شہری دفاع کی حقیقت اور اس میں شمولیت

محکمہ شہری دفاع چونکہ مسلح افواج کے بعد ملکی دفاع میں دوسرا اہم ادارہ ہے۔ زمانہ جنگ میں مسلح افواج جب ملکی سرحدوں پر اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھاتی ہے تو شہری دفاع کی تنظیم اندرون ملک‘ شہروں اور دیہاتوں کا دفاع کرنے اور عام شہریوں کو جنگی نقصانات سے ممکن حد تک محفوظ رہنے کے طریقے بتانے کے ساتھ ساتھ ان پر عمل کر کے دکھانے میں بھی بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کی ہنگامہ خیزیوں نے شہری دفاع کی تنظیم کی اہمیت کو مزید اجاگر کر دیا تھا۔ کیونکہ دوران جنگ دشمن کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ افواہیں پھیلا کر اور شہری آبادیوں پر بم برسا کر شہریوں کے حوصلے پست کر دیئے جائیں اور ٹوٹے ہوئے حوصلوں سے عوام اپنی افواج کی پشت مضبوط کرنے کی بجائے اپنی جانوں کی حفاظت کے لیے پریشان ہو جائے اور خود اپنے سائے سے بھی خوف کھانے لگے۔

پی آئی ڈی بی میں انسپکٹر محمد ریاض صاحب سول ڈیفنس کے کورس کروانے کے لیے آتے تھے۔ PIDBمیں سول ڈیفنس کورسز کے اہتمام کی ذمہ داری میرے سپرد تھی ۔اس لیے میری محمد ریاض صاحب سے خاصی دوستی ہو گئی۔ تربیت کے دوران اور اس کے بعد بھی ان سے سول ڈیفنس سے متعلقہ کئی امور پر گفتگو چلتی رہتی‘ اس دوران میں ان سے باقاعدہ رہنمائی بھی حاصل کرتا۔ ملک و قوم کی خدمت اور وردی پہننے کا شوق مجھے عملی طور پر سول ڈیفنس تنظیم میں کھینچ لایا۔ میری رہائش کے بارے میں جان کر انہوں نے مجھے سول لائنز ڈویژن (جس میں میرا رہائشی علاقہ آتا تھا) کے چیف وارڈن محمد نسیم صاحب کو ملنے کے لیے کہا لیکن میں ابھی ان معاملات میں اجنبی تھا اس لیے اکیلا کوئی قدم اٹھانے کی بجائے ریاض صاحب کی رہنمائی کا طالب تھا۔ ایک دن وہ مجھے مزنگ اڈہ چوک واقع میں سول ڈیفنس کے دفتر میں لے گئے یہاں پر میری ملاقات خواجہ صاحب سے ہوئی جو چیف وارڈن تو نہیں تھے لیکن سول ڈیفنس کے امور انہی کے سپرد تھے۔ کچھ دیر تک ان سے گفتگو ہوتی رہی انہوں نے میرے جذبوں کو مزید جلا بخشی۔ چنانچہ چند دنوں بعد ایک بار پھر ریاض صاحب کے ساتھ مزنگ اڈے سول ڈیفنس کے دفتر آیا تو محمد نسیم چیف وارڈن‘ سول لائنز ڈویژن اپنی کرسی پر براجمان دکھائی دیئے۔ دیکھنے کو تو یہ بھی خاصی عمر کے انسان تھے۔ جسم اور قد کاٹھ بھی قابل قدر تھا لیکن آواز ضرورت سے زیادہ بھاری تھی‘ گفتگو کرتے ہوئے وہ خاصی مشکل میں لگتے۔ انہوں نے مجھ سے انٹرویو لیا اور میرے جذبہ حب الوطنی کو مزید گرمایا۔ انہوں نے کہا یہ ضروری نہیں کہ فوج میں رہ کر ہی ملک کے دفاع میں کردار ادا کیا جا سکتا ہے بلکہ انسان جس بھی محاذ پر موجود ہو اگر وہ خلوص نیت سے اپنے فرائض انجام دے تو بلاشبہ اس کا کردار ملک و قوم کے حوالے سے قابل قدر سمجھا جاتا ہے۔ شہری دفاع تو عملی طور پر اندرونی دفاع میں حصہ لینے کا نام ہے اس میں ہتھیاروں کی بجائے نفسیاتی حربوں سے دشمن کا مقابلہ کیا جاتا ہے۔

میری یہ خواہش تھی کہ اپنے محلے قربان لائن میں ایسی مضبوط اور توانا شہری دفاع کی تنظیم بناؤں جو مستقبل میں کسی بھی جنگ کے موقع پر موثر کردار ادا کر سکے۔دفاعی میدان میں مسلح افواج کا ہاتھ بٹانے کے ساتھ ساتھ عوام الناس کی بھی حفاظت کر سکے اس علاقے میں پہلے شہری دفاع کی کوئی تنظیم موجود نہ تھی۔ اس لیے میاں وسیم الرحمن کو سیکٹر وارڈن کے طور پر منتخب کیا گیا۔ ان کے انتخاب کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک مالدار انسان تھے۔ میکلوڈ روڈ لاہور پر میاں آٹو کے نام ان کی ایک دوکان تھی‘ بلکہ وہ سارا پلازا ہی ان کی ملکیت تھا‘ شہری دفاع میں ہر وہ شخص بڑا عہدہ حاصل کر سکتا ہے۔ جو بے دریغ پیسہ خرچ کرنے کی استطاعت رکھتا ہے‘ کیونکہ یہ وہ واحد محکمہ ہے‘ جس میں نہ تنخواہ ملتی ہے‘ نہ وردی ملتی ہے اور نہ ہی اپنے دفاع کے لیے کوئی حفاظتی ہتھیار۔ ضرورت کی ہر چیز خود ذاتی جیب سے خریدنی پڑتی ہے اس مقصد کے لیے جو فنڈ حکومت کی جانب سے ہر سال شہری دفاع تنظیم کو ملتے ہیں‘ وہ بڑے بڑے عہدوں پر براجمان افسر ہی ہڑپ کر جاتے ہیں۔ رضاکاروں کے لیے صرف چکنی چوپڑی باتیں اور جھوٹی تسلیاں ہی رہ جاتی ہیں۔

