برف کے پہاڑ جو ہر وقت گھومتے ہیں... 100 سال پہلے ڈوبنے والے بحری جہاز میں ایسا کیا ہے کہ اسے دوبارہ تلاش کیا جا رہا ہے؟

image
 
یہ بحری جہازوں کی تباہی کی تاریخ کا وہ واقعہ ہے جس میں تباہ ہونے والے جہاز کا سراغ لگانا سب سے مشکل رہا ہے۔
 
یہ تو ہمیں بالکل معلوم ہے کہ آج سے ایک صدی پہلے سر ارنسٹ شیکلٹن کی کپتانی میں روانہ ہونے والا ’اینڈیورنس‘ نامی بحری جہاز سمندر میں کس علاقے میں غرق ہوا تھا۔ تاہم، ابھی تک انٹارٹک کی تہہ میں اس کے لکڑی کے ڈھانچے کی کھوج لگانے کی تمام کوششیں ناکام رہی ہیں۔
 
اگرچہ مذکورہ مقام پر سمندر خاصا گہرا (تقریباً تین ہزار میٹر) ہے لیکن اینڈیورنس کی تلاش میں روانہ ہونے کے لیے تیار ایک نئی ٹیم کی بڑی مشکل صرف سمندر کی گہرائی نہیں ہوگی۔ اس ٹیم کی اصل مشکل سمندری برف ہوگی، وہی پتھر جیسی سخت برف جسے آئرلینڈ نژاد مہم جُو، شیکلٹن نے ’ظالم اور شیطانی سمندری برف‘ کا لقب دیا تھا۔
 
یہ دنیا کے اس سرد ترین سمندر میں تیرتی ہوئی وہ برف ہی تھی جس نے شیکلٹن کے بھاپ سے چلنے والے اس بادبانی جہاز کو اکتوبر اور نومبر 1915 کے درمیانی دنوں میں دبوچ کر سمندر میں نگل لیا تھا۔ پھر برف کی اسی دبیز تہہ نے اینڈیورنس کی قبر کو ڈھانپ دیا اور اس کی کھوج لگانے والوں کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی۔
 
ان دنوں میں تو شاید اس بحری جہاز کا سراغ لگانا واقعی مشکل تھا، لیکن آج جب مصنوعی سیارے دور خلا سے ہمارے زمین کے چپے چپے کی تصویریں اتار سکتے ہیں اور برف کو توڑنے کے لیے بڑی بڑی مشینیں بھی موجود ہیں، پھر بھی اینڈیورنس کی باقیات کا سراغ لگانا ایک ناممکن مشن لگتا ہے۔
 
ایک تازہ ترین مشن پر نکلنے کے لیے تیار بیٹھے مہم جو، مینسن باؤنڈ، کہتے ہیں کہ ’آپ یقین کریں، یہ بہت مشکل کام ہے۔ بحیرۂ ویڈل کے اندر برف کے یہ پہاڑ ہر وقت گھڑیال کی سوئیوں کی طرح گھومتے رہتے ہیں۔ برف کی یہ موٹی تہہ مسلسل ایک جگہ سے کُھلتی ہے، خود کو بھینچ لیتی ہے، اور پھر کسی جگہ سے اس کا منھ کھل جاتا ہے۔ ہم جہاں جا رہے ہیں وہاں کی آب و ہوا واقعی بڑی سفًاک ہے۔‘
 
تو پھر خود کو اس مصیبت میں ڈالنے کی ضرورت کیا ہے؟ خود کو ایک مرتبہ پھر ایک ایسی مہم کے لیے پیش کرنے کا کیا فائدہ جس میں مایوسی یقینی ہے۔
 
کیا کہیے کہ شیکلٹن کا سحر ہے ہی ایسا کہ ناکامی و مایوسی کے خدشات کے باجود مہم جُو اس غرقاب بحری جہاز کو بھولتے نہیں۔
 
بحر منجمد جنوبی یعنی انٹارٹیکا میں شیکلٹن کی یہ تاریخی مہم سنہ 1914 سے 1917 تک جاری رہی تھی اور اس کا مقصد پہلی مرتبہ برف سے ڈھکے ہوئے اس براعظم کو عبور کرنا تھا، لیکن اینڈیورنس راستے میں پھنسی ہوئی اور سفًاک سمندری برف میں کھو گئے۔
 
اس مہم کی شہرت پوری دنیا میں اس وقت پھیل گئی تھی جب شیکلٹن اور ان کے ساتھی نہ صرف زندہ رہے بلکہ حیران کن طور پر پیدل چلتے ہوئے اور چھوٹی کشتیوں کی مدد سے واپس آ گئے۔
 
