میں نے ارادہ یہی باندھا تھا کہ معطل ہو جانے
ممبرانِ پارلیمنٹ کے بارے میں کچھ قلم گِھسائی کروں گا، کہ عوام کے یہ
منتخب نمائندے ہر لحاظ سے اہم ہوتے ہیں، ہلکی سی ٹھیس پر ان کا استحقاق
مجروح ہو جاتا ہے، اور ہوتارہتا ہے۔قوم کی راہوں کے کانٹے ہٹانے کے لئے وہ
اپنی نیند اور آرام و سکون قربان کر کے سفری صعوبتیں برداشت کرتے ہیں، قوم
کی سہولتوں کو قانونی شکل دینے کے لئے وہ اپنے گھر بار چھوڑ کر کئی کئی روز
کے لئے پردیس میں اسلام آباد جا کر قیام کرتے اور قوم کا غم کھاتے ہیں،
اپنا کام کاج، روز گار اور کاروبار چھوڑ کر عوام کی بہبود کے لئے وہ دن رات
ایک کر دیتے ہیں۔ یہ سب کچھ عوامی خدمت کے جذبے کے بغیر ممکن نہیں
ہوتا۔ایسی ہی مصروفیات کی بنا پر انہیں اپنے انکم ٹیکس کے گوشوارے تک داخل
کرنے یاد نہیں رہتے۔ اور تو اور اپنے سیکڑوں نمائندے ایسے بھی ہیں جو انکم
ٹیکس دیتے ہی نہیں، میرا ذاتی خیال ہے، کہ وہ بھو ل جاتے ہیں، کیونکہ وہ
دوسرے اہم کاموں میں مصروف ہوتے ہیں۔ الیکشن کمیشن تاریخوں میں بار بار
اضافہ کے باوجود گوشوارے جمع نہ کروانے پر معزز ارکان کی رکنیت معطل کر
دیتا ہے ۔دیگر بہت سی باتوں کی طرح ہمارے نمائندوں کو یہ گوشواروں جیسی خشک
سرگرمی سے استثنیٰ حاصل ہونا چاہیے۔ اپنے معزز ومحترم نمائندوں کے حق میں
کالم تو بنتا تھا، مگر اسی اثنا میں ایک اور خبر آگئی ، اور چھا گئی۔
سردار عثمان بزدار نے تین سالہ کارکردگی میں پہلی پوزیشن حاصل کر لی، انہوں
نے یہ کارنامہ سرانجام دے کر سب کو حیران کر دیا؟ یا بہت سوں کو پریشان کر
دیا؟ یا کوئی ان ہونی نہیں ہوئی، یہی توقع تھی؟ یا دوسرے صوبوں میں آخر کون
سے کام ہو رہے ہیں، جو سخت مقابلے کا سماں باندھا جاتا؟ قوم کو بتایا گیا
ہے کہ پنجاب کے اکیاون فی صد لوگوں نے اپنے محبوب ومقبول وزیراعلیٰ کی
کارکردگی کو اطمینان بخش قرار دیا ہے، سروے میں دیگر تینوں صوبوں کے وزرائے
اعلیٰ سے تقابل میں بتایا گیا ہے، کہ خیبر پختونخواہ کے ہر دلعزیز
وزیراعلیٰ محمود خان دوسرے، سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ تیسرے اور
بلوچستان کے چند ہی ماہ قبل میدان میں آنے والے وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو
ہیں۔ یہ سروے انسٹی ٹیوٹ آف پبلک اوپینین (IPOR)نامی ایک تنظیم نے کیا ہے۔
چونکہ معاملہ حکومتی کارکردگی کا ہے، اور بہترین کارکردگی پنجاب کے سی ایم
کی ہے، اس لئے سروے کے مندرجات اور نتائج وغیرہ پر شک کی نگاہ ڈالنا بذاتِ
خود ایک خطرناک عمل ہوگا۔
سروے کرنے والے ادارے نے یقینا شفافیت کو ترجیح دی ہوگی، ایک ایک چیز پر
غور کیا ہوگا، لوگوں سے سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لئے کوئی غیر
جانبدار قسم کا انداز اپنایا ہوگا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ اب تعلیم اور صحت
بہت آگے جارہے ہیں، ترقیاتی کاموں کی برق رفتاری پر بھی اظہارِ اطمینان
موجود ہے۔ قوم کو یقینی طور پر بہت جلد آگاہ کر دیا جائے گا کہ تعلیم کی
ترقی میں کون کونسے معرکے سر کر لئے گئے ہیں؟ سکولوں سے باہر کتنے بچے
