حقیقت کیا ھے اَفسانے ہیں کیا کیا !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ ص ، اٰیت 27 تا 33 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !
و
ماخلقنا
السمٰوٰت و
الارض وما
بینھما باطلا ذٰلک
ظن الذین کفروا فویل
للذین کفروامن النار 27 ام
نجعل الذین اٰمنواوعملواالصٰلحٰت
کالمفسدین فی الارض ام نجعل المتقین
کالفجار 28 کتٰب انزلنٰه الیک مبٰرک لیدبروااٰیٰتهٖ
ولیتذکر اولواالاباب 29 ووھبنالداؤد سلیمٰن نعم العبد
انه اواب 30 اذعرض علیه بالعشی الصٰفنٰت الجیاد 31 فقال
انی احببت حب الخیر عن ذکری ربی حتٰی توارت بالحجاب 32
ردوھاعلیّ فطفق مسحابالسوق والاعناق 33
اے ھمارے رسُول ! آپ ھماری کتاب کے عالِمِ کتاب ہیں اور جانتے ہیں کہ ھم نے زمین و آسمان اور اِن کے درمیان موجُود جہان کو بےمقصد پیدا نہیں کیا ھے بلکہ با مقصد پیدا کیا ھے لیکن جن لوگوں نے ھماری اِس کتاب کا انکار کیا ھے اُن لوگوں نے اِس جہان کے بارے میں یہی گمان کر رکھا ھے اور ھم بھی نے اُن کے جسموں اور اُن کی جانوں کو جلانے کا ایک سامان تیار کر رکھا ھے کیونکہ یہ تو ہرگز ہو نہیں سکتا کہ ھم اپنی زمین میں اَمن لانے اور بَد اَمنی پھیلانے والوں کو ایک برابر کردیں اور یہ بھی ہرگز نہیں ہو سکتا کہ ھم اپنی زمین کے باصلاحیت اور بے صلاحیت لوگوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کریں اِس لیۓ ھم نے آپ پر زمین کے مُثبت عقل والے انسانوں کے مُثبت عمل کو بڑھانے والی ایک علمی و عملی کتاب نازل کی ھے تاکہ اہلِ زمین ہمیشہ ہی اِس کتاب پر اپنے تدبر سے اپنی عقل و فکر کی تعمیر اور اِس کے اَحکام سے اپنے حُسنِ عمل کی تدبیر کرتے رہا کریں ، اِس سے قبل ھم نے اس کتاب کی اسی علم و عمل کی عقلی و عملی تعلیم دینے کے لیۓ داؤد کو سلیلمان جیسا وہ دانش مند بیٹا دیا تھا جو عھدِ داؤدی کے بعد بھی اپنے ہر عمل سے پہلے ھماری اِس کتاب کے اِنہی منقول اَحکام پر غور و فکر کیا کرتا تھا اور اُس مُفکر بالکتاب اور عامل علی الکتاب بیٹے کے باپ داؤد کے علمی ع عملی فیصلوں میں سے ایک علمی و عملی فیصلے کی مثال یہ ھے کہ ایک روز جب ایک ڈھلتی سہ پہر کے وقت اُس کے سامنے اُس کے معائنے کے لیۓ اُس کے سدھاۓ ہوۓ صبا رفتار گھوڑے لاۓ گۓ تو اُس نے یہ کہہ کر اُن کو چلانے کا حُکم دیا کہ میں اپنے رَب کی نعمتوں کو یاد رکھنے کے لیۓ اُس کے دیۓ ہوۓ اِس مال سے محبت کرتا ہوں اور جب اُس کے حُکم پر وہ گھوڑے اُس کے سامنے چلاۓ گۓ تو وہ چلتے چلتے شام کے ساۓ پھیلنے تک اُس کی نگاہوں سے اوجھل ہو گۓ یہاں تک کہ جب اُس کے حُکم پر وہ گھوڑے واپس لا کر دوبارہ اُس کے سامنے پیش کیۓ گۓ تو وہ بڑی دیر تک اُن کی رانوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیر کر اُن کو اپنی محبت و شفقت کا احساس دلاتا رہا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
