ہر ماہ کی اپنی اپنی نسبتیں ہوتی ہیں۔اسی طرح جمادی
الثانی جسے ہم جمادی الاخر بھی کہتے ہیں اس ماہ کی بہت سی نسبتیں ہیں لیکن
اس ماہ کو سب سے زیادہ نسبت صدیقی حاصل ہوا کیوں کہ صدیق اکبر کا مقام بعد
از انبیاء بہت ہی اونچا اور نرالا ہے۔
ہم یار غار،یار مزار خلیفہ اول امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ
تعالٰی عنہ کو کیسے بھول سکتے ہیں۔وہ اسلام کے نکتہ نکتہ میں سمائے ہوئے
ہیں۔وہ اسلام کے ہر پہلو میں ہیں ،وہ مشعل راہ ہیں،وہ شمع ہدایت ہیں ،وہ
روش ستارے ہیں۔وہ صدیق اکبر ہیں،وہ مصطفی کے ہم سفر ہیں،وہ ثانی الیثنین
اذہما فی الغار کے ثانی ہیں،وہ ولسوف یرضی کی تفسیر ہیں،جن کی شان پانچ وقت
کے نمازوں میں انعمت علیہم ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق کو بھلانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جب کلمے کی بات آتی
ہے تو سوال آتا ہے پہلی بار کلمہ کس نے پڑھا تھا؟ جواب آیا صدیق نے۔ معراج
کا ذکر ہو سوال آتا ہے معراج کی گواہی کس نے دی؟ جواب آیا صدیق نے۔ اسلام
کی راہ میں مال خرچ کرنے کی باری آئے تو سوال ہوتا ہے سب سے زیادہ مال کس
نے دیا؟ جواب آیا صدیق نے۔ آذان کی بات آئے سب سے پہلے موذن حضرت بلال ہیں
بلال کو خرید کر کلامہ پڑھایا کس نے؟ جواب آیا صدیق نے۔ذکر ہجرت کا آئے تو
سوال آیا مصطفی کے ساتھ سفر نبھایا کس نے؟ جواب آیا صدیق نے۔ ذکر مسجد نبوی
کا آیا تو پوچھا کسی نے مسجد نبوی کی زمین خریدی کس نے؟ جواب آیا صدیق نے۔
حج کا ذکر آیا کسی نے پوچھا مصطفیﷺ نے سالار حج بنایا کسے؟جواب آیا صدیق
کو۔ مصطفی نے اپنے مصلے پر کھڑا فرمایا کسے؟ جواب آیا صدیق کو۔علی کی شادی
کا گواہ مصطفیﷺ نے بنایا کسے؟ جواب آیا صدیق کو۔ گنبذ خضراء کا ذکر آیا کسی
نے پوچھا گنبذ خضراء میں مصطفیٰ کے ساتھ کون ہیں؟ جواب آیا صدیق۔ کسی نے
پوچھا گنبذ خضرا کہاں ہے؟ جواب آیا صدیق کے بیٹی کے گھر میں۔
گنبذ خضرا جس کے بیٹی کا گھر ہو اور غار و مزار میں وہ مصطفیٰ کا ہم سفر ہو
ذرا تصور تو کیجیے کیسا مقام ہوگا ان کا۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا
مقام اور مرتبہ بہت ہی اعلیٰ ہے مگر اسے دیکھنے اور پہچاننے کے لیے اس دل
کی ضرورت ہے جو دل ادب سے روشن ہو،محبت سے روشن ہو۔جس دل میں عداوت ہو وہ
صدیق اکبر کے مقام کو دیکھنے سے غافل ہی رہے گا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے جب خلافت سنبھالا تو امت نازک
حالات سے گز رہی تھی،آپ نے امت کو تقسیم سے بچایا،عدل و انصاف کو قائم کیا۔
اللہ اور اس کے رسولﷺ کے سنت کو زندہ رکھا۔ مسلمہ کذاب سمیت کئی اندرونی
اور بیرونی منافقوں اور دین دشمنوں سے دین اسلام اور مصطفیﷺ کریم کی عزت و
عظمت کی خاطر جنگیں لڑیں۔
کسی کے نیک یا بد ہونے کے لیے اس کے ابتدا اور انتہا کو دیکھا جاتا ہے
امیرالمومنین کی ابتدا صدیق سے ہے اور انتہا صدیق اکبر پر۔حضرت ابوبکر صدیق
کتنے خوش نصیب ہیں جو ظاہری حیات میں بھی مصطفی کے ساتھ تھے اور باطنی حیات
میں بھی مصطفی کے ساتھ ہیں۔
ایک عام مسلمان سے خیانت منسوب کرنا کتنا ہی برا کام ہے اگر معاذ اللہ کوئی
مصطفی کریم کے پیارے ساتھیوں میں سے کسی سے خیانت اور بددیانتی منسوب کرے
تو وہ کتنا ہی بد نصیب ہوگا۔حضرت ابوبکر صدیق کی سادگی اور دیانتداری کو
سمجھنے کے لیے اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے ان کی زندگی کا مطالعہ
کرنا بےحد ضروری ہے تاریخ گواہ ہے جب حضرت ابوبکر صدیق اسلام قبول کر رہے
تھے ان کے پاس کپڑے کی چھے دکانیں تھیں اور وصال کے وقت ان کے پاس ایک دکان
تک باقی نہیں بچی تھی انہوں نے سارا مال و متاع اللہ کی خاطر مصطفی کریم
اور مسلمانوں پر خرچ کردیا تھا۔بس دلوں کو صاف کرنے کے لیے ان کی آخری وصیت
ہی کافی ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ مجھے پرانے کپڑوں کا کفن دینا نئے
کپڑوں کی زندہ مسلمانوں کو زیادہ ضرورت ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی میں عوام و خواص،حکمرانوں
اور عام شہریوں کے لیے بڑی پیاری نصیحتیں ہیں۔جنہیں اپنا کر ہم خود کو اور
اپنے معاشرے کو تبدیل کر سکتے ہیں۔
|