاحزاب 11 کذبت قبلھم قوم نوح وعاد و فرعون ذوالاوتاد 12
وثمود وقوم لوط واصحٰب لئکة اولٰئک الاحزاب 13 ان کل الّا کذب الرسل فحق
عقاب 14
اے ھمارے رسُول ! قسم ھے قُرآن کے یاد رکھے جانے والے اُس یادگار قانُون کی
جس یاد گار قانُون کا زمین کی ضدی اور سرکش قوم کے سوا کسی نے بھی انکار
نہیں کیا ھے اور اِس سے پہلے جن قوموں نے اِس کا انکار کیا ھے وہ ہلاک کی
جاچکی ہیں اور زمین پر جب بھی ہلاک ہونے والی جن قوموں کی ہلاکت کا وقت آتا
ھے تو وہ اپنی ہلاکت سے بچنے کے لیۓ بہت چیختی چلاتی ہیں لیکن وہ اپنے بُرے
اعمال کے بُرے نتائج سے بچ نہیں پاتی ہیں ، اُن قوموں نے ہر بار اِس بات پر
تعجب کیا ھے کہ اُن کو بُرے اعمال کے بُرے نتائجِ اعمال سے ڈرانے والا اُن
کی اپنی قوم سے اُٹھ کر کس طرح اُن کے سامنے آگیا ھے اِس لیۓ اُن مُنکر
قوموں نے حق کے ہر داعی کے بارے میں ہر بار یہی ایک بات کہی ھے کہ یہ ایک
جادو گر اور جھوٹا انسان ھے جس نے مُتعدد مُشکل کشاؤں کو چھوڑ کر صرف ایک
عدد مُشکل کشا پر اکتفا کر رکھا ھے اور ہمیں بھی ایک ہی مُشکل کشا پر ایمان
لانے کی تعلیم دیتا ھے اور پھر وہ مُتکبر قومیں یہی بات کہہ کر اَمرِ حق کے
اُس ھادی کو چھوڑتی رہی ہیں کہ اِس کا شخص کا ہر گز وہ مقصد نہیں ھے جو
مقصد وہ ھمارے سامنے ظاہر کرتا ھے بلکہ اِس کا مقصد اُس مقصد سے کوئی
مُختلف مقصد ھے جو مقصد ھمارے سامنے اِس نے پیش کیا ھے کیونکہ ھم نے تو
ماضی قریب میں اپنے فرقے کے کسی اور شخص سے یہ بات کبھی نہیں سنی ھے جو بات
ہمیں یہ سنا رہا ھے ، کیا اللہ کے پاس ھمارے درمیان یہی ایک شخص باقی رہ
گیا تھا جس کو اُس نے ھماری ھدایت کے لیۓ مامور کرنا تھا اِس لیۓ ھمارے
نزدیک تو اِس کی یہ بات محض ایک مَن گھڑت بات ھے لہٰذا اِس شخص کو یہاں پر
تنہا چھوڑ کر اِس کے پاس سے چلتے بنو اورحسبِ سابق اپنے اپنے پرانے
مُعتقدات پر ڈٹے رہو لیکن حقیقت یہ ھے کہ اِن اقوام کے یہ افراد میرے
قانُون میں شک کر رھے ہیں جو اِس شک کی بنا پر اِس لیۓ یہ باتیں کر رھے ہیں
کہ یہ میرے اذیت ناک عذاب کے اذیت ناک مرحلے سے نہیں گزرے ہیں ، کیا آپ کے
عطاکار و غالب کار پروردگار کے علمی خزانے اِن لوگوں کے قبضے میں ہیں کہ وہ
اِن کی مرضی سے اِن کی مرضی کے اُس انسان کو دے جس کو یہ چاہیں اور اُس
انسان کو نہ دے جس کو یہ نہ چاہیں ، اگر اِن کا یہ خیال ھے کہ وہ زمین و
آسمان کی چیزوں کے مالک ہیں تو یہ میرے عالَم کے اَسباب پر قابض ہو نے کے
لیۓ بھی اپنا زور لگا کر دیکھ لیں ، اِن کی یہ سرکش جمعیت تو ایک بہت ہی
مُختصر سی جمعیت ھے جو سر کشی کے اسی پہلے مرحلے میں مٹنے والی ایک جمعیت
ھے ، اِس سے پہلے جس طرح قومِ نوح و قومِ عاد اور میخوں والی قوم کے علاوہ
فرعون و ثمود اور لُوط و اَیکہ والے لوگ ھمارے ھادیوں کا انکار کر کے اپنے
