جنت و جہنم اور جنگِ آدم ابلیس !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ ص ، اٰیت 71 تا 88 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
اذ
قال ربک
للملٰئکة انی خالق
بشر من طین 71 فاذا
سویته ونفخت فیهٖ من روحی
فقعوالهٗ سٰجدین 72 فسجد الملٰئکة
کلھم اجمعون 73 الّاابلیس استکبر وکان
من الکٰفرین 74 قال یٰابلیس مامنعک ان تسجد
لماخلقت بیدیّ استکبرت ام کنت من العالین 75 قال
ان خیر منه خلقتنی من نار وخلقته من طین 76 قال فاخرج
منھا فانک رجیم 77 وان علیک العنتی الٰی یوم الدین 78 قال رب
فانظرنی الٰی یوم یبعثون 79 قال فانک من المنظرین 80 الٰی یوم الوقت
المعلوم 81 قال فبعزتک لاغوینھم اجمعین 82 الّاعبادک منھم المخلصین 83
قال فالحق والحق اقول 84 لاملئن جھنم منک وممن تبعک منھم اجمعین 85 قال
مااسئلکم علیه من اجر وماانا من المتکلفین 86 ان ھو الّا ذکر للعٰلمین 87 ولتعلمن نباہٗ
بعد حین 88
اے ہمارے رسُول ! آپ یہ بات بھی اہلِ گوش کے گوش گزار کردیں کہ میں نے جس جنت و جہنم کا ذکر کیا ہے اُس جنت و جہنم کا آغاز اُس وقت ہوا تھا جب آپ کے رَب نے اپنے ملائک سے کہا تھا کہ میں زمین پر زمین کی مٹی سے اپنا ایک بشر بنا کر اُس کو زمین میں مامور کرنے والا ہوں ، سو جب میں اُس بشر کو مُکمل توازن و تناسب کا حامل بنا کر اُس میں اپنا حُکمِ حاکمیت ڈال دوں تو تُم نے اُسی لَمحے سے اُس کی حاکمیت کے سامنے سرنگوں ہو جانا ہے اور پھر جب آدم کے اقتدار کا وہ مقررہ وقت آگیا تو اللہ کے حُکم کے مطابق اُس کے تمام ملائک نے اُس کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیا لیکن ابلیس نے اپنی بڑائی کے زعم میں آدم کے اقتدار کا انکار کیا اور حق کا وہ مُنکر اقتدارِ آدم کے مُنکروں میں شامل ہو گیا ، اللہ نے اُس سے پُوچھا کہ کیا جس بشر کو میں نے اپنے دستِ ذات کی قُوتِ ذات سے اپنی علمی قُوتوں کے اظہار کے لیۓ پیدا کیا ہے تُم نے اُسی بشر کی علمی برتری سے انکار کیا ہے حالانکہ میں نے تُجھے اتنا بڑا نہیں بنایا ہے کہ تُم اِس پر تکبر کرو اور میں نے تمہیں اپنی اُس برگزیدہ جماعت میں بھی شامل نہیں کیا ہے کہ تُم خود کو دُوسروں سے برتر سمجھو ، ابلیس نے کہا کہ میں اِس سے بہتر ہوں اور اِس لیۓ بہتر ہوں کہ آپ نے مُجھے پستی سے بلندی کی طرف اُٹھنے والے آگ کے شُعلے سے پیدا کیا ہے اور اِس کو بلندی سے پستی کی طرف گرنے والی ایک مُشتِ خاک سے پیدا کیا ہے ، اللہ نے فرمایا کہ تُونے میرے حُکم سے سرتابی کی ہے اِس لیۓ تُو فورا ہی اِس تقریبِ تکریم سے باہر نکل جا اور یاد رکھ کہ تیری یہ کوئی وقتی سزا نہیں ہے بلکہ ایک ہمہ وقتی سزا ہے لہٰذا میں نے تُجھ کو یومِ قیامت تک دُھتکار پِھٹکار دیا ہے ، ابلیس نے کہا کہ اگر یہ بات ہے تو پھر مُجھے بھی یومِ قیامت تک اپنی بلندی اور آدم کی پستی کو ثابت کرنے کا موقع دیا جاۓ ، اللہ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے تُجھے اُس یومِ قیامت کے برپا ہونے تک موقع دیا جاتا ہے جس یومِ قیامت کا صرف مُجھے ہی علم ہے ، ابلیس کو جب یہ خود چاہی مُہلت مل گئی تو اُس نے کہا مُجھے تیری عزت و عظمت کی قسم ہے کہ میں تیرے