|
|
شناخت کے تحفظ کے لیے مریضوں اور ان کے اہلِ خانہ کے نام
تبدیل کر دیے گئے ہیں۔ |
|
ساٹھ برس کے محمد صابر خیبر پختونخوا کے ضلع ہری پور کے
دور افتادہ گاؤں سے پانچ گھنٹے کا سفر طے کر کے ساڑھے نو بجے پشاور کے حیات
آباد میڈیکل کمپلیکس میں ایڈز کے تدارک کے لیے قائم مرکز سے اپنی 25 برس کی
بیٹی صائمہ کے لیے ادویات لینے پہنچے۔ |
|
ڈیڑھ سال پہلے گاؤں کے ایک مرکز صحت میں جب صائمہ کے ہاں
پہلی بچی کی پیدائش ہوئی تو اُن کو خون کی ضرورت پیش آئی۔ |
|
صائمہ کے لیے باہر سے قیمت پر خون خریدا گیا اور پڑتال کے بغیر لگا دیا گیا
اور اس لاپرواہی سے وہ ایڈز جیسی خطرناک بیماری کا شکار ہو گئیں۔ |
|
اب صائمہ تین بچوں کی ماں ہیں۔ بروقت ادویات کے استعمال اور طبی اصولوں پر
عمل کی وجہ سے اُن کے بچے اور شوہر اس موذی مرض سے محفوظ ہیں۔ |
|
صابر نے کہا کہ صائمہ کے اب تین بچے ہیں۔ جن میں ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں
تاہم ڈاکٹروں نے مزید بچے پیدا کرنے سے منع کیا ہے کیونکہ اس بات کا خدشہ
موجود ہے کہ خدانخواستہ آنے والا بچہ ایڈز میں مبتلا نہ ہو جائے۔ |
|
اُنھوں نے بتایا کہ ایبٹ آباد میں قائم ایڈز کنٹرول پروگرام کے مرکز میں
صرف ٹیسٹ اور رہنمائی کی سہولت موجود ہے جبکہ ادویات کے حصول میں لوگوں کو
بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ |
|
انٹی گریٹیڈ ایچ آئی وی، ہیپاٹائٹس اینڈ تھیلیسمیا کنٹرول پروگرام خیبر
پختونخوا کے اعداد و شمار کے مطابق صوبہ بھر کے چھ مراکز میں 6364 مریض
رجسٹر ہیں جن میں 4574 مرد، 1595 خواتین، 36 خواجہ سرا، 149 بچے اور 110
بچیاں شامل ہیں۔ |
|
حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں قائم ایڈز کنٹرول کے مرکز میں بچوں کے نگران
اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد ادریس نے بچوں کے ایڈز سے متاثر ہونے کی دو بڑی
وجوہات بتائی کہ ایڈز سے متاثرہ حاملہ خواتین کے آنے والے بچے اور
تھیلسیمیا کے شکار بچے، جن کو بار بار خون لگایا جاتا ہے، اس بیماری کا
شکار ہو جاتے ہیں۔ |
|
پروفیسر ڈاکٹر محمد ادریس کہتے ہیں کہ ادارے کے پاس مذکورہ وجوہات کے علاوہ
دیگر عوامل سے متاثرہ بچوں کے کوئی شواہد موجود نہیں۔ |
|
|
|
پشاور کے امجد علی کی تیسری بچی کی پیدائش چند مہینے
پہلے ہوئی لیکن اسے مسلسل تیز بخار کی وجہ سے کئی بار ہسپتال میں داخل
کروایا گیا تاہم بعد میں معلوم ہوا کہ وہ ایڈز کا شکار ہے۔ |
|
بعد میں اُنھوں نے خود اپنا، بیوی اور باقی دو بچوں کا
ٹیسٹ بھی کروایا تو معلوم ہوا کہ اُن کا پورا خاندان اس بیماری میں مبتلا
ہو چکا ہے۔ |
|
اب وہ حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں قائم ایڈز کنٹرول کے
مرکز کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں اور باقاعدگی سے ادویات حاصل کرتے رہے ہیں۔ |
