انسانیت اور مذہب

سب سے پہلا مذہب انسانیت ہے جو ایک انسان کو دوسرے انسان سے جوڑتا ہے جس کی وجہ سے ہم سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں آہیے اس مذہب پر ایک بار نظر ثانی کریں کیا ہم اس پر عمل پیرا ہیں

انسانیت کیا ہے ؟( انسانیت سے جُرے ہوئے لوگوں کے اپنے اپنے مذاہب ہیں لیکن ہر انسان کا پہلا مذہب انسانیت ہے) اور انسانیت کا سب سے پہلا اور بنیادی اصول یہ ہے کے جس نے آپ کو پیدا کیا اس کی عبادت کی جائے اس کی اطاعت کی جائے اور اس بات کو تسلیم کیا جائے کہ خالق کائنات نے سب انسانوں کو یکساں بنایا ہے کوئی کمتر و برتر نہیں سب میں خالق کائنات کی کوئی نہ کوئی صفت موجود ہے
انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اس وقت وہ صرف ایک انسان ہوتا ہے دنیا میں آنے کے بعد اسے اپنے ارد گرد کے ماحول اپنے رشتے داروں عزیز و اقارب اور ماں باپ سے جو علم ملتا ہے اسی کو اپنا مذہب سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہو جاتا ہے اور یعی حقیقت بھی ہے ۔

لیکن مذہب کی حقیقت کیا ہے دراصل مذہب سیکھاتا کیا ہے مذہب کے لغوی معنی کیا ہیں، میرے نزدیک مذہب ایک راہ ہے ایک راستہ ہے وہ راستہ جس پر چلا جائے یہ عربی لفظ “ذ-ھ-ب” سے مشتق ہے، جس کی معنی جانا (چلنا) یا گزرنا ہے۔دنیا میں مختلف مذاہب کے لوگ اپنے اپنے مذہب کے تحت زندگی گزار رہے ہیں ہر مذہب اپنا فقہی مسئلہ بتاتے وقت یہی کہتا ہے کہ ہمارے مذہب میں ایسے ہے اور فلاں مذہب میں یہ ہے۔اللہ تعالٰی نے جانوروں میں صرف خواہش کو رکھا فرشتوں میں صرف عقل اور انسانوں میں عقل اور خواہش دونوں کو رکھا اگر انسان اپنی عقل پر عبور حاصل کر لے تو فرشتہ اور اگر خواہشات کا شکار ہو جائے تو جانور بن جاتا ہے اس کی سوچ و فکر میں مکمل طور پر تبدیلی آ جاتی ہے جو اُسے باقی انسانوں کی سوچ سے اور بعض دفعہ اس راستے سے جس پر وہ لوگ عمل پیرا ہوتے ہیں اس سے دور لے جاتی ہے سوچ و فکر میں تبدیلی تو دانشوروں کے بھی ہو سکتی ہے مگر وہ تبدیلی ہمیشہ باقی لوگوں کی بھلائی اور اچھائی کے لیے ہوتی ہے جب کے خواہشات کا شکار انسان خود اپنا بھلا نہیں کر سکتا وہ دوسروں کی بھلائی کے بارے میں کیا سوچے گا۔

اس طرح اس سوچ و فکر نے اور نفسانی خواہشات نے اس دنیا کے اندر ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کو دو الگ الگ راستوں پر لا کر کھڑا کر دیا ایک وہ جو اچھائی کی طرف جاتا ہے جو بے شک دانشوروں کی راہ ہے اور دوسرا وہ جو گمراہی کی طرف جاتا ہے جو بے شک عبرت کا نشاں بننے والوں کی راہ ہے یہ دونوں راستے ایک تیسرے راستے سے ہو کر گزرتے ہیں جسے انسانیت کہتے ہیں میرے نزدیک انسانیت دنیا کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا مذہب ہے جو ایک انسان کو دوسرے انسان سے جوڑتا ہے۔

اللہ تعالٰی نے سب انسانوں کو ایک جیسا بنایا ہے سب انسانوں کی ضرورتیں اور اوصاف بھی ایک جیسے ہیں انسان دنیا میں جو کردار بھی ادا کرتا ہے وہ اسے دوسرے انسان سے الگ کر دیتا ہے انسان سب یکساں ہیں لیکن خالق کائنات نے آزمائیش کے لیے کچھ لوگوں کو طاقتور بنایا تو کچھ کو کمزور کچھ کو صحت مند تو کچھ کو بیمار کچھ کو امیر تو کچھ کو غریب کسی کو عالم بنایا تو کسی کو جاہل تاکہ وہ جان سکے کہ ان میں سے صبر شکر اور اس کی اطاعت کرنے والے کون ہیں انسانیت سے جڑے یہ لوگ اس آزمائیش کو کردار کے کس سانچے میں ڈالتے ہیں اچھا کردار جو اہل علم اور دانشوروں کی راہ ہے یا پھر بُرا کردار جو عبرت کا نشاں بننے والوں کی راہ ہے۔ درحقیقت انسانیت ہر زندہ انسان میں نہیں ہوتی کچھ لوگ انسان تو ہوتے ہیں مگر ان کا کردار جانوروں سے بھی بدتر ہوتا ہے لفظ انسانیت کا مطلب ہے دوسرے انسانوں کی مدد کرنا ایک دوسرے کی ضروریات کا خیال رکھنا ایسا کوئی راستہ اختیار نہ کرنا جو کسی دوسرے انسان کی تکلیف کا باعث بنے امیر ہو کر غریبوں کی مدد کرنا طاقتور ہو کر کمزوروں کا ساتھ دینا صحت مند ہو کر بیمار کی خدمت کرنا عالم ہو کر جاہل کی اصلاح کرنا اور ہر حال میں اپنے خالق کا شکر ادا کرنا اس کی عبادت کرنا یعی وہ راستہ ہے جس پر عمل کرنے کے بعد ایک اچھا انسان وجود میں آتا ہے اور یعی راستہ آخرت میں انسان کہ لیے مغفرت کا باعث بنے گا۔

کیونکہ تاریخ گواہ ہے کوئی بھی انسان اپنے اعمال کے سوا اس دنیا سے کچھ نہیں لے کر گیا سکندر اعظم جس نے ساری دنیا پر حکومت کی اس نے وصیت کی کے مرنے کے بعد میرے دونوں ہاتھ کفن سے باہر رکھے جاہیں تاکہ دنیا والوں کو یہ سبق مل سکے کہ ساری دنیا پر حکومت کرنے کے بعد بھی میں دنیا سے خالی ہاتھ جا رہا ہوں اس سے بڑی تاریخی مثال کوئی نہیں ملتی لیکن دورِ حاضر کے انسان ان سب باتوں سے میلوں دور ہیں جو کے انسانیت سے تعلق رکھنے والے انسانوں کے لیے ایک بڑا سوالیہ نشان ہے ؟

کیا آج کے دور میں ہم انسان ہیں کیا ہم انسانیت کا فرض نبھا رہے ہیں زرا ایک نظر اپنی طرف دیکھیے اور پھر فیصلہ کیجیے

ہمارے اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ایک کتاب انسانیت کی بھی پڑھائی جانی چاہیئے انسان کیا ہے انسان کا بنیادی کردار کیا ہے انسانیت کسے کہتے ہیں یہ سب بھی پڑھایا جانا چاہیے درسِ انسانیت کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کا احساس کرنے اور اچھا انسان بننے پر بھی زور دینا چاہیے ایک ماں کو اپنی پرورش کے وقت ایک استاد کو اپنی پڑھائی کے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کیونکہ ایک ماں کی پرورش اور ایک استاد کی تربیت کے بعد ہی ایک کردار ابھر کر سامنے آتاہے جیسی تربیت اور پرورش ہو گی انسان ویسے ہی کردار کا مالک بنے گا اور دوسرے انسانوں سے اس کردار کے مطابق پیش آئے گا۔
کچھ ذمے داریاں ہمیں اور آپ کو بھی مل کر ادا کرنا ہوں گی انسانیت کا فرض نبھا کر حسد بغض نفرت اور لالچ کو مٹا کر تکلیف میں مبتلا دوسرے انسانوں کا ساتھ دے کر محنت اور ایمانداری کی زندگی گزار کر ضرورت سے زیادہ ہو تو دوسروں کی مدد کیجیئے ہو سکتا ہے جو آپ کے پاس آپ کی ضرورت سے زیادہ ہو وہ ربِ کائنات کی طرف سے آپ کے پاس کسی کی امانت ہو ہمیں مل کر انسانیت کے اس مذہب کو زندہ رکھنا ہو گا ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہوگا امیری غریبی کا فرق ختم کرنا ہو گا کم علم والوں کی اصلاح کرنا ہو گی غربت کے خاتمے کے لیے آگے بڑھنا ہو گا میرے لیے لکھنا آسان ہے آپ کے لیے پڑھنا آسان ہے لکنھے کے لیے میں انسانیت پر بہت بڑا کالم لکھ سکتا تھا لیکن لکنھے اور پڑھنے والے میں یہ فرق صرف احساسِ ذمےداری ہی پیدا کرے گی کون صحیح ہے اور کون غلط جتنی ہو سکے دوسروں کی مدد کیجیے لوگوں کی خدمت کیجیے یہ سوچ کر آپ اپنی ذمے داری پوری کیجیے میں اپنی ذمے داری پوری کرتا ہوں بے شک ہم اپنے اپنے اعمال کے جوابدہ ہیں

اللہ ہمیں نیک انسان بننے اور دوسروں کی راحت کا باعث بننے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین۔
 

sagar haider abbasi
About the Author: sagar haider abbasi Read More Articles by sagar haider abbasi: 7 Articles with 11817 views Sagar haider Abbasi
From Karachi Pakistan
.. View More