کرناٹک میں پچھلے کچھ دنوں سے مختلف مقامات پر کالجوں میں
مسلم لڑکیوں کے برقعہ پہننے کی بات کو لیکر مخالفت چل رہی ہے اور کالج
انتظامیہ ہرگزبھی اس بات کی اجازت نہیں دے رہی ہے کہ مسلم لڑکیاں کالج میں
برقعہ پہن کر آئیں۔یہ بات سامنے آنے کے بعد جہاں کچھ تنظیمیں وادارے کالج
انتظامیہ کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے احتجاج پر اْتر آئے ہیں،وہیں کرناٹک
کے مسلم دانشوروں ،اہلِ خیر طبقہ،قانون دان،سیاستدانوں اور مذہبی حلقے میں
کسی بھی طرح کی جنبش دکھائی نہیں دے رہی ہے،مانوکہ سب پر سانپ سونگھ
گیاہے۔ہوناتو یہ چاہیے تھاکہ اس مدعے کو زوردار آواز کے ساتھ مخالفت کرتے
ہوئے حل کیاجاتااور مستقبل میں ایسے معاملات دوبارہ پیش نہ ہو،اس کیلئے
حکومتوں اور محکموں پر دباؤ بنایاجاتا،مگر اب تک کہ حالات دیکھیں تو ایسا
کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہاہے۔ہوسکتاہے کہ مسلمانوں کاضمیر مرگیاہے،یاپھر
وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ کچھ اسکول وکالج کا مدعہ ہے،بچوں کی بات
ہے،معاملات خود بخود سلجھ جائینگے،مگر ایسانہیں ہے۔معاملات سلجھنے کے بجائے
یہ الجھنے کی چنگاری ہے،جس طرح سے فرانس،جرمنی اور ہالینڈ میں برقعہ وحجاب
پر پابندی لگانے کیلئے اسی طرح کی شروعات ہوئی تھی،اب کرناٹک میں بھی
شروعات کی جارہی ہے۔کہنے کو تو کرناٹک کے مسلمان ہوشمند اور دانشوروں میں
شمارکئے جاتے ہیں،لیکن اس وقت انہیں کیاہواہے ،اس کا اندازہ نہیں
ہورہاہے؟۔ایک ایک انچ اپنی ذاتی زمین کیلئے ہائی کورٹ سے لیکر سپریم کورٹ
جانے کی بات کو لیکر اپنا حق سمجھنے والے مسلمان برقعے جیسے اسلامی حصے کو
نظراندازکئے جانے کی بات کو کیسے برداشت کررہے ہیں۔جن کالجوں میں برقعے یا
حجاب کولیکر اعتراض شروع ہواہے،اْنہیں کالجوں میں سے ایک کالج کے پرنسپال
نے اس بات کاحوالہ دیاہے کہ اسلام میں برقعہ پہننا فرض ہونے کے باوجود آپ
میں سے کئی مسلم عورتیں برقعہ نہیں پہنتی یا پردہ نہیں کرتی،کئی لکچررس
ٹیچرس بھی بغیر پردے کے ہی آتی ہیں تو آپ کیوں اتنی شدت سے حجاب اور برقعے
کو لیکر احتجاج کررہی ہیں،کیا اْن کیلئے اسلام الگ ہے اور آپ کیلئے اسلام
الگ ہے۔پرنسپال کی یہ دلیل اْن مسلمانوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو اسلامی
روایت،تہذیب اور قوانین کو ماڈرانیزیشن کے نام پرنظرانداز کرتے رہے ہیں۔آج
ایسے ہی مسلم مردو خواتین کی وجہ سے اسلام اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا
ایک طرح سے دشوار ہوتاجارہاہے۔اگر مسلم لڑکیاں حجاب و پردے کو اپنے اوپر
قرآن وحدیث کے مطابق لازم کرلیں تو یقیناً ایسے شرپسندوں کو مناسب جواب ملے
گا۔وہیں دوسری جانب مسلمانوں کی وہ نمائندہ تنظیمیں جو کرناٹک کے برقعے کے
معاملے پر چپ ہیں،انہیں چاہیے تھاکہ وہ اعلیٰ سطح پر اس مدعے کو اٹھاتے
یاپھر عدالتوں سے رجوع کرتے ہوئے مسلمانوں کے حقوق کیلئے درخواست
کرتے۔حالانکہ سکھوں میں بھی کئی سکھ پگڑی نہیں رکھتے،داڑھی نہیں رکھتے تو
کیا تمام سکھوں کو شیونگ کرنے اورپگڑی اتارنے کیلئے حکم جاری
کیاجارہاہے،نہیں نا،تو پھر کیوں مسلمان اس قدر دباؤ میں ہیں،کیوں اپنے حق
کو ماننے سے گریز کررہے ہیں؟۔بھلے آج یہ معاملہ کالجوں تک محدود ہے،مگر کل
اس کی آواز سڑکوں پر آئیگی اور پابندیاں سرِ عام ہونگی۔آپ کوجاننا چاہیے کہ
کسی بھی دوا کا تجربہ پہلے بند کمرے میں کیاجاتاہے،جب وہ تجربہ کامیاب
ہوتاہے تب اسے بازارمیں ہر عام وخاص پر آزمایاجاتاہے۔اسی طرح سے آج بندکمرے
میں برقعے کا تجربہ ان طالبات پر یہ آزمایا جارہا ہے، ممکن ہے کہ کل اسے
ملک کے ہرشہرمیں آمازیاجائیگا۔
|