ان کی یہ مہم کسی یادگار سے کم نہیں، اور اس کہانی میں یہی ایک کشش ہے۔
 
image
 
اس سوال کے جواب میں کہ اگر اینڈیورنس کا سراغ مل گیا تو اس کے معنی کیا ہوں گے، مینسن باؤنڈ کا کہنا تھا کہ شاید اینڈیورنس کا سراغ لگانے کی کوشش 'غرق ہونے والے بحری جہازوں کی تلاش میں جانے والی مہمات میں سے عظیم ترین مہم ہے۔ اگر آپ اس کا سراغ لگا لیتے ہیں، تو اس سے بہتر کوئی شے ہو ہی نہیں سکتی۔ اس (عروج کے بعد) تو میری زندگی میں آگے ڈھلوان ہی ہے۔‘
 
سمندری آثارِ قدیمہ کے ماہر یہ مہم جُو، اپنے ساتھیوں کے ساتھ جس مشن پر جا رہے ہیں اسے ’اینڈیورنس 22‘ کا نام دیا گیا ہے۔ شیکلٹن کے گمشدہ بحری جہاز کی تلاش کے اس منصوبے کا انتظام ’فاکلینڈز میری ٹائم ہیریٹج ٹرسٹ‘ نے کیا ہے اور یہ مشن کیپ ٹاؤن سے روانہ ہو گا۔
 
اس ٹیم میں وہ سرکردہ مہم جُو بھی شامل ہیں جو سنہ 2019 میں اس غرقاب جہاز کا سراغ لگانے کے بہت قریب پہنچ گئے تھے۔
 
'اینڈیورنس 22' مہم کے سربراہ، ڈاکٹر جان شیئرز کا کہنا ہے کہ گذشتہ مہم کے دوران کئی اہم سبق سیکھے گئے اور یہ نئی ٹیم چند نئی ترکیبوں کے ساتھ جا رہی ہے جن میں ہیلی کاپٹروں کی مدد بھی شامل ہو گی۔
 
'اگرچہ ہم تلاش کا کام چھوٹی آبدوز سے کریں گے، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ اگر ہم شدید برفانی حالات میں پھنس جاتے ہیں اور ہم اس جگہ پر نہیں پہنچ سکتے جہاں جہاز ڈوبا تھا، تو اس صورت میں ہم اپنا ’برفانی کیمپ‘ (ہیلی کاپٹر) پر اُڑا کر وہاں لے جائیں گے۔'
 
اس مرتبہ پانی کے اندر استعمال کی جانے والی ٹیکنالوجی بھی مختلف ہو گی۔ سنہ 2019 میں جو آٹو میٹک آبدوز استعمال کی گئی تھی، وہ پانی کے اندر جو کچھ دیکھ رہی تھی وہ معلومات براہ راست اوپر نہیں پہنچ رہی تھیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب آبدوز چلنا بند ہو گئی تو وہ تمام ڈیٹا بھی ضائع ہو گیا جو اس نے جمع کیا تھا۔
 
جان شیئرز کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم جس جگہ اس برفانی کیمپ کو اتاریں گے، اسی مقام سے برف کے اندر (مشین سے) سوراخ کریں گے اور اپنی آبدوز کو برف کے نیچے پانی میں لگا دیں گے۔‘
 
شیکلٹن کی ٹرانس اٹلانٹِک مہم میں کب کیا ہوا؟
 
image
 
دسمبر 1914: اینڈیورنس جنوبی جارجیا کے ساحل سے روانہ ہوا
 
فروری 1915: جہاز مکمل طور پر برف میں پھنس گیا
 
اکتوبر 1915: جہاز کے لکڑی والے حصے ٹوٹنا شروع ہو گئے
 
نومبر 1915: اینڈیورنس برف کے نیچے غائب ہو گیا
 
اپریل 1916: جہاز کا عملہ وہاں سے نکل کر جزیرۂ ایلیفینٹ پہنچ گیا
 
مئی 1916: شیکلٹن مدد کی تلاش میں جنوبی جارجیا پہنچے
 
اگست 1916: ایک امدادی جہاز جزیرۂ ایلیفینٹ پہنچا
 
اب تک ماہرین اس علاقے کا تعین کر چکے ہیں جہاں اینڈیورنس کی تلاش مرکوز ہو گی۔ یہ کوئی بہت وسیع علاقہ نہیں بلکہ اس کی چوڑائی آٹھ کلومیٹر اور لمبائی 15 کلومیٹر ہے۔
 
اینڈریورنس کی تلاش کے حوالے سے ایک بڑا سوال یہ کہ اب اس کا ڈھانچہ کس حال میں ہو گا۔ اس مقام پر پانی اتنا گہرا ہے جس وجہ سے اس بات کے امکانات کم ہیں کہ سمندر میں تیرتا ہوا برف کا کوئی بڑا تودہ اسے گھسیٹ کر کہیں دور لے گیا ہو گا۔
 