مُحوّلہ بالا سات اٰیات میں آنے والی پہلی تین اٰیات سے پہلی دس اٰیات میں داؤد علیہ السلام کا ذکرِ نبوت و ذکرِکارِ نبوت ہوا تھا اور مُحوّلہ بالا سات اٰیات میں آنے والی دُوسری چار اٰیات کے بعد آنے والی گیارہ اٰیات میں بھی داؤد و سلیمان کا مُشرکہ ذکرِ نبوت و ذکرِ کار نبوت آرہا ھے اِس لیۓ توحید کے اِن دو عظیم نمائندوں کے ذکرِ نبوت کے درمیان مقصدِ نبوت و مقصدِ کارِ نبوت کے طور پر علمِ توحید و کتابِ توحید کا وہ بیان لایا گیا ھے جس میں یہ بتایا گیا ھے کہ جو انسان اللہ تعالٰی کی توحید اور اُس کی کتابِ توحید پر ایمان لاتا ھے اُس پر یہ اَمر واضح ہو جاتا ھے کہ اِس عالَم کا خالق اللہ تعالٰی ھے جس نے اِس بیکراں عالَم کو اُس مقصد کے لیۓ بنایا ھے جس مقصد کی نشان دہی زمین پر وقتا فوقتا آنے والے اللہ تعالٰی کے وہ اَنبیاء و رُسل کرتے رھے ہیں جن اَنبیاء و رُسل میں داؤد و سلیمان بھی شامل ہیں اور جو انسان اللہ تعالٰی کی توحید اور اُس کی کتابِ توحید پر ایمان لاتا ھے تو اُس پر یہ بات بھی واضح ہو جاتی ھے کہ اللہ تعالٰی کی اِس بیکراں سلطنت کے درمیان جتنی بھی دیدہ و نادیدہ اشیاء موجُود ہیں اُن سب چیزوں کا مالک بھی اللہ تعالٰی ھے اور جو انسان اللہ تعالٰی کی توحید اور اُس کی کتابِ توحید پر ایمان لاتا ھے وہ اِس کتاب کے علمِ کتاب سے یہ بات بھی جان جاتا ھے کہ اللہ تعالٰی کے اَنبیاء و رُسل جس توحید کی دعوت دیتے رھے ہیں اُس توحید کا پہلا اور آخری علمی مَخرج و مصدر اللہ تعالٰی کی یہی کتاب ھے جس کے کُچھ اجزاۓ علم حسبِ ضروت اللہ تعالٰی کے پہلے اَنبیاء و رُسل پر نازل ہوتے رھے ہیں اور اُس کتاب کے سارے اجزاۓ علم سیدنا محمد علیہ السلام پر نازل ہوۓ ہیں اور اِس مقصد کے لیۓ نازل ہوۓ ہیں کہ زمین پر جب بھی جو انسان آۓ وہ اللہ تعالٰی کی اِس کتاب پر ایمان لاۓ اور جب اِس دُنیا سے واپس جاۓ تو اس کتاب کے اسی ایمان کے ساتھ واپس جاۓ تاکہ وہ آنے والی زندگی میں اُن ساری مُشکلات سے مُکمل نجات پاجاۓ جو مُشکلات اُس کی اِس دُنیا کی اِس زندگی میں اُس کے ساتھ موجُود ہیں اور زمین کا جو انسان جس زمانے میں بھی توحید و کتابِ توحید کے اِس فرمان کو سنے اور سمجھے گا اور سننے سمجھنے کے بعد اِس پر ایمان نہیں لاۓ گا تو وہ آنے والی زندگی میں اللہ تعالٰی کی اُس سزا کا حق دار ہو جاۓ گا جس سزا کا اُس نے اِس کتاب میں77 بار ذکر کیا ھے ، قُرآنِ کریم نے جس طرح جابجا اپنے اِن اَحکام کی بجا آوری کے لیۓ اللہ تعالٰی کے مُتعدد انبیاۓ کرام کے اعمالِ نبوت کی مثالیں دی ہیں اسی طرح اٰیاتِ بالا میں اللہ تعالٰی کے ایک نبی داؤد علیہ السلام کی عملی زندگی سے اُن کے عمل کی یہ مثال دی ھے کہ وہ اللہ تعالٰی کے اَحکام کے اتنے اور ایسے پابند تھے کہ وہ انسان کی کتابی تعلیم کے درمیان ہی نہیں بلکہ اپنے گھوڑوں کی جسمانی تربیت کے دوران بھی اِس اَمر کا خیال رکھتے تھے کہ اُن کا ہر ایک عمل اللہ تعالٰی کے حُکم کے عین مطابق ہو اور اُن کا کوئی ایک عمل بھی اللہ تعالٰی کے کسی حُکم کے خلاف نہ ہو ، چنانچہ ایک بار جب اُن کے سدھاۓ ہوۓ گھوڑے معائنے کے لیۓ اُن کے سامنے لاۓ گۓ تو اُنہوں نے اُس وقت بھی یہ بتانا لازم جانا کہ میں اِن گھوڑوں کے ساتھ جو محبت کرتا ہوں وہ اللہ تعالٰی کی نعمتوں پر اظہارِ تشکر کے لیۓ کرتا ہوں کیونکہ یہ گھوڑے بھی اللہ تعالٰی کی اُن بے بہا نعمتوں میں سے ایک بے بہا نعمت ہیں جو نعمتیں اُس نے مُجھے عطا کی ہیں ، اٰیاتِ بالا کے مضمونِ بالا میں داؤد علیہ السلام کا اُن گھوڑوں کا بصری معائنہ کرنے ، اُن گھوڑوں کی برق رفتاری کا مظاہرہ دیکھنے اور اُن کی برق رفتاری دیکھنے کے بعد اُن کی رانوں اور