#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ ص ، اٰیت 55 تا 70
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ھٰذا
وان للطٰغین
لشرماٰب 55 جھنم
یصلونھا فبئس المھاد 56
ھٰذافلیذوقوه حمیم و غساق 57
واٰخر من شکلهٖ ازواج 58 ھٰذافوج مقتحم
معکم لامرحبا بھم انھم صالواالنار 59 قالوابل انتم
لامرحبابکم انتم قدمتموه لنا فبئس القرار 60 قالواربنا من
قدم لناھٰذافزده عذابا ضعفا فی النار 61 وقالوامالنا لانرٰی رجالا کنا
نعدھم من الاشرار 62 اتخذنٰھم سخریا ام زاغت عنھم الابصار 63 ان ذٰلک
لحق تخاصم اھل النار 64 قل انما انامنذر ومامن الٰه الّااللہ الواحدالقھار
65 رب
السمٰوٰت والارض وما بینھما العزیز الغفار 66 قل ھو نبؤ عظیم 67 انتم عنه
معرضون
68 ماکان لی من علم بالملاالاعلٰی اذ یختصمون 69 ان یوحٰی الیّ الّا انما
انانذیر مبین 70
اے ہمارے رسُول ! آپ نے ھمارا سنایا ہوا جو اَحوال سنایا ہے یہ تو اُن تابع
دار اہلِ زمین کا اَحوال ہے جو جنت مکانی ہوۓ ہیں اور جو غدار اہلِ زمین
جہنم جہانی ہو رہے ہیں اُن کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی بنائی ہوئی ایک بُری
جہنم سے ہماری بنائی ہوئی اُس دُوسری جہنم کی طرف بڑھ رہے ہیں جو بُری سے
بُری جہنم ہے اور جو اہلِ زمین اِس جہنم میں پُہنچتے ہیں تو اُن سے کہا
جاتا ہے کہ تُم نے زمین پر اپنے جن بُرے اعمال کی جو بُری فصل بوئی تھی وہ
پک کر تیار ہوچکی ہے جس میں تُمہارے نرخرے کو کاٹنے والے کانٹے ہیں اور اُن
کانٹوں کو حلق سے اُتارنے کے لیۓ کھولتا ہوا پانی ہے اور اسی طرح کی اور
بھی بہت سی چیزیں ہیں جو تُم نے یہاں کھانی ہیں ، پھر اِن جہنمیوں کو اِس
جہنم میں پُہنچانے والے اِن کے جہنمی رہنماؤں سے کہاجاتا ہے کہ یہ تُمہارے
تیار کیۓ ہوۓ تُمہارے وہی تقلیدی لشکر ہیں جو دُنیا میں اندھا دُھند
تُمہاری تقلید کیا کرتے تھے اور جن سے تُم دُنیا میں اندھا دُھند اپنی
تقلید کرایا کرتے تھے اور آج جب وہ اپنی اُس اندھا دُھند تقلید کے باعث اُس
جہنم میں داخل میں داخل ہو رہے ہیں جس جہنم میں خود اِس جہنم کے سوا کوئی
بھی اُن کی آؤبھگت کرنے والا نہیں ہے جس پر اُن جنم جلوں اور جہنم جلوں کے
وہ جہنمی پیشوا کہتے ہیں کہ اِن بدبختوں کو تو اسی جہنم میں جانا اور رہنا
چاہیۓ اور اِن کو آج کوئی بھی رعایت نہیں ملنی چاہیۓ کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں
جن کی اندھی اطاعت نے ہمیں بھی مُنکر و مُتکبر اور سر کش و جہنمی بنایا ہے
جس پر اُن جہنمی مُقتداؤں کے وہ جہنمی مُقتدی کہتے ہیں کہ درحقیقت تو تُم
ہی وہ گُم راہ لوگ ہو جو دُنیا میں ہمیں جہالت و گُم راہی سکھاتے رہے ہو
اور آج ہمیں ملنی والی اُس سزا کی حمایت کر رہے ہو جو ہمارے بجاۓ تمہیں
ملنی چاہیۓ ، حسابِ رَفتہ کی ایک سزاۓ رَفتہ کے مطابق ماضی میں جہنم میں
جانے والے اُن جہنمیوں نے اللہ سے یہ التجا کی تھی کہ ہمارے اِن نفس پرست
پیشواؤں کو ایک سزا تو اِن کے اپنے گُم راہ ہونے کی دی جاۓ اور دُوسری سزا
ہمیں گُم راہ کرنے کی دی جاۓ اور اِس طرح اِن کو ایک بعد دُوسری دُھری سزا