بُرے اعمال کے بُرے اَنجام کو پُہنچ چکے ہیں اسی طرح اِن لوگوں نے بھی جلد
یا بدیر اپنے بُرے اعمال کے بُرے اَنجام کو پُہنچنا ھے کیونکہ اِس زمین کی
جن قوموں نے بھی ھمارے رسُولوں کی تکذیب کی ھے اُن سب پر ہمیشہ ھمارا یہی
اَزلی و اَبدی قانُونِ مکافات نافذ العمل ہوتا رہا ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کا پہلا موضوعِ سُخن انسان کا اللہ تعالٰی کے بناۓ ہوۓ اُس اَزلی
و اَبدی قانُون کی خود بھی قلبی و عملی اطاعت کرنا ھے اور دُوسرے انسانوں
سے بھی اُس کی قلبی و عملی اطاعت کرانا ھے جس اَزلی و اَبدی قانُون کو اللہ
تعالٰی نے اَزل سے اَبد تک پیدا ہونے والے انسانوں کو اپنے نظمِ اطاعت و
نظام اطاعت میں رکھنے کے لیۓ بنایا ھے اور اِس سُورت کا دُوسرا موضوعِ سُخن
ہر اُس قانُون سے خود بھی قلبی و عملی بغاوت کرنا اور دُوسرے انسانوں سے
بھی اِس سے قلبی و عملی بغاوت کرانا ھے جو قانُون کسی فرد یا کسی قوم نے
اللہ تعالٰی کے اِس اَزلی و اَبدی قانُون کے مقابلے میں اُس مُتبادل قانُون
کے طور پر بنایا ھے جس کا مقصد زمین پر رہنے والے انسانوں کو اپنا غلام
بنانا ھے اور اِس انسان ساختہ قانُون کو اُس فرد یا قوم نے اِس غرض سے
انسانوں پر مُسلط کیا ھے تاکہ وہ اہلِ زمین سے اللہ تعالٰی کے قانُون سے
ہٹاۓ اور اہلِ زمین کو اپنا غلام بنا کر اپنے قانُون کی اطاعت پر لگاۓ ،
اِس سُورت کے اِن دونوں موضوعات کی تعلیم و تفہیم کے لیۓ اِس سُورت میں ایک
قابلِ عمل و قابلِ تقلید دلیل و تمثیل کے لیۓ اللہ تعالٰی نے اپنے اُس نبی
داؤد علیہ السلام کے ایک خاص فیصلے کو پیش کیا ھے جس نبی کو اللہ تعالٰی نے
اپنے اِس خاص قانُون پر عمل کرنے اور عمل کرانے کے لیۓ ایک خاص تعلیم اور
ایک خاص ملکہِ تعلیم دیا تھا اور اللہ تعالٰی کے اُس نبی نے اللہ تعالٰی کے
اُس خاص قانُون پر خود عمل کرنے اور اپنے زمانے کے دُوسرے انسانوں سے عمل
کرانے کی بنا پر اللہ تعالٰی سے زمین پر اللہ تعالٰی کا خلیفہ ہونے کا وہ
عظیم الشان خطاب حاصل کیا تھا جو عظیم الشان خطاب اللہ تعالٰی نے اپنے اُس
نبی سے پہلے یا بعد زمین کے کسی اور انسان کو نہیں دیا ھے ، اِس سُورت کی
پہلی اٰیت کا پہلا حرف "ص" صدق کی معروف علامت کے طور پر لایا گیا ھے اور
اِس مقصد کو اُجاگر کرنے کے لیۓ لایا گیا ھے کہ محمد علیہ السلام توحید کی
جو تعلیم دے رھے ہیں وہ صدق ہی صدق ھے ، صدق کے سوا کُچھ بھی نہیں ھے اور
اِس ابتدائی مضمون کے بعد اُن لوگوں کے اِس احمقانہ کا تعجب کا ذکر کیا گیا
ھے کہ اُن کے درمیان اُن کی اپنی قوم کا ایک فرد اللہ تعالٰی کا نبی بن کر
آگیا ھے حالانکہ اُن کے لیۓ اگر اُن کے لیۓ تعجب کی کوئی بات ہوتی تو یہ
ہوتی کہ اُن میں کوئی اَجنبی اور اَنجان انسان اُن کا نبی بنا کر مامور
