دو ماہ میں تنخواہیں اور مراعات واپس کرنے کا حکم... نااہل قرار دیے جانے والے سینیٹر فیصل واوڈا پر کیا الزامات تھے؟

image
 
سنہ 2018 کے عام انتخابات میں کاغذات نامزدگی کے ساتھ دہری شہریت کے معاملے پر جھوٹا حلف نامہ جمع کروانے پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر فیصل واوڈا کو نااہل قرار دے دیا ہے۔
 
چیف الیکشن کمیشن کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اپنا محفوظ شدہ فیصلہ آج (بدھ) سُنایا جس میں فیصل واوڈا کو احکامات جاری کیے گئے ہیں کہ وہ بطور رکن قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر حاصل کی گئی تنخواہیں اور مراعات دو ماہ کے اندر سیکریٹری قومی اسمبلی کو واپس جمع کروائیں۔
 
الیکشن کمیشن نے فیصل واوڈا کی بطور سینیٹر کامیابی کا نوٹیفیکشن بھی واپس لینے کے احکامات جاری کیے ہیں۔
 
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ فیصل واوڈا الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔
 
فیصل واوڈا پر کیا الزامات تھے؟
اس سلسلے میں الیکشن کمیشن میں دائر درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ فیصل واوڈا نے 11 جون 2018 کو الیکشن کمیشن میں کاغذات نامزدگی جمع کروائے جس میں انھوں نے دہری شہریت ظاہر نہیں کی اس بات سے قطع نظر کہ وہ کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے وقت بھی امریکی شہریت کے حامل تھے۔
 
درخواست میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ فیصل واوڈا کے کاغذات 18 جون 2018 کو منظور ہوئے جبکہ انھوں نے امریکی شہریت چھوڑنے کے لیے درخواست 22 جون 2018 کو جمع کروائی اور انھیں امریکی سفارتخانے سے شہریت چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ 25 جون 2018 کو ملا جو کہ ان کے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے بعد تھا۔
 
خیال رہے کہ سپریم کورٹ واضح کر چکی ہے کہ کاغذاتِ نامزدگی جمع کرواتے ہوئے دہری شہریت ترک کرنے کا سرٹیفکیٹ موجود ہونا ضروری ہے۔
 
فیصل واوڈا نے گذشتہ سال اکتوبر میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں الیکشن کمیشن کو اس معاملے پر کارروائی سے روکنے کے لیے درخواست دائر کی تھی البتہ عدالتِ عالیہ نے یہ درخواست مسترد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو دو ماہ میں اس معاملے پر فیصلہ دینے کا حکم دیا تھا جس کے بعد الیکشن کمیشن نے گذشتہ ماہ اس درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
 
یاد رہے کہ فیصل واوڈا کی اہلیت کو چیلنج کرنے والوں میں عبدالقادر مندوخیل بھی ہیں جو فیصل واوڈا کی طرف سے چھوڑی گئی قومی اسمبلی کی نشست پر ضمنی الیکشن میں کامیاب ہوئے تھے۔
 
فیصل واوڈا کیس طویل عرصے تک زیر سماعت رہا
 
image
 
فیصل واوڈا کا مقدمہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں طویل عرصے تک زیر سماعت رہا اور اپنے اوپر لٹکی نااہلی کی تلوار سے بچنے کی خاطر اس دوران فیصل واوڈا اپنی قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہو کر سینیٹ کے رُکن بن گئے۔
 
تاہم جب اس کے بعد بھی جب الیکشن کمیشن نے فیصل واوڈا کے خلاف کارروائی نہ روکی تو اب کی بار سینیٹر واوڈا پھر اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ گئے اور یہ درخواست دی کہ کمیشن کو اس سماعت سے روکا جائے۔
 
اب ایم این اے فیصل واوڈا کے برعکس سینیٹر فیصل واوڈا زیادہ خوش قسمت ثابت نہ ہوئے اور عدالت نے اس بار ان کی درخواست قبول نہیں اور جسٹس عامر فاروق نے کمیشن کو کارروائی نہ روکنے کی ہدایت واضح احکامات دے دیے۔
 
اس کے بعد فیصل واوڈا نے اس فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل کی اور عدالت سے درخواست کی کہ عدالت کا 12 نومبر کا فیصلہ جبکہ نااہلی کی درخواستیں قابل سماعت قرار دینے کا الیکشن کمیشن کا 12 اکتوبر کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔
 
مگر اس درخواست کے بعد بھی سینیٹر فیصل واوڈا ریلیف حاصل نہ کر سکے اور ایک بار پھر انھیں الیکشن کمیشن کی کارروائی کا حصہ بننا پڑا۔
 
دہری شہریت پر نااہل قرار دینے کی درخواست کا پس منظر کیا ہے؟
 
image
 
جنوری 2020 میں پاکستان کے ’دی نیوز‘ اخبار میں شائع ہونے والی خبر کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور مخالف امیدوار عبدالقادر مندوخیل نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں فیصل واوڈا کی اہلیت کو چیلنج کیا تھا۔
 
سماعت کے دوران فیصل واوڈا کے وکیل بیرسٹر معید نے اپنے موکل کی پیدائش کا سرٹیفکیٹ کمیشن میں جمع کروایا تھا جس کے مطابق سینیٹر فیصل واوڈا امریکی ریاست کیلیفورنیا میں پیدا ہوئے اور وہ پیدائشی طور پر امریکی شہری ہیں۔ ان کے مطابق کاغذات نامزدگی جمع کروانے سے قبل فیصل واوڈا نے غیر ملکی پاسپورٹ منسوخ کروا دیا تھا اور فیصل واوڈا نے کوئی جھوٹ نہیں بولا۔
 
چیف الیکشن کمشنر نے دریافت کیا تھا کہ کیا پاسپورٹ منسوخ ہونے کا یہ مطلب ہے کہ شہریت ختم ہو گئی، جس پر ان کے وکیل نے کہا کہ ریٹرننگ افسر کے آرڈر میں لکھا ہے کہ فیصل واوڈا کا غیر ملکی پاسپورٹ منسوخ شدہ تھا۔
 
فیصل واوڈا کا یہ بھی کہنا تھا کہ نادرا دوہری شہریت کے حامل افراد کو نائیکوپ کارڈ جاری کرتا ہے جبکہ انھیں عام شناختی کارڈ جاری کیا گیا۔ انھوں نے کہا تھا ’ایسا کوئی دوہری شہریت والا نہیں ہے، جس کے پاس عام شناختی کارڈ ہو اور دوہری شہریت کا حامل عام شناختی کارڈ رکھنے والا بنک اکاؤنٹ بھی نہیں کھول سکتا۔‘
 
اس معاملے کی سماعت کے دوران ہی جب فیصل واوڈا کو یہ محسوس ہوا کہ اس درخواست پر عدالت شاید ان کے خلاف فیصلہ صادر کر دے، تو اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے انھوں نے گذشتہ سال مارچ میں قومی اسمبلی کی نشست سے استعفی دے دیا تھا اور پھر سندھ سے ایوان بالا یعنی سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے تھے۔
 
استعفیٰ دینے کے بعد فیصل واوڈا کے وکیل نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ کیونکہ اب وہ بطور سینیٹر منتخب ہو گئے ہیں چناچہ دہری شہریت والا کیس اب ان پر لاگو نہیں ہوتا۔
 
تاہم عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ آبزوریشن بھی دی کہ اگر الیکشن کمیشن میں کوئی درخواست زیر سماعت ہے اور اس میں کہیں یہ بات ثابت ہو جائے کہ فیصل واوڈا نے کاغذات نامزدگی میں حقائق کو چھپایا ہے تو الیکشن کمیشن قانون کے مطابق فیصلہ دینے میں آزاد ہے۔
 