دی جاۓ اور پھر اَچانک ہی اُن مُقتدی جہنمیوں نے اپنے پیشوا جہنمیوں کی طرف
دیکھتے ہوۓ کہا کہ آج وہ لوگ ہمیں یہاں کیوں نہیں نظر آتے ہیں جن کو ہم
تُمہارے کہنے پر اپنے تمسخر کا نشانہ بنایا کرتے تھے اور یاد رکھو کہ یہ
ماضی کے اُن اہلِ جہنم کی اُس باہمی تُوتکار کی ایک سچی نوشت ھے اِس لیۓ اے
ہمارے رسُول ! آپ اہلِ زمین کو بارِ دیگر بتادیں کہ میرا دُنیا میں اسی ایک
مقصد کے لیۓ آنا ہوا ہے کہ میں تمہیں آنے والے اُس وقت کی اُس تباہی سے
آگاہ کروں اور میں تمہیں یہ بھی بتادوں کہ آنے والے اُس وقت کی اُس اذیت سے
بچنے کا یہی ایک راستہ ہے کہ تُم اُس اللہ پر ایمان لے آؤ اور اُس کی فرماں
روائی کو تُمہاری تسلیم کرلو جو زمین و آسمان اور اِن کے درمیان موجُود ہر
ایک چیز کا خالق و مالک ہے ، یقین کرو کہ میں نے تمہیں بہت بڑی خبر دے دی
ہے مگر تُم تو ٹھنڈے دل سے اِن حقائق پر کُچھ غور ہی نہیں کرتے اور تُم جو
میرے بارے میں یہ گمان رکھتے ہو کہ میں تُم کو بلند خیالی کی یہ باتیں دل
سے گھڑ کر سناتا ہوں تو تُم اپنی یہ بدگمانی بھی دُور کردو کیونکہ میں تو
تمہیں ماضی کے اُن بالا دست سرداروں اور اُن کے اُن زیرِ دست لوگوں کا وہ
اَحوالِ واقعی سنا رہا ہوں جو اَحوال اللہ کی وحی کے بغیر میرے علم میں
نہیں آسکتا اور میری ذمے داری بھی یہی ہے کہ میں تمہیں گزرے ہوۓ زمانے میں
گزرے ہوۓ لوگوں پر گزرے ہوۓ عذابِ جہنم کے وہ واقعات سناؤں اور تُم کو آنے
والے زمانے میں آنے والے اُس عذابِ جہنم سے ڈراؤں جس عذاب نے اپنے وقت پر
ایک دن تُم پر آنا ہی آنا ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم کے مُتعدد غیر مُبہم بیانات کی رُو سے انسان کے اعمالِ نیک و
بد کی جزا و سزا کے صرف دو مقامات ہیں جن میں سے ایک مقام کا نام جنت اور
ایک مقام کا نام جہنم ہے اور قُرآنِ کریم ہی کے مُتعدد غیر مُبہم بیانات کی
رُو سے انسان اِس دُنیا میں آنے سے پہلے اللہ تعالٰی کی کسی جنت کا مکین
تھا اور ظاہر ہے کہ وہ جنت انسان کو انسان کے اعمالِ سعادت کے بدلے میں ملی
ہوگی ، اگر قُرآن کی بیان کی ہوئی یہ بات سچ ہے اور یقینا یہ ایک غیر مُبہم
سچ ھے تو پھر اِس غیر مُبہم سچ سے انسان کو اِس اَمر کا بھی یقین کر لینا
چاہیۓ کہ اگر انسان کو ماضی میں ماضی کی کسی جنت سے جنت بدر کیا گیا تھا
اور کسی غلطی کی بنا پر جنت بدر کیا گیا تھا تو انسان کو اُس غلطی کی بنا
پر اُس جنت سے نکلنے کے بعد آج اِس دُنیا میں موجُود ہونے کے بجاۓ اُس جہنم
میں موجُود ہونا چاہیۓ تھا جو جہنم غلط کار انسان کی غلط کاری کا ایک مقررہ
مقام ھے لیکن ایسا نہیں ہوا ہے اور ایسا نہ ہونے کے بارے میں بھی قُرآنِ
کریم کا یہ غیر مُبہم بیان بھی قُرآن میں موجُود ہے کہ انسان سے اُس جنت
میں جو غلطی ہوئی تھی اُس غلطی کا انسان براہِ راست ذمہ دار نہیں تھا بلکہ
وہ شیطان کے ایک بہلاوے اور بہٹکاوے کے واسطے سے اِس غلطی کا مُرتکب ہوا
تھا اِس لیۓ تعالٰی نے انسان کو جہنم میں ڈالنے کے بجاۓ زمین پر بھیج دیا