|
اُنھوں نے بتایا کہ اُن کو نہیں معلوم کہ کیسے اُن کا
پورا خاندان اس خطرناک بیماری کا شکار ہوا۔ |
|
اگر امجد علی اور اُن کی بیوی کو بروقت اپنی بیماری کا
علم ہوتا تو شاید وہ اور اُن کے تینوں بچے اس موذی مرض سے محفوظ رہ جاتے
کیونکہ حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں ایڈز کنٹرول مرکز کی ایک الگ شاخ
(Prevention from Parents to children) میں اُن متاثرہ والدین کی رجسٹریشن
ہوتی ہے جو آنے والے وقت میں بچے پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ |
|
ڈاکٹر محمد ادریس نے کہا کہ صوبہ بھر میں قائم تمام
مراکز میں اُن والدین کی رجسٹریشن کی جاتی ہے جو ایڈز سے متاثر ہوں اور وہ
آنے والے وقت میں بچے پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ |
|
’ان لوگوں کا باقاعدگی سے معائنہ ہوتا ہے اور ادویات کے
استعمال کی تاکید کی جاتی ہے تاکہ بیماری کے زور کو کم کر کے پیدا ہونے
والے بچے کو ایڈز سے محفوظ کیا جا سکے۔‘ |
|
|
|
اُنھوں نے کہا کہ حاملہ خاتون کے لیے چار ہفتے یا اس سے
زیادہ عرصے تک ادویات استعمال کرنا ضروری ہے۔ تمام طبی اصولوں پر عمل کے
صورت میں آنے والے بچے میں صرف دو فیصد جبکہ ادویات اور دیگر احتیاطی
تدابیر پر عمل نہ کرنے کے صورت میں 45 فیصد تک ایڈز سے متاثر ہونے کا خدشہ
ہوتا ہے۔ |
|
نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے جاری اعداد و شمار کے
مطابق دنیا بھر میں پندرہ سال سے کم عمر 90 فیصد ایڈز کے مریض وہ ہیں جن کو
ماں سے ایڈز کی بیماری منتقل ہو جاتی ہے۔ |
|
احتیاط و تحفظ سے لاعلمی کی وجہ سے تین میں سے ایک
نومولود متاثر ہو جاتا ہے۔ پانچ فیصد بچے رحم اور 15 فیصد پیدائش کے عمل کے
دوران ماں کے جسم سے جڑے ہوئے ٹشو بے احتیاطی کے ساتھ زخمی کرنے سے متاثر
ہوتے ہیں۔ |
|
ایڈز سے متاثرہ ماؤں نے
کیسے بیماری سے محفوظ بچوں کو جنم دیا؟ |
خیبر پختونخوا ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق سنہ 2017
میں صوبے بھر سے ایڈز میں مبتلا 23 حاملہ خواتین نے بچوں کو جنم دیا تھا جن
میں ایک بچہ متاثر تھا۔ |
|
سنہ 2018 میں 26 بچے پیدا ہوئے اور بہتر حکمت عملی کی
بنا پر ایک بھی بچہ متاثر نہیں ہوا۔ سنہ 2019 میں 39 بچوں میں سے دو متاثر
ہوئے اور گذشتہ دو برس یعنی سنہ 2020 میں 45 جبکہ سنہ 2021 میں 48 ماؤں نے
ایڈز سے محفوظ بچے جنم دیے۔ |
|
ادارے کے پاس رجسٹرڈ بچوں میں اکثریت اُن کی ہے جن کی
مائیں زچگی سے پہلے ادارے کے پاس رجسٹرڈ نہیں تھیں اور پیدائش کے بعد اُن
میں بیماری کی تشخیص ہوئی۔ |
|
|
|
ڈاکٹر محمد ادریس کے مطابق تمام ماؤں کو زچگی کے دوران
نئے آلات کا استعمال کرنا چاہیے جبکہ ضرورت کے مطابق مریض کو باہر سے خون
خریدنے کے بجائے گھر یا خاندان کے فرد سے خون لے کر تشخیص کروائی جائے تاکہ
