نَبوتِ داؤد اور روایاتِ مُسلم و یہُود

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ ص ، اٰیت 15 تا 26 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
ماینظر
ھٰؤلاء الّا
صیحة واحدة
مالھا من فواق 15
وقالواربنا عجلنا قطنا
قبل یوم الحساب 16 اصبر
علٰی مایقولون واذکر عبدنا ذاالاید
انه اواب 17 اناسخرناالجبال معه یسبحن
بالعشی والاشراق 18 والطیرمحشورة کلُ لهٗ اواب
19 وشددناملکه واٰتینٰه الحکمة وفصل الخطاب 20 وھل
اتٰک نبؤاالخصم اذتسوروالمحراب 21 اذدخلواعلٰی دؤد ففزع
منھم قالوالاتخف خصمٰن بغٰی بعضنا علٰی بعض فاحکم بیننا بالحق و
لاتشطط واھدناالٰی سواء صراط 22 ان ھٰذااخی له تسع وتسعون نعجة ولی
نعجة واحدة فقال اکفلنیھا وعزنی فی الخطاب 23 قال لقد ظلمک بسؤال نعجتک
الٰی نعاجه وان کثیر من الخلطاء لیبغی بعضھم علٰی بعض الّاالذین اٰمنواوعملواالصٰلحٰت
وقلیل ماھم وظن داؤد انما فتنٰه فاستغفرربهٗ وخرراکعا واناب 24 فغفرنالهٗ ذٰلک وان له عندنا
لزفٰی وحسن ماٰب 25 یٰداؤد اناجعلنٰک خلیفة فی الارض فاحکم بین الناس بالحق ولاتتبع الھوٰی
فیضلک عن سبیل اللہ ان الذین یضلون عن سبیل اللہ لھم عذاب شدید بمانسوایوم الحساب 26
اے ھمارے رسُول ! حق کے یہ مُنکر بھی قیامت کے اُسی ایک لَرزا دینے والے آخری دھماکے کے لیۓ جلدی مچا رھے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اُس یومِ حساب کے آنے سے پہلے ہی اُن کے ہر عمل کا نتیجہ اُن کے سامنے آجاۓ اِس لیۓ آپ اِن کی اِس جلد بازی پر صبر کریں اور اِن کو ھمارے اُس طاقت ور بندے داؤد کا قصہ سنائیں جو اہلِ حیات کے جُملہ معاملات کو اللہ کے حُکم سے سُلجھاتا تھا ، ھم نے اُس کو پہاڑوں سے کام لینے کا جو ہنر سکھایا تھا وہ ھمارے اُس ہنر کے مطابق صُبح و شام اُن سے کام لیتا تھا ، ھم نے فضامیں اُڑنے والے طیاروں کو بھی اُس کے اَحکام کا پابند بنایا تھا جو اُس کے حُکم پر اُس کے پاس اُترتے تھے اور ھم نے اپنی اِن قُوتوں کے ساتھ اُس کی سلطنت مضبوط اور محفوظ بنا رکھی تھی اور اُس سلطنت کو چلانے کے لیۓ ھم نے اُس کو علم و حکمت کے فیصلے کرنے کی وہ اعلٰی صلاحیت بھی دے رکھی تھی جس کے تحت وہ بروقت فیصلے کر لیا کرتا تھا اور اُس کے اُن فیصلوں میں اُس کا وہ فیصلہ بھی ایک یاد گار فیصلہ تھا جب میدانِ جنگ سے وہ دو اَفراد اپنا ایک تصفیہ طلب معاملہ لے کر اُس کے جنگی خیمے میں آۓ تھے جن کے جنگی لباس دیکھ کر وہ گھبرا گیا تھا اور اُن میں سے ایک نے اُس کو اپنے پُراَمن ہونے تسلی دیتے ہوۓ کہا تھا کہ ھم دو فریقِ مقدمہ افراد ہیں جن میں سے ایک نے دُوسرے پر دباؤ ڈالا ہوا ھے جس کی تفصیل یہ ھے کہ جو شخص میرے ساتھ آیا ھے یہ میرا وہ بھائی ھے جس کے پاس بھاری معدنیات کے حامل نناویں زمینی رقبے ہیں