حالیہ سالوں میں آوارگی یا چائلڈ لیبر کو خیر باد کہہ کر تعلیم کے زیور سے
آراستہ ہو رہے ہیں؟ ابتدائی کلاسوں میں داخلوں میں کس قدر اضافہ ریکارڈ کیا
گیا ہے؟یاد رہے کہ یکساں نصاب بنانے کا مطلب تعلیم کے میدان میں ترقی نہیں،
داخلوں میں اضافہ کے لئے اور سکولوں سے باہر تمام طلبا کو سکول لانے کے لئے
اردو کو ذریعہ تعلیم بنانا بھی ضروری ہے، جب چھٹی کلاس سے انگلش کا آغاز
ہوتا تھا، تب بھی قوم کو ذہین اور محنتی افراد خدمت کے لئے میسر آتے تھے،
حتیٰ کہ اس وقت جو بیوروکریسی یا دیگر بڑے گریڈوں پر لوگ ریٹائر ہو ئے ہیں،
یا ہورہے ہیں، ان میں اکثریت ٹاٹ سکولوں اور اردو میڈیم کی پڑھی ہوئی ہے۔
قوم کو مفت علاج کی سہولت کی خبریں عام ہیں، تاہم کچھ دھند چھٹے گی تو
معاملات کھل کر سامنے آئیں گے۔
گزشتہ دنوں خبر آئی تھی کہ حکومت کی طرف سے جاری ہونے والے ترقیاتی فنڈز
میں سے بہت کم استعمال کئے گئے ہیں، یوں متعلقہ انتظامیہ کی نااہلی کی بنا
پر وہ فنڈ واپس چلے گئے،ایک طرف فنڈز استعمال نہیں ہوتے اور دوسری طرف
ترقیاتی کاموں کے لئے عوام سخت پریشان ہیں، بڑے شہروں کی چند بڑی سڑکیں،
اور شہروں کو ملانے والی چند خاص سڑکیں تو واقعی بہتر ہیں، مگر ارد گرد
نگاہ ڈالیں تو کھڈے اور کھنڈرات ہی راہوں میں موجود ہیں، ’محبوب‘ کے گھر تک
پہنچنے کے لئے کوئی کہکشاں نہیں، انہی پتھروں پر چل کر جانا پڑتا ہے۔ سڑک
چھوٹی ہو یا بڑی، سالہا سال سے لوگ وہاں خوار ہوتے اور پریشانی کا مسلسل
اظہار کرتے ہیں، مگر کوئی سنتا نہیں، اس ضمن میں بلدیاتی اداروں کو غیر
فعال کرنا بھی سرکاری زیادتی ہے، خیبر میں تو ہوگیا اب سنا ہے بلدیاتی
الیکشن پنجاب میں بھی ہو گا، تو ممکن ہے گلی محلوں کی بھی قسمت جاگے۔
سردار عثمان بزدار کی پہلی پوزیشن کی ایک خاص وجہ تو یہی بنتی ہے کہ اپنے
وزیراعظم جب بھی لاہور آتے ہیں، سردار صاحب کو اعلیٰ کارکردگی پر شاباش
ضرور دیتے ہیں، اگر لاہور کے دورے میں مصروفیات کی وجہ سے کبھی تاخیر ہو
جائے ، تو اسلام آبا د ہی سے مبارکباد اور شاباش کا پیغام بھیج دیا جاتا
ہے۔ اس لئے ایسے سروے کرنے والے اداروں کو وزیراعظم کی خوشنودی کا خیال بھی
رکھنا پڑتا ہے۔ جو خواتین وحضرات ہر صورت میں بزدار حکومت کی مخالفت پر
اترے ہوئے ہیں، وہ غور فرمائیں کہ سانحہ مری کے اگلے ہی روز آپ ہیلی کاپٹر
پر گھنٹوں مری کا فضائی معائنہ کرکے آئے، (اسی اعلیٰ کارکردگی کا اظہار
انہوں نے گزشتہ برس کرونا کے پھیلاؤ کے موقع پر بھی کیا تھا، کئی روز ہیلی
کاپٹر پر مختلف شہروں کے طوفانی دورے کئے اور کرونا کا فضائی جائزہ لیا
تھا)۔ اب انہوں نے سانحہ مری کے تمام ذمہ داران یعنی کمشنر سے اے سی تک آٹھ
افراد کو معطل کرکے ثابت کر دیا ہے، کہ چاروں صوبوں کے سربراہوں میں وہی
ہیں جو اپنی کارکردگی کے لحاظ سے واقعی پہلی پوزیشن کے صحیح اور اصلی حقدار
ہیں۔ویسے بھی تین سالوں میں پنجاب کے سات آئی جیز پولیس کو تبدیل کرنا عام
وزیراعلیٰ کے بس کا روگ نہیں، باقی تین میں سے کوئی ایسا ہے تو سامنے آئے!!
|