خلیفہ بلافصل حضرت صدیقِ اکبر رضی ﷲ عنہ

انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد انسانوں میں سب سے افضل شخصیت حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ ہیں، جنہیں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اپنا خلیل بنانا چاہتے تھے وہ حضرت صدیق اکبرؓ ہیں۔حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ عنہ ، آپ کا نام عبداﷲ بن عثمان بن عمر بن عمر القرشی التیمی تھا اور آپ ؓ کی کنیت ابوبکر تھی۔ آپ ؓ ابوقحافہ کے گھر میں عام الفیل کے دوسال چھ ماہ بعد ۳۷۵ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کے لقب صدیق اور عتیق قرار پائے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اعلانِ نبوت اور سفرِ معراج پر سب سے پہلے تصدیق وگواہی آپؓ نے دی، جس پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حق و سچ کی تائید کرنے کا لقب (صدیق) عنایت کیا۔آپ وہ واحد صحابی ہیں مہاجرین میں سے جن کے والدین نے اسلام قبول کیا اور جن کی چار نسلوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت ہی نہیں کی، بلکہ سبھی حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔صدیق اکبرؓ،جنہیں قرآن پاک میں اﷲ نے سچائی کی تائید کرنے والا اور حق و سچ کا پیکر و پرتو قرار دیا، آپ ؓ کے بارے میں حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ: میں ان کے مقام و مرتبہ تک کبھی نہیں پہنچ سکتا، وہ جنہیں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی امامت تفویض کی، جنہیں جنت کے سبھی دروازے سے داخل ہونے کی دعوت دیں گے، وہ جس نے اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وسلم پر اس قدر احسان کیے کہ خود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ارشاد فرمانا پڑا کہ: ان کے احسانات کا بدلہ خود اﷲ تعالیٰ چکائیں گے، وہ جو صرف عشرہ مبشرہ میں ہی شامل نہیں، بلکہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: تم میرے حوضِ کوثر پر بھی رفیق ہوگے جیسے سفرِ ہجرت میں میرے ساتھ تھ۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اعلانِ نبوت کے بعد تجارتی سفر سے واپسی پرجونہی سیدناصدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کو خبر ملی کہ آپ کے قریبی ساتھی و دوست محمدبن عبداﷲ نے اعلانِ نبوت کیاہے توآپ ؓ فوراً نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھاکہ کیا آپ نے اعلانِ نبوت کیا ہے؟ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی جانب سے ہاں میں جواب ملتے ہی بغیر کوئی دلیل مانگے مشرف باسلام ہوگئے۔ قرآن کریم میں سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کا تذکرہ سورۃ آل عمران،سورۃ اللیل،سورۃ التوبہ، سورۃ الزمراور سورۃ الفتح میں ہوا ہے۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر سب سے پہلے مردوں میں سے ابوبکرصدیق رضی اﷲ عنہ ایمان لائے۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے قبولِ اسلام سے تادمِ زیست خود کو اوراپنے اہل خانہ کو اسلام کی خدمت کے لیے وقف کردیا، جس کا نتیجہ ہے کہ قرآن کریم میں جہاں عظمتِ صدیقی کے تذکرے ملتے ہیں، وہیں پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی احادیث میں آپ کے فضائل و مناقب بیان ہوئے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ایک مرتبہ اْحد پہاڑ پر سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ ، سیدنا عمرفاروق رضی اﷲ عنہ اور سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہ کے ہمراہ موجود تھے، پہاڑ لرزنے لگا تو آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا: ’’تھم جا! تجھ پر نبی و صدیق اور دوشہید موجود ہیں۔‘سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کے قبولِ اسلام کے بعدکے حالات کا اگر جائزہ لیا جائے تو غیرت و حمیت اور شجاعت جیسے عالی اوصاف سے آپ ؓکا دامن بھرا ہوا نظر آتا ہے۔آپؓ نے قبولِ اسلام کے بعد جان و مال سب کچھ اسلام پر قربان کردیا۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے عقد میں اپنی لختِ جگراْم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا دی۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم کی سورہۃ نور کی میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی لختِ جگر کی فضیلت کو بیان کیا۔ سفرِ ہجرت میں آپ ؓ نے دل جمعی کے ساتھ نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت کی۔ جب بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اشاعتِ اسلام کی خاطر مسلمانوں سے صدقہ دینے کی التجا کی توآپؓ نے سب سے زیادہ مال پیش کیا۔ غارِثور کی چڑھائی چڑھتے وقت آپؓ نے نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنے کندھوں پر اْٹھایا، غار کی صفائی کے دوران خطرناک سانپ نے آپؓ کی ایڑی پر ڈسا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنا لعابِ دہن ان کی ایڑی پر لگایاجوکہ کسی کی ایڑی پرنہیں لگاسوائے صدیق اکبرکے۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے وصال کے بعد تمام صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اس قدر رنجیدہ ہوئے کہ اپنے ہوش وحواس کھوبیٹھے، یہاں تک کہ سیدنا عمرفاروق رضی اﷲ عنہ جیسے مضبوط قوت و جسم کے مالک اور بہادر بھی اس اعلان سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ہاتھ میں بے نیام تلوار لے کر یہ کہنے لگے کہ جس شخص کو میں نے یہ کہتے ہوئے سن لیا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں تو میں اس کا سر قلم کر دوں گا۔ اس موقع پر بھی سیدناصدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے اپنی فطری بصیرت اور اصابتِ رائے کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے تمام صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو جمع کر کے خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا: ’’لوگو! سنو! جو لوگ تم میں سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عبادت کیا کرتے تھے توآپ صلی اﷲ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں اورجولوگ اﷲ پاک کی عبادت کرتے تھے تو یاد رکھو! اﷲ زندہ ہے اور اﷲ کی ذات کو کبھی موت نہیں آئے گی۔ نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے اتنے جان لیواحادثے کے بعد بھی اتنے بلند حوصلے اور عزائم کا اعادہ کوئی حلیم طبع اور صابر انسان ہی کر سکتاہے جو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد اْمت کی قیادت سنبھالنے کا حق دار ہے۔ غزوہ تبوک کے موقع پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب مسلمانوں سے چندہ طلب کیا تو سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے گھر کا سارا سامان پیش کردیا، یہاں تک کہ اپنا ذاتی لباس بھی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا، جبکہ خود ٹاٹ کا لباس زیب تن کرکے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے۔ اسی موقع پرملکِ مقرب جبرئیل امین علیہ السلام آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے تو انہوں نے بھی ٹاٹ کا لباس زیب تن کیا ہوا تھا اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو بتایا کہ اﷲ تعالیٰ کو سیدنا صدیق اکبر صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ ادا اس قدر پسند آئی کہ تمام فرشتوں کو اﷲ تعالیٰ نے یہ لباس پہننے کا حکم دیا ہے۔ خلافت کا منصب سنبھالنے کے بعد آپ نے خطبہ میں ارشاد فرمادیا تھا کہ: ’’تم میں سے کمزور میرے لیے طاقتور ہے اور طاقتور کمزور ہے کہ اگر کوئی ظلماً کسی کا حق غصب کرے گا تو میں ضروربالضرور وہ حاصل کرکے مظلوم کی نصرت کروں گا۔ اورجب تک میں قرآن و سنت کے مطابق حکومت کروں تم پر میری اطاعت لازم ہے، اگر میں شریعت سے انحراف برتوں تو تم پر واجب نہیں کہ میری اطاعت کرو۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرماجانے کے بعد سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ دو برس چندماہ منصبِ خلافت پر فائز رہنے کے بعد بیمار ہوئے اور پیر کے روز ۲۲ جمادی الاخریٰ ۳۱ ہجری میں انتقال کرگئے اور اْمورِ خلافت چلانے کی خاطر جو راہنما اصول انہوں نے اختیار کررکھے تھے، انہیں کے احکامات پر صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے سیدنا عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کیا۔اﷲ پاک ہمیں آپ ؓ کے نقش قدم پرچلنے کی توفیق عطافرمائیں ۔

 

Rukhsana Asad
About the Author: Rukhsana Asad Read More Articles by Rukhsana Asad: 47 Articles with 30868 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.