اور میرے پاس ایسا ایک ہی زمینی رقبہ ھے اور یہ مُجھ سے کہتا ھے کہ میں اپنا ایک رقبہ بھی اِس کو دے دوں ، اِس نے اپنی چرب زبانی سے تو مُجھے دُبا لیا ھے اور اَب یہ اپنے عملی اَقدام سے میرے اُس رقبہِ زمین پر بھی قبضہ کرنے والا ھے ، داؤد نے اُس شخص کا بیان سُن کر کہا کہ تُمہارے ساتھی نے تُمہارے ایک معدنی رقبہِ زمین کو اپنے نناویں رقبہاۓ زمین میں ضم کرنے کا جو ارادہ کیا ہوا ھے وہ واقعی اِس کا ایک ظالمانہ ارادہ ھے اور مل جل کر رہنے والے اکثر لوگ ایک دُوسرے کے ساتھ اِس قسم کی تعدیاں کرتے ہی رہتے ہیں اور اِس ناانصافی سے وہی صلاحیت کار لوگ بچ پاتے ہیں جو اپنی محنت و صلاحیت سے حاصل کی ہوئی چیزوں سے ہی خوش حال و مُطمئن ہوتے ہیں مگر یہ بات کہتے ہی داؤد کو خیال آیا کہ یہ لوگ جو محاذِ جنگ سے آۓ ہیں اِن کا بیان کیا ہوا یہ قصہ اِس قدر سادہ نہیں ھے جس قدر سادگی کے ساتھ اُن کے سامنے بیان کیا گیا ھے اور داؤد سمجھ گیا کہ یہ قصہ اُن کے لیۓ وہ خُدائی آزمائش ھے جس آزمائش میں وہ خود بھی کہیں نہ کہیں ضرور شامل ہیں اور یہ خیال آتے ہی وہ اللہ کے سامنے سرنگوں ہوگۓ اور دل ہی دل میں اپنے اُس خیال سے رجوع کر لیا جو اُن کے دل میں موجُود تھا اور ھم نے بھی اُس کی خطا پوشی کردی اور یقین جانو کہ ھمارے ہاں اہلِ عمل کے اِس عمل کی بڑی قدر ھے اِس لیۓ ھم نے داؤد سے کہا کہ ھم نے تیرے اِس فیصلے کی بدولت اپنی زمین میں تُجھے اپنے اَحکام کا حاکِم و حکَم بنا دیا ھے اِس لیۓ تُو اسی طرح اپنے نفس و ذات اور اہلِ روایات کی اَغراض سے آزاد ہو کر اہلِ زمین پر اسی عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کر اور اِس بات کا ہمیشہ خیال رکھ کہ اہلِ زمین اپنی چرب زبانی سے تُجھے دھوکہ نہ دے سکیں کیونکہ جو لوگ لوگوں کی باتوں میں آکر حق فراموش ہو جاتے ہیں وہ یومِ حساب کے احتساب کے موقعے پر اللہ کی ایک سخت سزا کے مُستحق ہو جاتے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم نے داؤد بن سلیمان 1055 قبل مسیح کا سُورَةُالبقرة کی اٰیت 251 ، سُورَةُالنساء کی اٰیت 163 ، سُورَةُالمائدة کی اٰیت 78 ، سُورَةُالاَسراء کی اٰیت 55 ، سُورَةُ الاَنبیاء کی اٰیت 78 ، 79 ، سُورَةُالنمل کی اٰیت 15 ، 16 سُورَہِ سبا کی اٰیت 10 ، 13 اور سُورَہِ صٓ کی اٰیت 17 تا 26 کی جن 16 اٰیات کے جن 16 مقامات پر ذکر کیا ھے اُن سارے مقامات میں سے اِس سُورت کا یہ مقام اِس قصے کا وہ آخری مقام ھے جس آخری مقام پر قُرآن نے اِس قصے کی اِس تفصیل کی تکمیل کردی ھے ، داؤد علیہ السلام کا یہ قصہ جو قُرآنِ کریم نے بیان کیا ھے وہ بائبل کے اُس قصے کی تردید کی غرض سے بیان کیا ھے جو بائبل کی کتاب سیموئیل کے باب 11 و 12 میں درج ہوا ھے اور اُس کتاب میں داؤد علیہ السلام