میڈیا کیا دکھا رہا ہے؟...ایک لمحہ فکریہ

(مولانا محمد حنیف جالندھری جنرل سیکرٹری وفاق المدارس العربیہ پاکستان)
اس وقت دنیا میں تہذیبوں کی جنگ چل رہی ہے-وقت کے ساتھ ساتھ اس جنگ کے ہتھیار,اس کا طریقہ کار اور اس کی حکمت عملی میں بھی تبدیلی ہوتی جا رہی ہے- مغربیت اور اسلام مخالف تہذیب کے علمبردار ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اپنی تہذیب,اپنی ثقافت اور اپنے کلچر کو پروان چڑھانے کے لئے تگ و دو کر رہے ہیں ان کاجو سب سے موثراورسب سے خطرناک ہتھیار ہے وہ میڈیا کا ہتھیار ہے۔۔۔واضح رہے کہ جب ہم میڈیا کا لفظ بولتے ہیں تو بعض لوگ اسے بہت محدود تناظر میں لیتے ہیں جبکہ درحقیقت میڈیا ایک بہت وسیع مفہوم رکھتا ہے-انٹرنیٹ سے وابستہ سوشل میڈیا کی الگ دنیا ہے اور روایتی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی الگ دنیا ہے-ہمیں اپنے دین,اپنی تہذیب,اپنی نسل نو اور اپنے مستقبل کے حوالے سے فکر کرتے ہوئے اور کوئی بھی حکمت عملی تشکیل دیتے ہوئے میڈیا کے تمام پہلوؤں کو سامنے رکھنا ہوگا-ہمارے ہاں علمائکرام اور مذہبی طبقات نیوز چینلز پر تو کسی درجے میں نظر رکھتے ہیں یا ان کی پالیسیوں اور طریقہ کار سے آگاہ ہوتے ہیں لیکن اس کے علاوہ بہت سے ایسے چینلز اور میڈیا کے ایسے پہلو ہیں جن پر سرے سے توجہ ہی نہیں دی جاتی,مانیٹرنگ،خامیوں کی نشاندہی،اصلاح احوال اور خرابیوں کی روک تھام تو دور کی بات-

کچھ عرصے سے مختلف درد دل اور میڈیا پر نظر رکھنے والے احباب کی طرف سے میڈیا پر دکھائے جانے والے مواد کے بارے میں جو ہوشربا تفصیلات سامنے آء ہیں ان کے بارے میں جان کر انسان حیران پریشان ہوجاتا ہے-

مختلف احباب کی طرف سے سامنے آنے والی شکایات اور تفصیلات کی روشنی میں میڈیا کا مختلف زاویوں سے جائزہ لیتے ہیں

1-مختلف ٹی وی چینلز پر چلنے والے ڈراموں کی مثال لے لیجئے ہمارے ہاں ان ڈراموں کوایک فضول اور لایعنی چیز سمجھا جاتا ہے- جب کہ حقیقت یہ ہے کہ بہت بڑی تعداد بالخصوص خواتین ڈراموں کو جس اہتمام,جس انہماک اور جس ذوق و شوق اور سنجیدگی سے دیکھتی اور ان سے اثر لیتی ہیں ان کے بارے میں جو تفصیلات سامنے آئیں وہ میرے لیے حیران کن ہیں-ان ڈراموں کے ذریعے جس طرح کا میٹھا زہر ہماری خواتین اور بچوں کی فکر،نظریے،کلچر،رویوں،فیشن،لباس واطوارمیں گھولا جا رہا ہے اوراس کے جتنے بھیانک اثرات ظاہر ہو رہے ہیں ان کا کبھی سنجیدگی سے جائزہ ہی نہیں لیا گیا-ان ڈراموں کے ذریعے بہت سے دینی احکامات کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ٹارگٹ کیا جاتا ہے-اسلام کے نظام شرم و حیا اور ہماری مشرقی روایات کو ان ڈراموں کے ذریعے رفتہ رفتہ مٹانے کی محنت کی جا رہی ہے-ناجائزپیار محبت اور بے حیائی تو تقریبا سب ڈراموں کا لازمی حصہ ہے لیکن اگر ذرا غور کیا جائے تو کسی ڈرامے میں خونی رشتوں کا تقدس پامال کرنے کی کوشش نظر آئے گی۔۔۔۔۔کسی میں مولوی اور مدرسہ کا کردار متنازعہ بنانے کی کوشش ہوگی۔۔۔۔کسی میں ہم جنس پرستی کو رواج دیا جا رہا ہوگا۔۔۔۔۔کسی میں طلاق اور نکاح جیسے شرعی ضابطوں کو پامال کرنے کی چالبازی ہو رہی ہوگی۔۔۔۔کسی میں دجالی علامات اور مورتیوں کی نمائش کی جارہی ہوگی۔۔۔۔یہ صرف چند چیزیں بطور مثال ذکر کی گئیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ صرف ٹی وی چینلز پر چلنے والے ڈراموں کے معاملیپر مستقل ادارے بنا کرمانیٹرنگ کرنے اور ان ڈراموں کے ذریعے پھیلائے جانے والے سیلاب سے قوم بالخصوص خواتین اور کچے ذہنوں کو بچانے کی ضرورت ہے-
2) دوسرا اہم ترین پہلو بچوں کے لیے بنائی جانے والی سیریز اور کارٹون ہیں- ان سیریز اور کارٹونوں میں جس طریقے سے بچوں کی ذہن سازی کی جاتی ہے۔۔۔۔۔ان میں ہندو ازم کو فروغ دیا جاتا ہے۔۔۔۔۔ان کے عقیدے اور فکر پر حملہ کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔ان کو شروع سے ہی جس قسم کی ثقافت اور کلچر سے روشناس کروایا جاتا ہے۔۔۔ یہ اپنی جگہ الگ سے بہت فکر مندی والا معاملہ ہے۔۔۔۔ مرد حضرات تلاش معاش اور دیگر مسائل میں الجھے ہوتے ہیں جب کہ خواتین گھر کے کام کاج کے ساتھ ساتھ ڈراموں میں منہمک رہتی ہیں جبکہ بچوں کو والدین اپنی سہولت یا ان کی ضد اور اصرار پر موبائلوں،کمپیوٹرز،ٹی وی چینلز اور آلات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیتے ہیں اور یوں خواتین اور بچے اسلام دشمن قوتوں کا سب سے آسان ہدف بن جاتے ہیں اور مغربی تہذیب کے علمبردار عناصر دونوں طبقات پر خوب محنت کرکے انہیں اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش کر رہے ہیں
3) کھیلوں کی تقریبات اور مختلف مقابلے اب محض کھیل نہیں رہے بلکہ ان میں بے حیائی اور مغربیت کا تڑکا لگا کر ان کے ذریعے بھی ہماری مذہبی اور مشرقی روایات کو ہدف بنایا جاتا ہے-اس پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے
4) ویڈیو گیمز: آج کل کے بچے ویڈیو گیمز کے بہت زیادہ شیدائی ہیں اور بہت سے گھرانوں کے بچوں کے بارے میں عجیب عجیب احوال سامنے آتے ہیں-ایسے بچے جنہیں ان گیموں کی لت لگ چکی وہ نماز روزہ تو چھوڑئیے معمول کی زندگی سے محروم ہوچکے اور اپنے گھر والوں کے لئے اجنبی بن چکے ہیں ان گیموں کے ذریعے بچوں کی تعلیم اور صحت ہی نہیں بلکہ ایمان اور عقیدے اور کردار و عمل پر بھی حملہ کیا جاتا ہے-
5) موبائل ایپس...اس وقت بہت سی موبائل ایپس ایسی ہیں جنہیں فتنے کی جڑ قرار دیا جاسکتا ہے, ان ایپس کے ذریعے اور انٹرنیٹ کے ذریعے تو جو کچھ ہو رہا ہے اس کا تصور کرکے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں،انٹرنیٹ پر جس قسم کا مواد موجود ہے اور اس تک ہرکس وناکس کی جس طرح آسان رساء ہے وہ سب سے بڑاچیلنج ہے اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ہمہ جہتی میڈیا وار کے بارے میں خبردار رہا جائے۔۔۔۔ اس کے بارے میں لوگوں میں شعور اجاگر کیاجائے۔۔۔۔علماء کرام لوگوں کی ذہن سازی کریں۔۔۔۔ والدین کو صورتحال کی سنگینی سے آگاہ کیا جائے۔۔۔۔حکومت اور حکومتی اداروں کو جس قدر ممکن ہوسکے اس صورت حال کو کنٹرول کرنے پر آمادہ کیا جائے۔۔۔۔یاد رکھیے اندھیروں کے سامنے ہتھیار ڈال دینا۔۔۔۔اندھیروں سے سمجھوتہ کر لینا۔۔۔۔۔اندھیروں کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لینا عقلمندی نہیں ہوتی بلکہ اپنے اپنے حصے کا چراغ جلانے کی ضرورت ہے

ﷲ رب العزت ہم سب کو اپنے اپنے حصے کا چراغ جلانے کی توفیق عطا فرمائیں- آمین
 

Abdul Quddus Muhammadi
About the Author: Abdul Quddus Muhammadi Read More Articles by Abdul Quddus Muhammadi: 120 Articles with 141993 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.