|
|
| |
| عام طور پر ہر ایسا گھر جس کے افراد کی تعداد پانچ سے چھ
ہو ان کے لیے دس کلو آٹا دس دن کے کافی ہوتا ہے اور ان افراد کی گزر بسر کے
اخراجات اس مہنگائی کے دور میں اتنے ہوتے ہیں کہ جس کے لیے گھر کے افراد کا
کوئی نہ کوئی مستقل روزگار ہونا ضروری ہوتا ہے- |
| |
| مگر دنیا کے ایک حصے میں مریم بناتانزی نامی ایک عورت
ایسی بھی ہے جس کی عمر صرف 39 سال ہے اور اس عمر میں اس نے 44 بچے پیدا کیے
ہیں جس میں سے 38 بچے حیات ہیں اور مکمل صحت مند ہیں- |
| |
| اس عورت کا تعلق افریقہ کے ملک یوگنڈا سے ہے جہاں پر صرف
تیرہ سال کی عمر میں اس کے والدین نے غربت کے ہاتھوں تنگ آکر پیسے لے کر اس
کی شادی ایک 27 سال کے مرد سے کر دی- شادی کے ایک سال بعد ہی اس کے گھر
پہلے جڑواں بچوں کی پیدائش ہوئی یعنی چودہ سال کی عمر میں وہ دو بچوں کی
ماں بھی بن گئی- |
| |
| اس سے اگلے سال ان کے گھر تین جڑواں بچوں کی پیدائش ہوئی
اور اس سے اگلے سال انہوں نے چار بچوں کو ایک ساتھ جنم دیا- اس طرح تین
سالوں میں اس کم عمری میں وہ نو بچوں کی ماں بن گئیں- مگر اس معاملے کا
بدترین پہلو یہ ہوا کہ ان کے شوہر اس سے پہلے بھی شادی شدہ تھے اور مریم کو
اپنے نو بچوں کے ساتھ اپنے شوہر کے پہلے والے بچوں کی دیکھ بھال بھی کرنی
پڑتی تھی- |
|
|
|
|
| |
| کیوں کہ ان کے شوہر کی بدمزاجی اور غصے کے سبب ان کی
مائیں ان بچوں کو چھوڑ کر جا چکی تھیں۔ مریم کے ساتھ بھی ان کے شوہر کا
رویہ کچھ اچھا نہ تھا اور روز کی مار پیٹ کرنا اس کی عادت تھی اس دوران
مریم کے بچوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا تھا- |
| |
| یہاں تک کہ 6 جڑواں بچے، چار بار تین جڑواں اور تین بار
چار جڑواں بچے پیدا ہوئے اس کے علاوہ دو بچے اور بھی ہوئے ۔ تئيسویں بچے کی
پیدائش کے بعد مریم نے فیصلہ کیا کہ وہ بچوں کی پیدائش کا سلسلہ ہی بند
کروا دیتی ہیں- |
| |
| لیکن ان کے معائنے کے بعد ان کے ڈاکٹر نے ان کو بتایا کہ
وہ ایک ایسی نایاب بیماری میں مبتلا ہیں جس میں ان کی اووری معمول سے زيادہ
انڈے پیدا کرتی ہے اور اگر انہوں نے بچے پیدا کرنے کا سلسلہ رکوانے کی کوشش
کی تو یہ ان کے لیے جان لیوا بھی ہو سکتا ہے- |
| |
| اس وجہ سے مریم کو ہر سال بچے پیدا کرنے پڑے ان
کے 44 بچوں میں سے 38 بچے زندہ ہیں جن کے اخراجات اور کھانے پینے کی
ضروریات کی تکمیل کے لیے مریم کو ہر روز دس کلو آٹا ، سات کلو دال اور چار
کلو چینی کی ضرورت ہوتی ہے- |
| |
|
|
| |
| اس معاملے کا بد ترین پہلو یہ ہے کہ مریم کے
شوہر نے ان بچوں کی پرورش میں اپنی کسی بھی ذمہ داری کو ادا کرنے میں ناکام
رہے اور اکثر اوقات مہینوں اور بعض اوقات سالوں تک گھر سے غائب رہتے تھے جس
کی وجہ سے بچوں کے اخراجات کی کلی ذمہ داری مریم کے اوپر آجاتی تھی- |
| |
| مریم بچوں کے اخراجات کی تکمیل کے لیے ہر طرح
کی محنت اور مشقت کرنے کے لیے دن رات کام کرتی ہیں- بچوں کے کھانے پینے اور
تعلیم کے اخراجات مریم محنت کر کے ادا کرتی ہیں یہاں تک کہ ان کی ایک بیٹی
اب نرس بن چکی ہیں جب کہ ایک بیٹا ماہر تعمیرات بن گیا ہے- |
| |
| مریم اپنے بچوں کے اخراجات پورے کرنے کے لیے
جڑی بوٹیاں فروخت کرتی ہیں کیک بناتی ہیں، مختلف تقریبات کے انتظامات کرتی
ہیں اور بعض اوقات دلہن کا میک اپ وغیرہ بھی کر دیتی ہیں- |
| |
| اس حوالے سے مریم کا یہ بھی کہنا ہے کہ شادی
میاں بیوی کی اجتماعی ذمہ داری ہے دونوں کو مل کر ادا کرنا چاہیے لیکن اگر
کوئی ایک بھی اپنی ذمہ داری ادا نہ کرے تو اس کا وبال دوسرے کو بھگتنا پڑے
گا یہی وجہ ہے کہ مریم ایک مشکل ترین زندگی کا سامنا کر رہی ہیں- |
| |