پر "اوریاہ حتی" کی بیوی کے ساتھ زنا کا الزام لگایا گیا ھے اور اِس پر مُستزاد یہ کہ بائبل کی اسی کتاب کے اسی باب میں داؤد علیہ السلام پر یہ الزام بھی لگایا گیا ھے کہ داؤد نے جس عورت کے ساتھ زنا کیا تھا وہ کوئی اور عورت نہیں تھی بلکہ داؤد کے باپ سلیمان کی بیوی اور اُس کی اپنی ماں تھی اور بائبل کی کتاب سیموئیل کے باب 12 کی سطور 1 تا 11 میں اِس قصے کی جو مزید تفصیل بیان کی گئی ھے اُس تفصیل کے مطابق { خُداوند نے ناتن کو داؤد کے پاس بہیجا ، اُس نے اُس کے پاس آکر اِس سے کہا کہ کسی شہر میں دو شخص تھے ، ایک امیر اور دُوسرا غریب ، اُس امیر کے پاس بہت بڑا ریوڑ اور گلّے تھے ، پر اِس غریب آدمی کے پاس بھیڑ کی ایک پَٹھیا کے سوا کُچھ نہ تھا جسے اُس نے خرید کر پالا تھا اور وہ اُس کے اور اُس کے بال بچوں کے ساتھ بڑھی تھی ، وہ اُسی کے نوالے میں سے کھاتی اور اُس کے پیالے میں سے پیتی اور اُس کی گود میں سوتی تھی اور اُس کے لیۓ بطور بیٹی کے تھی ، اور اُس امیر کے ہاں کوئی مسافر آیا ، سو اُس نے اس مسافر کے لیۓ جو اس کے ہاں آیا تھا پکانے کو اپنے ریوڑ اور گلّے میں سے کُچھ نہ لیا بلکہ اُس غریب کی بھیڑ لے لی اور اُس شخص کے لیۓ جو اس کے ہاں آیا تھا پکائی ، تَب داؤد کا غضب اُس شخص پر بشدت بھڑکا اور اُس نے ناتن سے کہا خُداوند کی حیات کی قسم ، وہ شخص جس نے یہ کام کیا واجب القتل ھے ، اُس شخص کو بھیڑ کا چوگنا بھرنا پڑے گا کیونکہ اُس نے ایسا کام کیا اور اسے ترس نہ آیا ، تَب ناتن نے داؤد سے کہا کہ وہ شخص تُو ہی ھے ۔۔۔۔ تُو نے حتی اور یاہ کو تلوار سے مارا اور اُس کی بیوی لے لی تاکہ وہ تیری بیوی بنے اور اُس کو بنی عَمّون کی تلوار سے قتل کرایا } ہمیں یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں ھے کہ عُلماۓ اسلام نے قُرآنِ کریم کے بیان کیۓ ہوۓ اِس واقعے کی روشنی میں عُلماۓ بائبل کی شرمناک روایات کی تردید جو کو ششیں کی ہیں اُن کی تفصیلات قابلِ قدر ہونے کے باوصف بھی اِس لحاظ سے بے قدر ہیں کہ اُنہوں نے بائبل کے بیان کیۓ ہوۓ قصے کی جو تردید کی ھے اُس میں اُنہوں نے صفائی کے وکیل کے طور پر بائبل کے قصے کو جتنا زیادہ قابلِ توجہ سمجھا ھے قُرآن کے بیان کیۓ ہوۓ واقعے کو اتنا ہی زیادہ ناقابلِ توجہ سمجھ کر نظر انداز کیا ھے جس کا نتیجہ یہ ہوا ھے کہ قُرآنِ کریم نے جس حقیقت کو اُجا گر کیا ھے وہ حقیقت تو کہیں گُم ہو گئی ھے لیکن بائبل کی کہانی کے مقابلے میں عُلماۓ اسلام کی وہ کہانی تیار ہو کر سامنے آگئی ھے جس کو علماۓ اسلام نے مشرف بہ اسلام کیا ہوا ھے اور اُس مشرف بہ السلام کہانی کا لُبِ لُباب یہ ھے کہ داؤد علیہ السلام نے کسی عورت کے ساتھ زنا نہیں کیا تھا بلکہ ایک عورت کے ساتھ باقاعدہ طور پر عقدِ نکاح کیا تھا اور