چند مُخلص بندوں کے سوا تیرے سارے بندوں کو حق گریز بنا کر ہی دَم لوں گا ، اللہ نے فرمایا کہ جس طرح میری ہر ایک بات ہمیشہ ہی حق ہوتی ہے اسی طرح میری یہ بات بھی ہمیشہ کی طرح حق ہے کہ میرے جو بندے تیرے بہکاوے میں آئیں گے میں اُن سب بندوں کو تیرے ساتھ ہی اپنی جہنم میں ڈال کر اپنی جہنم کو بھر دوں گا اور اے ہمارے رسُول ! آپ اِن لوگوں کو یہ بات بھی ذہن نشین کرا دیں کہ میں تُم کو اللہ کی جو وحی سناتا ہوں وہ اللہ کے حُکم سے سناتا ہوں اور وہ وحی کسی ذاتی غرض و معاوضے کے بغیر سناتا ہوں کہ یہ محض کہنے کی بات نہیں ہے بلکہ وہ عملی حقیقت ہے جس کو تُم سب دیکھتے آۓ ہو کیونکہ یہ اللہ کی یہ وحی اُس آنے والے وقت کی ایک یاد دھانی ہے جو سارے جہانوں کے سارے انسانوں کے پالنہار کی طرف سے مُجھے سونپی گئ ہے اور وہ دن ضرور باالضرور آۓ گا کہ جب تُمہارے جُملہ اعمالِ خیر و شر کے جُملہ مُثبت و منفی نتائج تُمارے سامنے آجائیں گے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
آدم کی اطاعت اور ابلیس کی بغاوت کا یہ واقعہ انسانی تاریخ کا وہ اَوّلین اور قدیم ترین واقعہ ہے جو اِس سے قبل سُورَةُالبقرة کی اٰیت 30 تا 39 ، سُورَة الاَعراف کی 11 تا 25 ، سُورَةُالحجر کی اٰیت 28 تا 44 ، سُورَةُالاَسراء کی اٰیت 61 تا 65 ، سُورَةُالکہف کی اٰیت 50 اور سُورَہِ طٰہٰ کی اٰیت 116 تا 124 میں بھی آچکا ہے ، اِن سات واقعات میں سے پہلے واقعے کے اختتامِ کلام پر اہلِ زمین کو اللہ تعالٰی کی طرف سے یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ زمین پر جب جب بھی اللہ تعالٰی کی طرف سے جو جو ھدایت آۓ گی اور جو انسان بھی اُس ھدایت کو قبول کرے گا تو اُس انسان کو زمینی و آسمانی آفات و بلّیات سے بچا کر رَنج و خوف سے آزاد کر دیا جاۓ گا اور جو انسان اِن ھدایت کو رَد کرے گا تو اُس انسان کو واصلِ جہنم کر دیا جاۓ گا ، پہلے واقعے کے پہلے مقام کے بعد دُوسرے واقعے کے اختتامِ کلام پر اہلِ زمین کو یہ خبر دی گئی ہے کہ جنت سے زمین پر اُترنے کے بعد تُم سب نے اُسی زمین میں جینا اور اُسی زمین میں مرنا ہے اور اسی زمین سے زندہ ہو کر اپنے اپنے عملِ خیر و شر کے مطابق اپنی اپنی جنت یا جہنم میں جانا ہے ، تیسرے واقعے کے اختتامِ کلام پر شیطان سے کہا گیا ہے کہ میرے بندوں کے دل میں ایک وقتی و لَمحاتی وسوسہ ڈالنے کے سوا تیرے پاس ایسی کوئی بھی عملی طاقت نہیں ہو گی کہ جس طاقت کو تُم اپنے استعمال میں لاکر میرے بندوں پر کوئی عملی برتری حاصل کر سکو گے لیکن اِس کے با وجُود بھی جو لوگ تُیرے اِس کم زور لَمحے کے ایک کم زور لمحاتی وسوسے کا شکار ہو کر تیرے ساتھی بنیں گے تو اُن سب کو بھی تیرے ساتھ ہی واصلِ جہنم کر دیا جاۓ گا جب کہ چوتھے واقعے کے اختتامِ کلام پر بھی شیطان کو دوبارہ یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ میرے بندوں پر تیرے پاس کوئی ایسا عملی اختیار نہیں ہے کہ تُو اُن کو زور زبردستی کے ساتھ حق کی راہ سے ہٹا کر اپنی باطل راہ پر لگا سکے لیکن اِس کے برعکس تیرے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی بذاتِ خود اپنے بندوں کا وہ مُختارِ کار ہے جس کے سامنے تیری یا کسی اور کی کوئی زور زبردستی چل ہی نہیں سکتی ، پانچویں واقعے کا افتتاحِ کلام و اختتامِ کلام یَکساں ہے اور اِس یَکساں مقام پر صرف نفسِ واقعہ کا ذکر ہی کیا گیا ہے لیکن اِس کی تفصیلات بیان نہیں کی گئیں ، چَھٹے مقام پر بیان کیۓ گۓ چَھٹے واقعے کے اختتامِ کلام پر انسان کو اِس اَمر سے آگاہ کیا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالٰی کی ھدایاتِ وحی سے اپنی عادتِ مُستمرہ کے طور پراعراض کرتے رہیں گے تو اُن کی دُنیا بھی اُن کے لیۓ ایک درد بھری جہنم بنا دی جاۓ گی اور اُن کی دُنیا کے جہنم بننے کی محسوس علامت یہ ہوگی کہ اُن کی حیاتِ موجُود سے اُن کی سہولیاتِ حیات ختم کرکے اُن کو مُفلس بنادیا جاۓ گا اور وہ جب تک بھی زمین پر زندہ رہیں گے سسک سسکر ہی زندہ رہیں گے اور اَب اِس سُورت میں آنے والے اِس ساتویں مضمون کے افتتاحِ کلام میں جنت و دوزخ کا ذکر کرنے کے بعد اِس کے اختتامِ کلام پر جو واقعہ بیان کیا گیا ہے اِس واقعے کے ذریعے زمین کے تمام مُنکرینِ حاضر و غائب کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اگر تُم اللہ تعالٰی کی ھدایات کے سامنے نہیں جھکو گے تو تُمہارا اَنجام بھی ابلیس کے اَنجام کی طرح ہو گا اور جس طرح ابلیس راندہ در گاہِ باری ہو کر جہنم میں جاۓ گا اسی طرح تُم بھی راندہ درگاہِ باری ہو کر اُسی جہنم میں جاؤ گے جس جہنم میں وہ ابلیسِ اَوّل جاۓ گا ، جہا تک جنگِ آدم و ابلیس کے نفسِ واقعہ کا تعلق ہے تو یہ واقعہ اتنا ہی ہے جتنا قُرآنِ کریم کے اِن سات واقعات میں بیان ہوا ہے لیکن اگر اِس واقعے کے نتائجِ کا مَنطق و فلسفے کی رُوسے جائزہ لیا جاۓ تو گزشتہ اٰیات میں جہنم کے ضمن میں آنے والے مضمون میں ہم نے عرض کیا تھا کہ قُرآنِ کریم کے مُتعدد غیر مُبہم بیانات کے مطابق انسان کی جزا و سزا کا ایک مقام جنت اور ایک مقام صرف جہنم ہے لیکن ماضی میں انسان کو جب کسی مُثبت عمل کی بدولت جنت میں ڈالنے کے بعد کسی مَنفی عمل کے نتیجے میں جب اُس جنت سے نکالا گیا تھا تو اُس وقت اِس کا فطری مقام صرف جہنم تھا لیکن اُس وقت انسان کو اُس جہنم میں نہ ڈالنے کا یہ سبب بھی قُرآنِ کریم نے خود ہی بیان کر دیا ہے کہ انسان نے چونکہ شیطان کے بہکاوے میں آکر وہ غلطی کی تھی جس کی بنا پر وہ جنت بدر ہوا تھا اِس لیۓ اللہ تعالٰی نے انسان کو جہنم میں بھیجنے کے بجاۓ اِس دُنیا میں بھیج دیا ہے اور اِس دُنیا میں آنے کے بعد انسان کو گُم راہ کرنے کی شیطان کو جو قلیل طاقت اور طویل مُدت دی گئی ہے عجب نہیں ہے کہ وہ مُہلت و مُدت بھی اللہ تعالٰی نے انسان کو فائدہ دینے کے لیۓ ہی اُس کو دے دی ہو تاکہ جس طرح اور جس شک کا پہلی بار فائدہ دے کر انسان کو جہنم میں جانے سے بچایا گیا تھا اُسی طرح دُوسری بار بھی انسان کو اُسی طرح کے شک کا فائدہ دے کر جہنم میں جانے سے بچا لیا جاۓ تاہم اگر یہ خوش فہمی درست بھی ہو تو انسان کو معصیت میں جری ہونے کی سند نہیں ہے لیکن انسان کو اللہ تعالٰی کی رحمت سے مایُوس ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558413 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More