الیکشن کمیشن میں جب اس درخواست کی سماعت ہوئی تو درخواست گزاروں کے پاس ایک فوٹو کاپی تھی جوکہ فیصل واوڈا کی دوہری شہریت سے متعلق تھی۔
 
جب الیکشن کمیشن نے درخواست گزاروں سے اس بارے میں اصل دستاویز پیش کرنے کا کہا تو درخواست گزاروں کا مؤقف تھا کہ الیکشن کمیشن وزارت خارجہ یا پھر براہ راست امریکی سفارت خانے سے اس کی تصدیق کروا سکتا ہے تاہم الیکشن کمیشن نے اس پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔
 
image
 
فیصل واوڈا کون ہیں؟
فیصل واوڈا کا شمار کراچی مشہور کاروباری شخصیات میں سے ہوتا ہے وہ اور متعدد کاروبار کرتے ہیں جن میں بیرون ملک سے مہنگی گاڑیوں کی درآمد کا کاروبار بھی شامل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ مہنگی گاڑیاں اور ہیوی بائیک بھی چلانے کا شوق رکھتے ہیں۔
 
فیصل واوڈا سنہ 2011 سے پاکستان تحریک انصاف کے ایک سرگرم کارکن کی حثیت سے اس جماعت کے ساتھ منسلک تھے اور کراچی میں اپنے حلقے میں اس جماعت کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔
 
چونکہ ان کے پاس امریکہ کی شہریت بھی تھی تو اس عرصے کے دوران ان کا امریکہ میں آنا جانا لگا رہتا تھا۔
 
فیصل واوڈا کا نام سنہ 2016 میں اُس وقت سامنے آیا جب قومی احتساب بیورو نے انھیں اثاثوں اور کراچی میں الاٹ کیے پلاٹوں کی چھان بین کے لیے نوٹس جاری کر کے طلب کیا تھا۔
 
پھر سنہ 2018 میں ملک میں ہونے والے عام انتخابات کے دوران پاکستان تحریک انصاف نے انھیں کراچی سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 249 سے ٹکٹ دیا اور انھوں نے اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے صدر میاں شہباز شریف کو چھ سو سے زائد ووٹوں سے ہرایا تھا۔
 
ان انتخابات کے نتائج کے بعد ہی ان کے خلاف درخواست سندھ ہائی کورٹ میں دائر کی گئی تھی جس میں ان پر غیر ملکی اثاثے چھپانے کے علاوہ کاغذات نامزدگی میں حقائق توڑ موڑ کر پیش کرنے کا بھی الزام عائد کیا گیا تھا۔
 
اکتوبر سنہ 2018 میں انھیں وفاقی کابینہ میں شامل کیا گیا اور انھیں آبی وسائل کے بارے میں وزارت کا قلمدان سونپا گیا۔
 
جب نومبر سنہ 2018 میں کراچی میں چینی قونصلیٹ کے باہر دہشت گردی کا واقعہ ہوا تھا تو فیصل واوڈا بلٹ پروف جیکٹ پہنے، ہاتھ میں پستول لیے سکیورٹی فورسز کے ساتھ متاثرہ علاقے میں گھومتے ہوئے دکھائی دیے گئے تھے جس کے بعد ان پر کافی تنقید کی گئی تھی۔
 
فروری 2019 میں جب پاکستانی فضائیہ نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں انڈین طیارہ مار گرایا اور انڈین فضائیہ کے پائلٹ ابھیندن کو گرفتار کیا گیا تو وفاقی وزیر فیصل واوڈا پستول لے کر اس جگہ پر پہنچ گئے جہاں پر انڈین جہاز کا ملبہ پڑا ہوا تھا۔
 
فیصل واوڈا کو سوشل میڈیا پر ایک بار پھر اس وقت سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا جب وہ ایک ٹاک شو میں فوجی بوٹ لے کر آ گئے اور اس کو اپنے سامنے میز پر رکھ کر اپوزیشن جماعتوں پر تنقید کرنے لگے۔
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: