اس وقت میرا واحد سہارا پاکستان ہے... محبت کی شادی کرنے والی سمیرا انڈیا پہنچی کیسے اور پھر شوہر نے کیوں چھوڑا؟

image
 
’میں نے جو غلطی کی، قانون کی رو سے میں اُس کی سزا بھگت چکی ہوں مگر میرے دکھ اور تکالیف ہیں کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں۔ خاندان والے پہلے ہی قطع تعلق کر چکے تھے مگر اب انڈیا میں موجود خاوند نے بھی منھ موڑ لیا ہے۔ اس وقت میرا واحد سہارا میرا ملک پاکستان ہے۔'
 
انڈیا کی ریاست کرناٹک کے شہر بنگلور کے 'سٹیٹ ہوم فار وومن' میں گذشتہ چھ ماہ سے ملک بدری کا انتظار کرنے والی پاکستانی خاتون سمیرا نے اپنا یہ پیغام اپنی وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن سہانا بسواپٹنا ایڈووکیٹ کی وساطت سے بی بی سی کو پہنچایا ہے۔
 
سمیرا نے اپنی وکیل کی وساطت سے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے حکومت جلد از جلد ان کی انڈین حکومت کو ان کی پاکستانی شہریت کی تصدیق کرے تاکہ وہ اپنی بچی کے ہمراہ وطن واپس لوٹ سکیں۔
 
سہانا بسواپٹنا ایڈووکیٹ بتاتی ہیں کہ مختلف قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے پاکستانی خاتون سمیرا سے اُن کی ملاقات ہوتی رہتی ہیں۔
 
'وہ انتہائی دل برداشتہ ہیں اور اپنی تقریباً چار سال کی بچی، جو کہ اکثر بیمار بھی رہتی ہیں، کے حوالے سے بہت فکر مند ہیں۔'
 
سمیرا کی وکیل کے مطابق انڈیا میں بغیر ویزا داخل ہونے کے جرم میں وہ اب تک لگ بھگ چار سال قید کی سزا کاٹ چکی ہیں اور قید کے ابتدائی دنوں میں ہی جیل میں اُن کی بیٹی پیدا ہوئی تھی، جس کی عمر اب تقریباً چار سال ہے۔
 
سزا مکمل کرنے کے بعد وہ اس وقت ایک ایسے مرکز میں ہیں جہاں اُن غیر ملکیوں کو رکھا جاتا ہے جو اپنے اپنے ممالک ڈی پورٹ ہونے سے قبل قانونی مسائل کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں۔
 
سمیرا کی وکیل کے مطابق پاکستان کی جانب سے تقریباً چھ ماہ سے شہریت کا قانونی تصدیق نامہ حاصل نہ ہونے کے سبب وہ اس حراستی مرکز میں موجود ہیں۔
 
بی بی سی نے پاکستان کی وزارت خارجہ اور دلی میں موجود پاکستانی سفارتخانے کے ترجمان کو سمیرا کے کیس کی تفصیلات حاصل کرنے کے لیے رابطہ کیا مگر تادم تحریر کوئی جواب نہیں ملا۔
 
قطر میں شادی اور انڈیا میں رہائش
 
image
 
سہانا بسواپٹنا ایڈووکیٹ کے مطابق پانچ بھائیوں کی بہن سمیرا کا تعلق پاکستان کے شہر کراچی سے ہے اور ان کے والدین گذشتہ کئی برسوں سے قطر میں روزگار کے لیے مقیم ہیں۔
 
سہانا بسواپٹنا کے مطابق سمیرا کی پیدائش قطر ہی میں ہوئی تھی مگر ان کے اہلخانہ اور اُن کا کراچی اور پاکستان سے ان کا رابطہ کبھی بھی نہیں ٹوٹا تھا۔
 
سمیرا کی وکیل کے مطابق قطر ہی میں سمیرا کا رابطہ انڈیا کے ایک مسلمان نوجوان سے ہوا تھا جو جلد ہی تعلق میں تبدیل ہو گیا اور دونوں نے شادی کا فیصلہ کر لیا۔
 
سہانا بسواپٹنا ایڈووکیٹ بتاتی ہیں کہ سمیرا کے خاندان والوں کو جب پتا چلا کہ سمیرا انڈیا کے نوجوان کے ساتھ شادی کرنے جا رہی ہیں تو انھوں نے نا صرف شادی کی مخالفت کی بلکہ سمیرا کو سختیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر بلآخر سمیرا نے اپنی مرضی سے شادی کر لی۔
 
سہانا بسواپٹنا کے مطابق شادی کے بعد سمیرا اپنے خاوند کے کہنے پر کسی نہ کسی طرح بغیر ویزے کے سنہ 2016 میں انڈیا میں داخل ہو گئیں۔
 
ان کے خاوند پر الزام تھا کہ انھوں نے سمیرا کو بغیر ویزا انڈیا لانے میں سہولت کار کا کردار ادا کیا۔
 
سنہ 2017 کے آخر میں قید ہی کے دوران سمیرا نے بیٹی کو جنم دیا اور کچھ ہی عرصے میں ان کے شوہر کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ سمیرا کی کراچی میں رہنے والی ایک قریبی رشتہ دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سمیرا نے اگلے دو برس جیل میں گزارے۔
 
ان خاتون کے مطابق سمیرا اپنے خاوند سے کہتی تھیں کہ وہ اقرار جرم کر لیتی ہیں مگر وہ (شوہر) اس پر رضامند نہ ہوئے کیونکہ ان کا مؤقف تھا کہ اقرار جرم کرنے کے بعد سمیرا کو ڈی پورٹ کردیا جائے گا جبکہ ان کے شوہر کے مطابق وہ کوشش کر رہے ہیں کہ سمیرا کو نہ صرف رہائی ملے بلکہ انڈیا میں رہائش کی اجازت بھی مل جائے۔
 
رشتہ دار خاتون کے مطابق لگ بھگ دو، تین سال بعد سمیرا کے خاوند نے اچانک ان سے رابطہ کرنا بند کر دیا اور جب سمیرا موبائل پر بھی رابطہ کرتیں تو کوئی جواب موصول نہ ہوتا۔
 
رشتہ دار خاتون کے مطابق خاندان والے تو پہلے ہی ان کو چھوڑ چکے تھے، جبکہ شوہر کی جانب سے رابطہ ختم ہونے کے بعد انھیں کچھ پتا نہ چلتا کہ ان کے کیس کے حوالے سے کیا قانونی کارروائی ہوئی، اور یہ کہ کیس کہاں تک پہنچا۔
 
ایسے میں ایک غیر سرکاری ادارے کے وفد کی نمائندہ کے طور پر سمیرا کا رابطہ سہانا بسواپٹنا ایڈووکیٹ سے ہوا جو انھیں جیل میں ملتی ہیں اور ان کی عدالتی کارروائی کو آگے بڑھا رہی ہیں۔
 
بعدازاں سمیرا نے اقرار جرم کیا جس پر انھیں تین سال کی سزا ہوئی جو وہ پہلے ہی مکمل کر چکی تھیں۔ ان پر عائد کیے گئے جرمانے کی رقم کا انتظام بھی ان کی وکیل نے کیا۔
 
پاکستان واپس آنے میں رکاوٹ
رشتہ دار خاتون کے مطابق جب سمیرا کو معلوم ہو گیا کہ ان کے خاوند ہی کو ان میں کوئی دلچسپی باقی نہیں رہی تو اس نے ڈی پورٹ ہو کر پاکستان پہنچنے کا فیصلہ کیا۔
 
سہانا بسواپٹنا ایڈووکیٹ کا کہنا ہے ہماری ریاست میں موجود کئی اعلیٰ افسران یہ چاہتے ہیں کہ سمیرا کی تکالیف کچھ کم ہوں، اسی لیے کچھ لوگوں نے کئی مراحل طے کرنے میں ذاتی حیثیت میں بہت مدد کی تھی اور اسی وجہ سے سمیرا جیل سے تو چھوٹ گئیں مگر اس وقت تو ایک حراستی مرکز میں ہیں۔
 
سمیرا کے ڈی پورٹ ہونے میں اب واحد رکاوٹ حکومت پاکستان کی جانب سے ان کی پاکستانی شہریت کا سرکاری تصدیق نامہ ہے۔
 
image
 
'سمیرا نئی زندگی شروع کرنا چاہتی ہے'
سہانا بسواپٹنا ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ سمیرا نے جو کیا اس کی سزا بھگت لی اور اب سمیرا کا حق بنتا ہے کہ معاشرہ، سماج، قانون اور ادارے ان کی مدد کریں تاکہ وہ دوبارہ سے اپنی نئی زندگی شروع کر سکیں۔
 
ان کے مطابق سمیرا نے دو مرتبہ دلی میں موجود سفارت خانے سے قونصلر سروس حاصل کی ہے اور سفارت خانے کا رویہ سمیرا کے ساتھ بہت ہمدری والا ہے۔
 
سمیرا کی رشتہ دار خاتون کہتی ہیں کہ جس لڑکی کو اس کے خاندان والے بھول جائیں اور پھر خاوند بھی ساتھ نہ دے، اس کے لیے زندگی آسان نہیں رہتی۔
 
'سمیرا کے پاس اب اپنی بچی کے سوا کچھ نہیں بچا۔ سمیرا اپنی بچی کے لیے ایک نئی زندگی شروع کرنا چاہتی ہے۔'
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: