جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ میں
کفار کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دینا شروع کی تو جن لوگوں نے اسے قبول کیا
اور مسلمان ہو گئے، ان سے کفار کہا کرتے تھے، ''براہ کرم اپنے سابقہ
مذہب(کفر) کی طرف لوٹ آؤ، اور اگر تم سے اس کے بارے میں قیامت کے دن سوال
کیا جائے تو اللہ کے سامنے ہمارا نام لے دینا، ہم تمہارا بوجھ اٹھا لیں
گے۔''
چنانچہ ارشاد باری تعا لیٰ ہے، ”یقیناًانہیں اپنا بوجھ خود اٹھانا پڑے گا،
اور اپنے بوجھ کے علاوہ دوسرے لوگوں کابوجھ بھی(جنھیں یہ گمراہ کر رہے ہیں)
اور یقیناً قیامت کے دن ان سے ان کے تمام جھوٹے دعووں کا حساب لیا جائے
گا۔''
العنکبوت: 29:13
یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ وہ لوگ جو مذہبی پیشوا ہیں اور اپنے پیروکاروں کو
غلط عقائد و اعمال کی تعلیم دیتے ہیں اور انھیں اسلام کے صراط مستقیم سے
ہٹاتے ہیں وہ اپنے بوجھ کے ساتھ ان کا بوجھ بھی اٹھائیں گے۔
سوال یہ ہے کہ یہاں ”بوجھ“ سے کیا مراد ہے، کیا یہ وہی بوجھ ہے جیسا کہ
جانور اٹھاتے ہیں؟
قرآن کریم اس کے بارے میں بیان کرتا ہے کہ ”اللہ تعالیٰ کسی انسان پر اس کی
استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا، اس کے حق میں وہی ہوگا جو وہ اچھائی کرے
گا اور جو برائی کرے گا وہ بھی اس کے حق میں ہوگا“۔
(البقرہ: 2:286)۔
یہاں ”بوجھ“ سے مراد دین اسلام کو قبول کرنا اور اس کے احکام پر عمل کرنا
ہے۔
اسکی حقیقت یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں پر ایک ڈیوٹی
لگائی گئی ہے کیونکہ انسان کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت کیلئے پیدا کیا
گیا ہے۔
اور جو لوگ اسکو قبول کرتے ہیں اور اپنا فرض ادا کرتے ہیں تو وہی کامیاب
ہیں۔ اور جو لوگ اسلام کو چھوڑ کر دوسرے دین کو اختیار کرتے ہیں اوروہ ملحد
ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کو برداشت کرنے سے انکاری ہیں تو وہ اپنے
برے اعمال کی وجہ سے جہنم میں ڈالے جائیں گے اور یہی ”بوجھ“ کے حقیقی معنی
ہیں۔
مفسرین کے مطابق انسان جو بھی نیکی یا گناہ کرتا ہے وہ مختلف شکلوں میں
تبدیل ہو جاتا ہے اور ان میں وزن ہوتا ہے اور قیامت کے دن ان کو ایک خاص
میزان پر تولا جائے گا۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ ”اس دن تولنا برحق ہے وہ لوگ جن کا پلڑا بھاری ہے
وہی کامیاب ہیں۔ (8) اور جن کا پیمانہ ہلکا ہے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی
جانوں کو نقصان پہنچایا اس وجہ سے کہ وہ ہماری آیات کو جھٹلاتے تھے۔
الاعراف7:8
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ جن کے اعمال اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہوں گے
ان کا پلڑا بھاری ہو گا اور یہ لوگ کامیاب ہونگے اور جنت میں داخل ہونگے۔
جبکہ وہ لوگ جو کافرو مشرک ہونگے یا دوسرے مذہب سے تعلق رکھتے ہونگے ان کے
لوگوں کے اعمال کا پلڑا ہلکا ہوگا اور یہی لوگ خسارے میں ہوں گے اور جہنم
کی آگ میں ڈالے جائیں گے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے ”درحقیقت وہ خسارے میں ہیں
جنہوں نے اللہ سے ملاقات کا انکار کیا، یہاں تک کہ جب اچانک ان پر قیامت
آئے گی تو وہ پکار ا ٹھیں گے کہ ہائے افسوس کہ ہم نے غفلت برتی اور وہ اپنی
پیٹھوں پر اپنا بوجھ اٹھائے ہوئے ہوئے ہونگے، ہائے برا ہے بوجھ جو وہ
اٹھاتے ہیں!“
(الانعام 6:31)
پس انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسے اعمال کرے جو کہ دین اسلام کے مطابق
ہوں اور قیامت کے دن جب وہ ترازو میں تولے جائیں تو بھاری ہو جائیں اور وہ
انسان کامیا ب ہو جائے۔
ارشاد باری تعالی ٰ ہے کہ”جو شخص اسلام کے علاوہ کوئی اور دین اختیار کرے
گا تو وہ اس سے ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ قیامت کے دین خسارہ
پانے والوں میں سے ہو گا“(آل عمران3:85)۔
|