اُس نکاح میں جو ایک اُلجھن واقع ہوگئ تھی اُس کو مولانا مودودی مرحوم نے تفہیم القرآن کی چوتھی جلد کے صفحہ 328 اور 329 میں نسبتا بہتر انداز میں بیان کرتے ہوۓ یہ ارشاد فرمایا ھے کہ { بائبل میں اس واقعہ کی وہ گھناؤنی شکل کیسے بنی? یہ بات تھوڑے سے غور کے بعد سمجھ آجاتی ھے ، معلوم ایسا ہوتا ھے کہ حضرت داؤد کو اُس خاتون کی خوبیوں کا کسی ذریعہ سے علم ہو گیا تھا اور اُن کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا تھا کہ ایسی لائق عورت ایک معمولی افسر کی بیوی ہونے کے بجاۓ ملک کی ملکہ ہونی چاہیۓ ، اسی خیال سے مغلوب ہو کر انہوں نے اُس کے شوہر سے یہ خواہش ظاہر کی تھا کہ وہ اُس کو طلاق دے دے ، اس میں کوئی قباحت انہوں نے اِس لیۓ محسوس نہ کی کہ بنی اسرائیل کے ہاں یہ کوئی معیوب بات نہ سمجھی جاتی تھی ، اُن کے ہاں یہ معمول کی بات تھی کہ ایک شخص اگر کسی کی بیوی کو پسند کرتا تھا تو بے تکلف اس سے درخواست کردیتا تھا کہ وہ اسے میرے لیۓ چھوڑ دے ، ایسی درخواست پر کوئی برا نہ مانتا تھا بلکہ بسااوقات دوست ایک دُوسرے کے پاس خاطر سے بیوی کو خود طلاق دے دیتے تھے تاکہ دُوسرا اس سے شادی کر لے لیکن یہ بات کرتے وقت حضرت داؤد کو یہ احساس نہ ہوا کہ ایک عام آدمی کی طرف سے اس طرح کی خواہش کا اظہار تو جبر و ظلم کے عنصر سے خالی ہو سکتا ھے مگر ایک فرماں روا کی طرف سے جب ایسی خواہش ظاہر کی جاۓ تو وہ جبر سے کسی طرح بھی خالی نہیں ہو سکتی ، اس پہلو کی طرف جب اس تمثیلی مقدمہ کے ذریعہ سے ان کو توجہ دلائی گئی تو وہ بلا تامل اپنی خواہش سے دست بردار ہوگۓ اور بات آئی گئی ہوگئی مگر بعد میں کسی وقت جب ان کی کسی خواہش و کوشش کے بغیر اس خاتون کا شوہر ایک جنگ میں شہید ہو گیا اور انہوں نے اس سے شادی کرلی تو یہودیوں کے خبیث ذہن نے افسانہ تراشی شروع کردی اور یہ خبیث نفس اس وقت اور بھی زیادہ تیزی سے کام کرنے لگا جب بنی اسرائیل کا ایک گروہ حضرت سلیمان کا دشمن ہو گیا } تاہم عُلماۓ اسلام کی یہ مُشترکہ کہانی اتنی ناقص تھی کہ مولانا مودودی کو یہ کہانی بیان کرنے کے بعد بھی اس پر شرحِ صدر نہیں ہوا ھے ، چنانچہ موصوف نے تفہیم القرآن کی اسی جلد کے صفحہ 326 پر اپنی اس راۓ کا اظہار کیا ھے کہ { اس سے معلوم ہوا کہ حضرت داؤد سے قصور تو ضرور ہوا تھا اور وہ کوئ ایسا قصور تھا جو دُنبیوں والے مقدمے سے کسی طرح کی مماثلت رکھتا تھا اسی لیۓ اس کا فیصلہ سناتے ہوۓ معا ان کو یہ خیال آیا کہ یہ میری آزمائش ہوئی ھے لیکن اس قصور کی نوعیت ایسی نہ تھی کہ وہ معاف نہ کیا جاتا } مگر قُرآنِ کریم کے بیان کیۓ ہوۓ اِس واقعے میں "نعجة" بمعنی دُنبی اور "المحراب" بمعنی ایک خاص خیمہِ جنگ کے دو الفاظ ایسے ہیں کہ جو عُلماۓ یہُود کے زنا کی کہانی اور عُلماۓ اسلام کے نکاح کی کہانی کی تردید کے علاوہ قُرآن کے بیان کیۓ ہوۓ واقعے کے اُس نفسِ واقعہ کو بھی واضح کردیتے ہیں جو واقعہ قُرآن کا مقصود و مطلوب واقعہ ھے ، سوال یہ ھے کہ اگر قُرآن کا مقصد ایک کے عدد اور نناوے کے اعداد کی قلت و کثرت ہی کو واضح کرنا تھا تو اُس کی تفہیم کے لیۓ مثال بکری اور اونٹ وغیرہ کی بھی دی جاسکتی تھی ، آخر دُنبی ہی کی مثال کیوں دی گئی ? اِس سلسلے میں ھماری گزارش یہ ھے کہ دُنبی کی یہ مثال اِس لیۓ دی گئی ھے کہ دُنبی وہ بھاری دُم کی حامل واحد چیز ھے جو قریب قریب اپنے جسم کے گوشت کے برابر کو پکانے کی وہ چکنائی بھی اپنی دُم میں اُٹھاۓ اور لٹکاۓ ہوۓ پھرتی ھے جس کی وجہ سے اُس کو دُنبی بھاری دُم والی کہا جاتا ھے اور "محراب" سے مُراد میدانِ جنگ کا وہ خیمہ ہوتا ھے جس میں جنگ میں استعمال ہونے والا وہ سامانِ حرب و ضرب رکھا جاتا ھے اور جو اِس کہانی میں اِس حقیقت کا آئینہ دار ھے کہ یہ اُس میدانِ جنگ میں پیش آنے والا ایک واقعہ ھے جس میدانِ جنگ میں داؤد علیہ السلام بذاتِ خود موجُود تھے اور جو دو اَفراد اُن کے خیمے میں آۓ تھے وہ اُسی میدانِ حرب سے اُس محرابِ شاہی میں آۓ تھے جس میں داؤد علیہ السلام بنفسِ نفیس موجُود تھے اور آنے والے افراد میں سے ایک اُن کی اپنی فوج کا کوئی سالار تھا اور دُوسرا دُشمن فوج کا کوئی سفارتی نمائندہ تھا جس نے بہترین سفارتی زبان میں اُن کو بتایا تھا کہ جس بھاری معدنیات کی معدنیاتی ، یعنی سونے کی کانوں والی زمین کا قبضہ حاصل کرنے کے لیۓ اِس خیمے کے باہر جنگ لڑی جاری ھے اُس زمین کی ایک سنہری کان کے سوا تمام کانوں پر آپ کی شاہی فوج قبضہ کرچکی ھے اور چونکہ زندہ ھم نے بھی رہنا ھے اِس لیۓ اُس آخری کان پر قبضہ کرنے سے پہلے جنگ بندی کر لی جاۓ تاکہ ھماری گزر بسر کے لیۓ ھمارے پاس بھی کُچھ بچ جاۓ اور چونکہ یہ ایک عاجزانہ درخواست تھی اِس لیۓ فوری طور پر قبول کر لی گئی اور رحم دلی کے اسی عظیم مظاہرے پر داؤد علیہ السلام کو اللہ تعالٰی اپنی زمین پر اپنا خلیفہ کہلانے کا حق دار بنایا اور یہ بات تو ظاہر ہی ھے کہ جو عمل عُلماۓ یہود و علماۓ اسلام نے داؤد علیہ السلام کی طرف منسوب کیا ہوا ھے اُس عمل کے بدلے میں تو اللہ تعالٰی کی طرف سے اُن کو زمین میں اپنے اَحکام کا نمائندہ بنانے اور اپنا خلیفہ قرار دینے کا تو سوال و جواز ہی ایک خارج از بحث چیز ھے اِس لیۓ یہ بات کسی شک و شبہے کے بغیر کہی جاسکتی ھے کہ داؤد علیہ السلام کو اللہ تعالٰی کی طرف سے یہ انعام و اکرام اُن کے اُس فیصلے کی بنا پر ملا تھا جو عالَمِ انسانیت کے لیۓ اُن کا ایک عظیم الشان فیصلہ تھا !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558255 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More