وبالِ جان ہوئی ہیں جنتیں کیسی

کچھ موضوعات ایسے ہیں جن پر بات کرنا بہت معیوب سمجھا جاتا ہے اور اگر کوئی ایسی جسارت کر لے تو اسے بے بھاؤ کی سننی پڑتی ہیں ۔ خاص طور پر والدین کے خلاف آواز اٹھانا تو ایک ناقابل معافی جرم ہے ۔ ان کے مقام و مرتبے اور حقوق کے بارے میں دینی تعلیمات سے کون واقف نہیں؟ لیکن کیا وہ بھی سبھی اولاد کے حق میں درست احکامات پر عمل پیرا ہیں؟

‎ہمارے معاشرے میں چند فیصد ایسے بھی والدین پائے جاتے ہیں جو باقی کی بھاری اکثریت پر‎ بھاری پڑ جاتے ہیں اور سماجی ڈھانچے کی چُولیں ہلا دینے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں ۔ یہ اپنے فرائض کو کسی قرض کا درجہ دے کر پھر اولاد سے سود سمیت وصول کرتے ہیں ، اپنے احسانات جتا کر اپنی ہر جائز و ناجائز منوانے پر تُلے رہتے ہیں اور ماں تو سیدھے دودھ نہ بخشنے کی دھمکی دیتی ہے ۔ زیریں و نیم متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بسلسلہء روزگار پردیس میں مقیم محنت کشوں اور ہنرمندوں کی طرف دیکھیں ان کا کفیل یا آجر ان کا کیا استحصال کرے گا جتنا کہ سگے ماں باپ کرتے ہیں ۔ طرح طرح کے حیلوں ہتھکنڈوں سے انہیں سالانہ چھٹی پر گھر آنے سے روکتے ہیں ان کی تمام تنخواہ ہر ماہ باقاعدگی سے وصول کرنے کے باوجود نت نئی فرمائشوں اور مطالبات کا سلسلہ رکتا نہیں ۔ ان کی خون پسینے کی کمائی کو انتہائی بےدردی اور دریا دلی کے ساتھ خرچ کرتے ہیں پھر اوپر سے انہی پر شک کرتے ہیں اتنا ستاتے ہیں کہ بچہ خودکشی کرنے پر مجبور ہو جائے ۔ آٹھ آٹھ بچے پیدا کر کے پھر سب سے بڑے بیٹے کو ان کا باپ بنا دینے کی مثالیں بھی عام مل جائیں گی ۔ آدھا درجن جوان بھائیوں کے ہوتے ہوئے بھی کسی شخص کا قربانی کا بکرا بن جانا اور دیار غیر میں جان توڑ محنت کرتے ہوئے خود اپنی جان سے گزر جانا بھی ایسے ہی والدین کی مہربانی کا نتیجہ ہوتا ہے اور بیٹی کے جنم پر موت پڑ جانے والے سماج کی ساکھ پر ایک سوالیہ نشان ہے ۔

‎چاہے امریکہ ہو یا یورپ چاہے سعودیہ اور عرب امارات ، وہاں بسنے والے لوئر اور مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے %90 پردیسیوں کی ایک ہی کہانی ہے گھر بنانا نکمے بھائیوں کو پالنا پھر ان کی اور بہنوں کی شادیاں کرنا اور جب کسی طرح خود اپنی بھی شادی ہو ہی جائے تو بیوی کو اپنی زندگی ہی میں بیوہ کر دینا کئی کئی سال اسے اپنی شکل نہ دکھانا اور اسے اس کے ایک بنیادی حق سے محروم کر کے اپنے شادی شدہ بہن بھائیوں کی مالی کفالت بدستور جاری رکھنا ۔ ہر پردیسی جو تیس تیس سال بعد اپنے گھر والوں سے سنتا ہے کہ تم نے ہمارے لیے کیا ہی کیا ہے؟ تو یہ ایوارڈ بھی والدین ہی کی بدولت نصیب ہوتا ہے انہی کی سیان پتیوں اور حکمت عملیوں کا ثمر ہوتا ہے ورنہ بہن بھائیوں یا بیوی بچوں کی کیا مجال کہ ان کی عمر بھر کے کیے کرائے پر یوں پانی پھیر دیں ۔ کتنے ہی لوگ استطاعت رکھنے اور انتہائی ناخوشگوار ماحول کے باوجود محض والدین کی خوشنودی کی خاطر اپنے بیوی بچوں کو جوائنٹ کے جہنم میں جھونکے رکھتے ہیں چاہے دن رات جوتیوں میں دال بٹ رہی ہو ۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے کماؤ اور پورے گھرانے کی کفالت کرنے والے مرد اپنے والدین کی ضد کے آگے بےبس ہوتے ہیں کہ ہم بچوں کے بغیر نہیں رہ سکتے یا یہ کہ ہماری زندگی میں تم الگ ہونے کا سوچنا بھی نہیں کچھ نے صرف اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے سات سمندر پار اپنے بیٹوں کے گھر بسنے سے پہلے ہی اجاڑ دیئے ۔ بچپن سے لے کر جوانی تک بیٹے اور بیٹی کے درمیان تفریق رکھنے والے والدین بیٹے کے برسر روزگار ہوتے ہی اسے ہر قطار و شمار سے باہر نکال کر صرف بیٹی کے مفاد و مستقبل کی آبیاری میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔ اب بہنوں کے ٹھکانے لگنے تک کوئی نوجوان اپنی باری کے بارے میں سوچے بھی نہیں یہ کسی گناہ سے کم نہیں ۔

کتنے ہی بچوں نے اپنا رزلٹ خراب آنے پر اپنے سخت گیر جلاد صفت باپ کی دست برد سے محفوظ رہنے کے لیے خود کو موت کے حوالے کر دیا ۔کہیں ان کی مرضی کے خلاف اپنی مطلب براری کے لئے غلط جگہ پر زبردستی رشتہ طے کر دیا گیا ۔ اگر معاشرے میں ایک سے ایک نابکار و ناہنجار اولاد کی مثالیں موجود ہیں تو اسی طرح غیر ذمہ دار خود غرض نا اہل خوف خدا سے بےنیاز آخرت کی پوچھ پکڑ سے بے پروا اولاد کے درمیان عدل نہ قائم کرنے والے انہیں اپنی انا مفاداور غلط فیصلوں کی بھینٹ چڑھانے والے اور اپنی جنت کے نام پر اولاد کو بلیک میل کر کے ان کی زندگیوں کو جہنم بنا دینے والے والدین کو بھی تربیت درکار ہے ان کی اصلاح کون کرے گا؟ کب تک حقائق سے نظریں چرا کر ان پر پردہ ڈالا جاتا رہے گا؟ سب سے پہلے تو اس سوچ سے باہر آنے کی ضرورت ہے کہ ماں باپ کوئی فرشتے ہوتے ہیں ان سے کوئی غلطی ہو ہی نہیں سکتی اور ان کا ہر حکم بجا لانا فرض ہے خواہ وہ خدا رسول کے فرمان کے منافی ہو ۔ انہیں اُف بھی نہ کرنے کا یہ مطلب ہرگز بھی نہیں ہے کہ آپ اپنی جان پر کھیل جائیں یا اپنی منکوحہ کو برزخ کے حوالے کر دیں ۔ مگر لوگ ان کی ناراضگی اور بےرخی کے خوف سے اپنی دنیا و آخرت دونوں کو داؤ پر لگا دیتے ہیں اور آخر میں کہیں کے نہیں رہتے ۔



‏‎
 

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 226 Articles with 1694289 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.