گردنوں کو اپنے ہاتھوں سے سہلانے کا جو بیان ہوا ھے وہ اُن کے اسی عمل کو ظاہر کرنے کے لیۓ ہوا ھے کہ داؤد علیہ السلام سلطنت کے بڑے بڑے معاملات میں ہی اِس کتاب کے اَحکام کو پیشِ نظر نہیں رکھتے تھے بلکہ گھوڑوں کے معائنے کے درمیان ، گھوڑوں کے دوڑانے کے دوران اور دوڑ کے بعد اُن کے تھک کر آنے کے بعد بھی اُن کو محبت و شفقت کے ساتھ تھپک تھپک کر اللہ تعالٰی کے اَحکامِ رحم و کرم کا خیال رکھتے تھے ، قُرآنِ کریم نے داؤد علیہ السلام کے اِس حُسنِ عمل کے لیۓ { مسحا } کا جو لفظ استعمال کیا ھے وہ اتنا عام فہم اور سہل سا لفظ ھے کہ جس کو ہر وہ انسان سمجھ سکتا ھے جس نے کبھی خود مسح کا عمل کیا ہو یا کسی اور کو مسح کا عمل کرتے ہوۓ دیکھا ھے لیکن اہلِ روایت کے دیومالائی مزاج نے اِس سادہ سے واقعے کو بھی ایک دیو مالائی واقعہ بنانے کے لیۓ اِس کے ساتھ جو دیو مالائی واقعات وابستہ کیۓ ہیں اُن میں پہلا واقعہ جو بعض اہلِ روایت نے بیان کیا ھے وہ یہ ھے کہ اُس روز جب داؤد علیہ السلام اِن گھوڑوں کے معائنے اور اِن کی برق رفتاری کا یہ مظاہرہ دیکھنے میں مصروف تھے تو اُن کی نمازِ عصر قضا ہوگئی تھی جس کے بعد آپ نے اُن گھوڑوں کو واپس بلا کر تلوار سے اُن کی ٹانگیں اور گردنیں کاٹ دی تھیں ، اہلِ روایت کی ایک دُوسری جماعت نے یہ بیان کیا ھے کہ اُن کی نمازِ عصر تو شاید قضا نہیں ہوئی تھی لیکن وہ اپنا ایک خاص وظیفہ پڑھنا بُھول گۓ تھے جو ہر روز آپ عصر کے بعد پڑھتے تھے ، اسی طرح اہلِ روایت کی ایک جماعت نے یہ لکھا ھے کہ یہ ھزار گھوڑے جو اُس روز آپ نے اپنی تلورا سے کاٹ دیۓ تھے وہ اہلِ دمشق سے جہاد کر کے آپ نے حاصل کیۓ تھے اور اہلِ روایت کی ایک دُوسری جماعت یہ دُور کی کوڑی لائی ھے کہ یہ ایک ھزار دمشقی گھوڑے نہیں تھے بلکہ یہ وہ بیس ھزار پَردار گھوڑے تھے جو سمندر سے داؤد علیہ السلام کے لیۓ اُن کے جنات نے نکالے تھے لیکن قُرآنِ کریم میں نہ داؤد علیہ السلام کی کوئی نمازِ عصر قضا ہونے کا ذکر ھے ، نہ ہی اُن کے کسی داؤدی وظیفے کے چھوٹ جانے کی کوئ بات ھے اور نہ ہی قُرآن کریم میں اُن کے ایک ھزار دمشقی گھوڑوں یا بیس ھزار سمندری گھوڑوں کی قربانی کا کوئی ذکر ھے اور قُرآنِ کریم اِس بات سے بھی بالکُل خالی ھے کہ داؤد علیہ السلام نے ایک ساعت کے دوران ایک ھزار یا بیس ھزار گھوڑے کاٹ پیٹ کر اُن کا گوشت اہلِ ریاست کے اہلِ حاجت کے درمیان تقسیم کیا تھا جیسا کہ اہلِ روایت نے گھوڑوں کی قربانی اور اُن کے گوشت کی تقسیم کے بارے میں اپنے اِن افسانوں میں حدیث شریف کے حوالوں کے ساتھ بیان کیا ھے اور اہلِ روایت نے ایک دُوسری یہ دیو مالائی کہانی بھی سنائی ھے کہ اللہ تعالٰی نے داؤد علیہ السلام کے اُس جلال کو اعتدال میں لانے کے لیۓ اُس روز سُورج کو بھی ایک گھنٹہ پیچھے کر دیا تھا تاکہ وہ نماز عصر ادا کر لیں یا اپنا چھوٹا ہوا وظیفہ پڑھ لیں ، ھم نے اِن روایتی افسانوں کا اِس لیۓ ذکر کیا ھے تاکہ اہلِ ایمان جان لیں کہ جب کوئی انسان قُرآن کو چھوڑ کر روایات کے پیچھے پڑ جاتا ھے تو وہ روایات اُس انسان کو اپنے آگے لگا کر کہاں سے کہاں پُہنچا دیتی ہیں !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 459259 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More