ماہرین کا خیال ہے کہ سمندر کی تہہ میں پڑے اس جہاز پر آہستہ آہستہ اتنی ریت وغیرہ پڑ چکی ہو گی کہ اس کے لکڑی کے بڑے بڑے حصے اب بھی پانی کے اندر کھڑے ہوں گے، لیکن ہو سکتا ہے یہ دور دور بکھر چکے ہوں۔ لیکن اس بات کے امکانات بھی بہت زیادہ ہیں کہ جب اینڈیورنس زور سے جا کر سمندر کی تہہ سے ٹکرایا ہو گا تو اس کے حصے بخرے ہو گئے ہوں گے اور بقول میسن باؤنڈ کے، جہاز یوں ’کھُل گیا ہو گا جیسے چاکلیٹ کا ڈبہ کھُلتا ہے۔‘
 
image
 
اگرچہ وہ کیڑے مکوڑے جو عموماً سمندر میں غرق ہو جانے والے لکڑی کی بڑی کشتیوں یا جہازوں کو دیمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں، وہ قطب جنوبی کے یخ بستہ آب و ہوا میں زیادہ عرصے تک پھل پھول نہیں سکتے۔ تاہم، چونکہ بحیرۂ ویڈل کی تہہ میں آکسیجن کی کوئی کمی نہیں ہوتی اس لیے ممکن ہے کہ دوسری قسم کے کیڑے مکوڑے اب تک اینڈیورنس کے ڈھانچے کا صفایہ کر چکے ہوں۔
 
image
 
اگر اینڈیورنس کے ڈوب جانے کے سو برس بعد ہمیں وہاں پر اس کا ٹوٹا پھوٹا ڈھانچہ مل بھی جاتا ہے تو کیا اس سے شیکلٹن کی کہانی میں نئی جان پڑ جائے گی؟
 
اس بحری جہاز کے عملے کے ڈرامائی انداز میں وہاں سے بچ جانے اور پھر تمام مشکلات سے لڑتے ہوئے واپس آ جانے کا سارا قصہ اپنی تمام تر تفیصلات کے ساتھ اسی وقت رقم کر لیا گیا تھا۔ ہمارے پاس اب بھی عملے کی لکھی ہوئی ڈائریاں موجود ہیں اور یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ اس جہاز کے ساتھ کیا ہوا تھا۔
 
اٹلانٹِک پر تحقیق کرنے والے کچھ ماہرین نے مجھے بتایا ہے کہ جو رقم اینڈیورنس 22 کی مہم پر خرچ کی جا رہی ہے، اس سے بہتر ہوتا اگر یہ رقم ان یخ بستہ سمندروں میں سائنسدان بھیجنے کے لیے مختص کر دی جاتی۔ آخر کار یہ علاقہ ’ماحولیات کا سب سے اگلا مورچہ‘ ہے اور ہمیں تحقیق کرنے اور یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ جب دنیا میں حدت میں اضافہ ہو رہا ہے تو اس ’سفید براعظم‘ کا ہو گا کیا؟
 
لیکن شیکلٹن کی کہانی میں کشش زیادہ ہے۔
 
image
 
اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگوں میں بہت تجسس ہے کہ اس بحری جہاز کے ڈھانچے کی ویڈیو میں کیا نظر آئے گا اور کیا عملے کے استعمال کی چیزیں اب بھی اس ڈھانچے سے چمٹی ہوں گی؟
 
ہو سکتا ہے ویڈیو میں ہمیں جہاز کے سٹور کیپر تھامس اورڈے لی کی سائیکل نظر آ جائے، شہد کی وہ بوتلیں نظر آ جائیں جن میں مہم میں شامل ماہرِ حیاتیات رابرٹ کلارک نے کچھ نمونے جمع کر رکھے تھے، یا وہ پتھر بھی نظر آ جائیں جو ماہرِ ارضیات جیمز ورڈی نے جمع کیے تھے۔
 
اینڈیورنس 22 کے مشن میں شامل تاریخ دان ڈین سنو کہتے ہیں کہ ’ہمیں شاید عملے کا سامان نظر آ جائے یا ہو سکتا ہے ہمیں ایسی چیزیں بھی نظر آجائیں جن کے ذریعے ہم ان اصل لوگوں سے اپنا کوئی تعلق بنا سکیں جنھیں آج سے سو برس پہلے اپنے جہاز کو سمندر میں چھوڑ کر برف پر رہنا پڑا، اور پھر چھوٹی سی کشتی میں ایک ہولناک سفر کے بعد یہ لوگ محفوظ مقام پر پہنچے۔‘
 
’میں سوچتا ہوں کہ اس ڈھانچے میں دلچسپی کا بہت سامان ہو، نہ صرف مجھ جیسے تحقیق کی دنیا میں گم لوگوں کے لیے، بلکہ اس ڈھانچے سے ملنے والی چیزیں ہر کسی کی کہانی میں ایک نیا رنگ بھر دیں گی۔‘
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: