|
|
کیا آپ کے گھر اسکول یا پڑوس میں کوئی کند ذہن، یا ذہنی
پسماندہ بچہ ہے؟ کیا آپ واقعی اس بات کو سمجھنا چاہتے ہیں کہ کند ذہن لوگ
کو کیسے پہچانا جائے؟ اور ان کے ایسے ہونے کے پیچھے کیا عوامل کارفرما ہیں؟ |
|
اگر اس قسم کے بچوں کو معاشرہ سمجھ جائے تو انھیں ایک
اچھا شہری بنایا جاسکتا ہے۔ لیکن اکثر کند ذہن لڑکے لڑکی سے غفلت برتی جاتی
ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ جتنے بھی بچے دماغی لحاظ کمزور ہوں وہ آگے چل کر
بالکل معمولی آدمی ثابت ہوں ۔ |
|
کند ذہنی کئی قسم کی ہوتی ہے۔پیدائش کے وقت دماغ کے کسی
حصے میں چوٹ آجاتی ہے یا پیدائشی طور پر مختلف قسم کے غدود ماغ میں جگہ بنا
لیتے ہیں- بالکل ایسے ہی جیسے جسم کے کسی دوسرے حصہ میں کوئی مسئلہ ہوسکتا
ہے۔ لیکن عموماً ذہنی نقص کی تشخیص نہیں کی جاتی یا تسلیم نہیں کی جاتی۔
ذہنی صلاحیت کم رکھنے والا بچہ ایک پسماندہ ادنیٰ گھرانے کا بھی ہوسکتا ہے
اور ایسے گھرانے کا بھی جس میں تمام لوگ نہایت ذہین ہیں اور اعلیٰ ڈگریاں
رکھتے ہیں۔ |
|
عام طور پر طبی معائنہ سے ان کو پہچانا جاسکتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو
اس حوالے سے باقاعدہ حکومت کی طرف اسکولز میں بچوں کی نفسیات کے ماہر
ڈاکٹروں کی مدد سے کند ذہن بچوں کو پہچانا جاتا ہے اور پھر ان پر محنت اس
طرح سے کی جاتی ہے کہ وہ ملک کی ترقی میں ساتھ دے سکیں- لیکن بدقسمتی سے
پاکستان میں اس حوالے سے کوئی کام حکومتی سطح پر نہیں کیا گیا۔ |
|
|
|
ماہرِ تعلیم کے مطابق کند ذہن بچہ آہستہ آہستہ سیکھتا ہے
وہ دیکھنے سے بالکل نارمل لگتا ہے کیونکہ وہ ٹھیک طریقے سے بول سکتا ہے
لیکن جب وہ کام ٹھیک طریقے سے نہیں کر پاتا اور آس پاس کے لوگ بھی اس کے
مسئلہ کو سمجھ نہیں پاتے تو وہ مایوس ہوجاتا ہے۔ اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے
کہ ایسے بچے جن کے مسلئے کو بچپن میں نہیں سمجھا جاتا بڑے ہو کر بات کرتے
ہوئے گھبراتے ہیں- ان کی خود اعتمادی ختم ہوجاتی ہے اور زبان میں لکنت
آجاتی ہے یا ایسے لوگ تنہائی کا شکار ہوجاتے ہیں اور مختلف نفسیاتی عوارض
انھیں گھیر لیتے ہیں۔ |
|
کم ذہانت کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ایک شخص کامیاب یا خوش
نہیں ہوسکتا۔ ذہنی لحاظ سے کمزور لوگ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ
وہ اسکول میں کم نمبروں سے کامیاب ہوتے ہیں جو کہ غلط ہے۔ ہمارا تعلیمی
نظام بھی اس حوالے سے ایک سوالیہ نشان ہے کہ آخر کس طرز پر بچوں کو تعلیم
دی جارہی اور اس کا پیمانہ کیا ہے۔ لیکن ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ کند ذہن
لوگوں کے خاندانی، معاشرتی، کاروباری معاملات بہتر نہیں ہوتے۔ اس قسم کے
طلبا پر اگر اسکول کی سطح پر توجہ دی جائے تو مسائل پر چھوٹی عمر سے ہی
قابو پایا جاسکتا ہے۔ ان بچوں کو ہجے کرنے اور لفظوں کو سمجھنے میں دیر
لگتی ہے جس سے استاد کا رویہ ان کے ساتھ برا ہوجاتا ہے اور ہم جماعت بھی ان
کا تمسخر اڑانے لگتے ہیں جو کہ غلط ہے ایک چھوٹی سے غلطی کسی بچے کا مستقبل
خراب کر سکتی ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ ایسے بچوں کے لیئے آسان کتابیں ہونی
چاہئیں اور ان کی جماعت الگ کرنی چاہیے اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ کم
تر ہیں بلکہ انھیں دوسرے بچوں کی طرح زندگی کی دوڑ میں شامل کرنا ضروری
ہوتا ہے۔ |
|
اگر کسی کند ذہن بچے کی اچھی تربیت کی جائے تو
وہ بہت فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔ کند ذہن بچے سادہ کام آسانی سے سمجھ لیتے
ہیں اور یہ بھی دیکھا گیا کہ کوئی بھی سادہ کام اگر وہ سیکھ جائیں تو برسوں
اس پر محنت کرتے ہیں اور اچھا ہنر حاصل کرلیتے ہیں جیسے دستکاری وغیرہ۔ |
|
والدین کا کردار بھی اس حوالے سے اہم ہے اگر
گھر میں تین میں سے دو بچے اچھا پڑھ رہے ہیں اور ایک بچہ اچھا رزلٹ نہیں لا
رہا تو لعن طعن کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ اس طرح اس بچے کے بہن بھائی بھی
اس کا مذاق بنانا شروع کردیتے ہیں۔ خاندان کے دوسرے فرد بھی اس کے ساتھ اس
کی تعلیم میں ناقص کارکردگی کو نشانہ بناتے ہیں۔ یوں غیر محسوس طریقے سے اس
بچے کو تنہا کردیا جاتا ہے۔ |
|
|
|
کند ذہن بچے حقیقتاً بصیرت مندانہ اور ماہرانہ
توجہ کے محتاج ہوتے ہیں۔ اور وہ ایسے ماحول کو ترستے ہیں جس میں دوسروں کو
برابر آکر کام کرسکیں۔ انھیں ان کی پڑھائی کے پیمانے سے نا جانچا جائے۔ اگر
ان بچوں کی تربیت پر خاص توجہ دی جائے تو وہ بچے آہستہ آہستہ یہ سیکھ جاتے
ہیں کہ انھیں خود اپنی زندگی کو کس طرح بہتر بنانا ہے۔ سب سے اہم شرط خود
اعتمادی ہے اگر اساتذہ اور والدین ان کی خود اعتمادی پر خاص توجہ دیں تو
یقیناً وہ ایک بہتر زندگی گزار سکتے ہیں دوسری صورت میں ایسے بچے بڑے ہوکر
معاشرے میں ان سے روا رکھے جانے والے سلوک پر اپنوں کو بھی اپنا دشمن
سمجھنے لگتے ہیں اور اکثرغیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث لوگوں کے آلہ کار بن
جاتے ہیں۔ |
|
ایک رویہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جب ایسے
بچے تعلیمی میدان میں کامیابی حاصل نہیں کرپاتے تو اکثر والدین انھیں اسکول
سے ہٹا کر کسی نوکری پر لگا دیتے ہیں یا پھر گھر میں الگ سے ان کی تعلیم کا
انتظام کرتے ہیں یہ رویہ بھی نہایت غلط ہے ایسے بچوں کو دوسرے بچوں اور
اسکول کے ماحول کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔ اسکول کے ماحول اور ڈسپلن سے ان کی
شخصیت میں غیر معمولی بدلاؤ پیدا ہوتا ہے اور وہ گھر میں رہنے کے مقابلے
میں زیادہ بہتر اور تیز رفتار سے دنیا کے ساتھ قدم بقدم چلنے کے قابل
ہوسکتے ہیں۔ |