مریض کو صاف خون مل سکے۔ |
|
اُنھوں نے کہا کہ ایڈز سے متاثرہ خواتین کی ڈیلیوری کسی
بھی طبی مرکز میں کی جا سکتی ہے تاہم عملے کو پہلے سے بتایا جائے تاکہ وہ
بھی حفاظت کو یقینی بنائیں اور اس دوران ایڈز کے مراکز کے طرف سے مہیا کردہ
آلات کو استعمال کریں۔ |
|
ڈاکٹر ادریس کا کہنا ہے کہ ایڈز سے متاثرہ مائیں
نوزائیدہ بچوں کو دودھ پلا سکتی ہیں تاہم اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ
مریض کے جسم میں اگر وائرس کا زور کم ہو تو خطرے کی بات نہیں اور اس کا
اندازہ مریض کے خون کے نمونوں کی تشخیص کے بعد ہی ہو سکتا ہے۔ |
|
’وہ دن قیامت سے کم نہ
تھا جب پورے گھر کو ایڈز کا پتا چلا‘ |
ایڈز سے متاثرہ مریضوں کو مفت ادویات اور ٹیسٹ کی سہولت
کے لیے خیبر پختونخوا کے صوبائی ایڈز کنٹرول پروگرام کی طرف سے آٹھ مراکز
قائم ہیں۔ |
|
لیڈی ریڈنگ ہستپال پشاور، حیات آباد میڈیکل کمپلیکس
پشاور، بٹ خیلہ، کوہاٹ، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کے مراکز میں تمام
سہولیات موجود ہیں تاہم ادارے کے مطابق کورونا وبا کی وجہ سے مردان اور
ایبٹ آباد میں تشخیص کے ساتھ ادویات مہیا کرنے کی سہولت تاخیر کا شکار ہوئی۔ |
|
ڈاکٹر محمد ادریس نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں ایڈز سے
متاثرہ افراد میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو بیرون ممالک سے اس بیماری میں
مبتلا ہوئے اور گھر واپس آکر انھوں نے اپنی بیوی کو بیماری کے بارے نہیں
بتایا اور نہ جنسی تعلقات کے لیے محفوظ طریقہ اپنایا۔ |
|
ان کے بقول اس بیماری کو لوگ چھپاتے ہیں اور اس وجہ سے
غیر محفوظ طبی مراکز اور ماہر لوگ نہ ہونے کی وجہ سے بچہ ایڈز کا شکار ہو
جاتا ہے۔ |
|
|
|
سمیر کی بیوی رابعہ اپنی بیماری سے زیادہ اپنے تین بچوں
کے لیے پریشان ہیں۔ |
|
اُن کا کہنا ہے کہ جب تیسرے بچے میں ایڈز کی تشخص ہوئی
تو خاندان میں کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ کون سی اور کتنی خطرناک
بیماری ہے۔ |
|
اُن کے بقول ’جب پتا چلا کہ میں، شوہر اور تینوں بچے
متاثر ہیں تو وہ دن قیامت سے کم نہیں تھا۔‘ |
|
اُنھوں نے بتایا کہ اُن کا پورا خاندان باقاعدہ ادویات
کا استعمال کرتا ہے اور طبی عملے کی طرف سے دی گئی ہدایات پر بھی عمل کرتا
ہے۔ |
|
پاکستان میں ایچ آئی وی ایڈز کے حوالے سے سنہ 2016 میں
سروے کرایا گیا تھا تاہم نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کی ویب سائٹ پر جاری
کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر سے 46 ہزار 912 مریض رجسٹرڈ ہیں جن میں
26 ہزار 93 مریض باقاعددگی سے ادویات کا استعمال کرتے ہیں۔ |
|
ادارے کے اندازے کے مطابق پوری آبادی کے 0.24 فیصد لوگ
ایڈز سے متاثر ہیں۔ |
|
Partner Content: BBC Urdu |