تھا تاکہ وہ اُس جنت سے نکلنے کے بعد اُس جنت کے نقشے پر اِس دُنیا میں رہ
کر اِس دُنیا کو اُس جنت کی طرح کی ایک جنت بنانے کوشش کرے جس کے بدلے میں
دوبارہ اِس کو اِس کی وہی گُم گشتہ جنت دے دی جاۓ جس سے وہ نکلا ہے لیکن
اگر انسان اِس دُنیا کو جنت بنانے کے بجاۓ جہنم بنانے کی کوشش کرتا رہے گا
تو پھر اِس کو اُسی جہنم میں ڈال دیا جاۓ گا جس کا وہ اپنی اُس پہلی غلطی
کی بنا پر پہلے ہی مُستحق ہو چکا ہے ، قُرآنِ کریم نے قُرآنِ کریم میں جن
66 مقامات پر جن 66 مُفرد جنتوں کا اور جن 69 مقامات پر جن 69 جمع جَنات کا
بتکرار ذکر کیا ھے اُن میں سے بیشتر مقامات پر انسان کی دُنیا میں بنائی
ہوئی یہی جَنات مُراد ہیں جن کے لیۓ انسان نے دُنیا میں زندہ رہ کر کوشش و
سعی کرنی ہے اور مرنے کے بعد درجہ بدرجہ اُن جنتوں میں جانا ہے جن جنتوں کے
حصول کے لیۓ وہ اِس دُنیا میں کوشش کرتا رہا ہے اور کر رہا ہے ، اسی طرح
قُرآنِ کریم نے قُرآنِ کریم میں جن 77 مقامات پر اللہ تعالٰی کی جن 77
جہنموں کا ذکر کیا ھے اُن جہنموں سے بھی مُراد دُنیا کے یہی جہنم ہیں جو
دُنیا میں انسان اپنے عمل سے بنا رہا ہے اور مرنے کے بعد اُس نے اُس بڑی
اور بُری جنم میں جانا ہے جس کے حصول کے لیۓ وہ اپنی اِس دُنیا میں کوشش و
سعی کر رہا ہے ، اِس سُورت کی اٰیاتِ بالا سے پہلی پانچ اٰیات میں جس جنت
کا ذکر ہوا ہے اُس سے بھی یہی جنت مُراد ہے جو انسان نے دُنیا میں رہ کر
دُنیا و آخرت دونوں کے لیۓ بنانی ہے اور اٰیاتِ بالا کی 16 اٰیات میں جس
جہنم کا ذکر ہوا ہے اُس سے بھی یہی جہنم مُراد ہے جو انسان نے دُنیا میں رہ
کر دُنیا اور آخرت دونوں کے لیۓ بنانی ہے اور یہی وجہ ہے کہ دُنیا کی کُچھ
اَقوام اپنی جبلّی یاداشت میں genetic memory کی بنا پر دُنیا کو جنت بنانے
میں جُتی ہوئی ہیں اور دُنیا کی کُچھ اَقوام دُنیا کو جہنم بنانے پر تُلی
ہوئی ہیں ، پہلی تمام اَقوام بلا تمیزِ رنگ و نسل اللہ تعالٰی کی رحمت کی
حق دار ہیں اور دُوسری تمام اَقوام بھی بلاتمیزِ رنگ و نسل اللہ تعالٰی کے
عذاب کی سزاوار ہیں ، اٰیاتِ بالا کی رُو سے اِس دُنیا کے بگاڑ اور بناؤ
میں بُنیادی کردار انسانی معاشرے کے اُن بااثر لوگوں کا ہوتا ھے جو کسی قوم
کی دینی و سیاسی رہنمائی کر رہے ہوتے ہیں اور جس قوم کے جو دینی و سیاسی
رہنما انسانی معاشرے کی رہنمائی کر تے ہوۓ انسانی معاشرے میں بگاڑ پیدا
کرتے ہیں وہ اللہ تعالٰی کے نظامِ جزا و سزا میں زیادہ سزا کے زیادہ مُستحق
ہوتے ہیں ، رہا یہ سوال کہ انسانی معاشروں میں کون سا انسانی معاشرہ جنت یا
جہنم کی راہ پر گامزن ہے تو اٰیاتِ بالا میں اِس اَمر کی بھی نشان دہی کردی
گئی ہے کہ جو انسانی معاشرہ دینی فرقہ بندی اور سیاسی فتنہ پروری کا شکار
ہوتا ہے وہ دُنیا میں ایک جہنمی معاشرہ ہوتا ہے اور آخرت میں بھی جہنم کا
ایک مُستحق معاشرہ ہوتا ہے بخلاف اِس کے کہ جو انسانی معاشرہ دُنیا میں
دینی اَمن اور سیاسی اتحاد کا حامل ہوتا ہے وہ انسانی معاشرہ دُنیا میں ایک
جنتی معاشرہ ہوتا ہے اور آخرت میں بھی وہی معاشرہ جنت کا ایک مُستحق معاشرہ
ہوتا ہے !!
|