کردیا گیا ہوتا اور وہ اُس کی اجنبیت سے متوحش ہو کر اُس کے قریب نہ جاتے
اور اُس پر ایمان نہ لاتے لیکن یہ لوگ تو عام انسانی فطرت کے خلاف بات کر
رھے ہیں جو اِن کی اپنی ہی مُشرکانہ فطرت کا پیدا کیا ہوا ایک مُشرکانہ
بگاڑ ھے ، اِس سُورت کی اِن پہلی اٰیات کا رُوۓ سُخن بظاہر تو صرف عھدِ
نبوی کی اُن عملی و اعتقادی مُشرک و مُتشکک اقوام کی طرف ھے جو مُشرک و
مُتشکک اقوام عھدِ نبوی میں زمین پر موجُود تھیں لیکن اَمرِ واقعہ یہ ھے کہ
اِن اٰیات کا رُوۓ سُخن قیامت تک زمین پر آنے والی اُن تمام اقوام کی طرف
ھے جن قوم نے قیامت تک اِس زمین پر آنا ھے اور اِس زمین پر رہنا ھے ،
اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا کی ہر اٰیت میں توحید کا وہ مرکزی مضمون بھی
شامل ھے جو قُرآنِ کریم کی ہر سُورت کا ایک مقصدی مضمون ھے کیونکہ توحید کا
وہ قانُون ہی اِس عالَم کے اُس عالِم کی وہ طاقت ور قانُون ھے جس طاقت ور
قانُون کو قبول کرکے انسان نے اِس اَمر کا اقرار کرتا ھے کہ اہلِ زمین کو
اللہ کے قانُون کی طاقت کی ضرورت ھے انسان کی طاقت کے قانُون کی ضرورت نہیں
ھے اور توحید کے اِس قانُون کے پائدار و اُستوار ہونے کی تاریخی دلیل یہ ھے
کہ زمین پر آج تک اُسی قوم نے اپنی طبعی عُمر پُوری کی ھے جس قوم نے توحید
کے اِس اَزلی و اَبدی قانُون کی اطاعت کی ھے اور زمین کی ہر وہ قوم اپنی
طبعی عُمر تک پُہنچنے سے پہلے ہی عذابِ اِلٰہی سے ہلاک ہوئی ھے جس نے اللہ
تعالٰی کے اِس اَزلی و اَبدی قانُون سے انکار کر کے اپنے شرک کی لعنت پر
اصرار کیا ھے ، دینِ اسلام کے مطابق اللہ تعالٰی کی اِس زمین پر اللہ
تعالٰی کے آسمانی قانُون کی نمائندہ کتاب قُرآن ھے اور اُن آسمانی کتابوں
کے وہ اجزاۓ کلام بھی اِس میں شامل ہیں جن کے اَحکام کا کوئی متن قُرآن کے
کسی متن کے خلاف نہیں ھے لیکن اِس کتابی قانُون سے یہ اَمر مُراد نہیں ھے
کہ کوئی آسمانی کتاب قانُون کی وہ قانُونی اور کوڈی فائی کتاب ھے جس کے
اَحکام ایسے شق وار اور مربوط اَحکام ہیں جن میں ہر چیز ایک قانُونی ترتیب
کے ساتھ درج کی گئی ھے اور جس کو کھول کر دیکھ لینا ہی انسان کے لیۓ کافی
ھے بلکہ آسمانی کتاب کے قانُونی ہونے سے مُراد صرف یہ ہوتی ھے کہ اِس کتاب
میں وہ سارے رہنما اصول اور ضابطے موجُود ہیں جن کی روشنی میں ہر زمین اور
ہر زمانے کی ہر قوم اپنا وہ شق وار قانُون بنا سکتی ھے جس کی ترتیب وار
شقوں کو دیکھ کر وہ اپنے قانُونی فیصلے کر سکتی اور اُن فیصلوں پر عمل کرا
سکتی ھے کیونکہ یہ آسمانی کتاب وہ سُورج ھے جس سُورج کے سامنے جو قوم بھی
آجاتی ھے وہ لازما اِس کی روشنی سے فیض یاب ہوجاتی ھے اور جو قوم قانُون کے
اِس سُورج سے رُو گردانی کرتی ھے وہ کفر و جہالت کے اندھیروں میں بہٹک بہٹک
کر فنا ہو جاتی ھے !!
|