ارشادِ ربانی ہے:’’اور وہ اللہ ہی ہے جس نے رات کو تمہارے
لیے لباس، اور نیند کو سکونِ موت، اور دن کو جی اٹھنے کا وقت بنایا‘‘۔ رات
کی نیند اگر چہ موت کے سکون کی مانند ہے تو صبح کا جاگنا گویا کشمکشِ زندگی
کی علامت بن جاتا ہے۔ اسی نیند سے بیدار ہوتے وقت یہ دعا پڑھنے کی تلقین کی
گئی ہے کہ: ’’ تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں، جس نے ہمیں موت کے بعد
زندگی بخشی اور اسی کی طرف اٹھ کر جانا ہے‘‘۔ اس دعا میں دنیا کی رعنائیوں
کے دوران آخرت کو یاد رکھنے کی تاکید بھی موجود ہے۔ قرآن حکیم کے اندر
قیامت کا منظر پیش کرنے کے بعد فرمایا :’’پس نہیں، میں قسم کھاتا ہوں پلٹنے
اور چھپ جانے والے تاروں کی اور رات کی جبکہ وہ رخصت ہوئی اور صبح کی جبکہ
اس نے سانس لیا یہ (قرآن)فی الواقع ایک بزرگ پیغام بر کا قول ہے‘‘۔ اس طرح
اگر کسی کی زندگی میں رب کائنات ایک نئے دن کی مہلت میں اضافہ فرما دے تو
اس کے لیے ہدایت یہ ہے کہ: "قائم رکھو نماز کو سورج ڈھلنے سے رات کے
اندھیرے تک اور قرآن پڑھنا فجر کا، بے شک قرآن پڑھنا فجر کا ہوتا ہے
روبرو۔"
معارف القرآن کے مطابق : " صبح کے وقت قرآن پڑھنے کو’’ مشھودا‘‘ کہا گیا
ہے۔ لفظ مشھودا شہادت سے نکلا ہے یعنی حاضر ہونا‘‘ ہے۔ اس طرح گویا دن کی
ابتداء رب کائنات کے سامنے حاضری سے ہوتی ہے اور احسان کی کیفیت کہ اللہ
تعالیٰ کو دیکھنا یا اللہ تعالیٰ کے ذریعہ دیکھے جانے کی حالت میں جانے کا
موقع ملتا ہے۔ صبح کی نماز کے بعد ایک نئے دن کی شروعات اوردن بھر کی
سرگرمیوں کے آغاز کا بابرکت وقت ہوتا ہے ۔ لہذا ایسے باسعادت اور متبرک
وقت قرآن پاک کی تلاوت زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔اس لیے نمازِ فجر کو قرآن
الفجر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اسرار تنزیل کی تفسیر یہ ہے کہ :’’عبادت سے قرب
الٰہی اور تائیدِ باری نصیب ہوتی ہے اور و ہی مصائب کا حل اور دشمنوں سے
حفاظت کا اعلیٰ ترین ذریعہ ہے لہذا قائم کیجئے صلوٰۃ کو دن ڈھلے سے رات کے
اندھیرے تک اور علی الصبح بھی عبادات اور نماز میں قرآن پڑھیں کیونکہ علی
الصبح قرآن کی تلاوت نماز میں روبرو ہونے کے برابر ہے۔ رات کے بعد پہلا
کام اللہ جل جلالہ کے حضور حضوری کا نصیب ہو جو آئندہ دن بھر اور دوسری
صبح تک برکات کا سبب بنتا ہے"۔
نماز ام العبادات المقربہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی عبادات
میں نماز افضل ترین ہے۔ اس آیت میں دلوک الشمس سے لے کر غسق اللیل کے
درمیان 4نمازیں ہیں جبکہ" قرآن الفجر "سے مراد صبح کی نماز ہے۔ اس طرح
پانچ نمازوں کے گلدستےمیں نمازِ فجر کونمایاں امتیاز حاصل ہوجاتا ہے۔ یہ
رزق میں اضافہ اور آسودگی کا وقت ہے۔ علیٰ الصبح عبادت میں خشوع ، خضوع ،
یکسوئی اوراطمینان کی بات ہی اور ہے لیکن بہت کم خوش بخت اس سے استفادہ
کرپاتے ہیں کیونکہ نماز ِفجر کا وقت عالمِ بیداری میں نہیں بلکہ حالت نوم
میں آتا ہے اور اس سے نکلنے کے لئے خصوصی اہتمام اور مشقت کرنی پڑتی ہے۔
اسی لیے مؤذن کو اعلان کرنا پڑتا ہے نماز نیند سے بہتر ہے لیکن بیشتر لوگ
نیند کو نماز پر ترجیح دیتے ہیں۔
نمازِ فجر کے اہتمام کا خاص طور پر اس لیےذکر کیا گیا ہے کیونکہ عام طور پر
یہ وقت زیادہ شاق، کٹھن اور ناگوارِ خاطر ہوتا ہے لیکن ان پاکیزہ نفوس کے
لیے نہیں جو نبی اکرم ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے نہ تو عشاء سے پہلے
سونے کو اور نہ اس کے بعد بات چیت کرنے کو پسندکرتے ہیں ۔ نماز فجر کی
سعادت حاصل کرنے کا یہ سہل ترین نسخہ ہےمگرفی زمانہ ملت کا مزاج اس کے
متضاد ہوگیا ہے یہی وجہ ہے کہ دوست و احباب کی محفل میں جو چہرے بعد عشاء
کھلے ہوئے نظر آتے ہیں وہ فجرکے وقت مرجھا ئے دکھائی دیتے ہیں ۔ اس کے
برعکس جو شب میں جلد مرجھا جاتے ہیں وہ صبح دم ترو تازہ ہوتے ہیں ۔ ان
لوگوں میں تہجد گزار خوش بخت بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس معاملے میں ہم جیسے
ہماشما کی کیا اوقات علامہ اقبال تو فرماتے ہیں ؎
عطّارؔ ہو، رومیؔ ہو، رازیؔ ہو، غزالیؔ ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحَرگاہی
|