میاں وسیم کے ماتحت وارڈن کی پوسٹ اور ڈپٹی پوسٹ وارڈن کے عہدے خالی تھے۔ جن پر تقرری ہونا باقی تھیں۔ پوسٹ وارڈن کی پوسٹ تو میں نے اس لیے پسند نہ کی کہ اس میں ذمہ داری بہت زیادہ تھیں جبکہ ڈپٹی پوسٹ وارڈن کی پوسٹ پر میں نے اپنی تقرری کروا لی اور پوسٹ وارڈن کے لیے بستی سیدن شاہ کے کونسلر خورشید عالم یا صوفی عبدالمجید کا نام تجویز کر دیا۔ یہ دونوں اصحاب حقیقت میں اس پوسٹ پر تقرری میں دلچسپی رکھتے تھے چنانچہ دونوں کو میاں وسیم الرحمن نے اپنی کوٹھی پر بلالیا ۔ بالآخر صوفی مجید کا انتخاب بطور پوسٹ وارڈن عمل میں آیا۔ اس کی قائدانہ صلاحیتوں کے ہم پہلے ہی معترف تھے۔ بہرکیف بازار سے کپڑا خرید کر وردی سلوائی گئی‘ ٹوپی ، بیلٹ اور بیجز وغیرہ لنڈے بازار سے خریدے گئے۔ اس طرح میں مکمل طور پر ڈپٹی پوسٹ وارڈن بننے کے لیے تیار ہو گیا۔ جب تربیت کا مرحلہ آیا تو بستی سیدن شاہ میں پہلا تربیتی پروگرام صوفی مجید کی زیر سرپرستی شروع ہوا۔ میں بھی ڈپٹی پوسٹ وارڈن کی حیثیت سے وہاں موجود تھا۔ ان جوانوں میں دیگر لوگوں کے علاوہ محمد الطاف بھی شامل تھا جو ان دنوں یونین کونسل کا ناظم ہے۔ آٹھ دس جوان شہری دفاع کی تنظیم کی تربیت حاصل کر رہے تھے چونکہ دوسرا کورس میرے علاقے قربان لائن میں متوقع تھا اس لیے میں نے محمد اشفاق‘ محمد ادریس‘ شوکت حسین‘ بابر علی‘ چھوٹا بھائی محمد اشرف خان‘ محمد اسد‘ محمد خالد‘ محمد حسین اور دیگر نوجوانوں کو اس بات پر متفق کر لیا کہ وہ شہری دفاع میں بھرپور شرکت کے لیے تربیت حاصل کریں ۔ ایک ایسا لڑکا گلزار بھی ہمیں مل گیا جو پہلے سے محکمہ پولیس میں بطور کانسٹیبل کا م کر رہا تھا۔ میرے پاس جتنے بھی لڑکے تھے۔ وہ سب صحت مند اور گھبرو جوان تھے اور وردیوں کو اہتمام سے پہننے کا انہیں خوب ڈھنگ آتا تھا اس لیے جب بھی ہمیں کہیں وردی پہن کر جانا پڑتا تو میرا ہر اول دستہ قابل دید ہوتا۔

یوں بھی سول ڈیفنس کی سال میں تین تقریبات منعقد ہوتی تھیں۔ 23مارچ‘ 14اگست اور 6ستمبر‘ ان تاریخوں میں ٹاؤن ہال میں ایک پروقار تقریب منعقد ہوتی جس میں چیف سیکرٹری‘ صوبائی وزیر یا صوبائی گورنر میں سے کوئی ایک شریک ہوتا اور ڈیفنس کے چاک و چوبند دستے سے سلامی لے کر پرچم کشائی کرتا۔ جب ہم سب پہلی تقریب میں شرکت کے لیے بڑے زور شور سے گئے تو وہاں پہنچ کر ہمیں احساس ہوا کہ یہ بھی تنظیم کاغذی ہے اور اس شعبے میں تنظیم نام کی کوئی چیز نہیں‘ صرف خانہ پری ہی کی جاتی ہے۔ میں نے اپنے لڑکوں کی حاضری لگوائی اور قطار میں کھڑے ہو گئے تاکہ مہمان خصوصی کے استقبال کے لیے تیاری کی جا سکے۔ مہمان خصوصی کے آنے کے بعد نصف گھنٹے میں تقریب اختتام کو پہنچ گئی اور ہم سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس آ گئے۔ لڑکوں کے لیے وردیوں‘ بوٹوں اور شناختی کارڈوں کا معاملہ جب درپیش ہوا تو مزید احساس ہوا کہ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ہر کام میں رشوت چل رہی ہے۔ حالانکہ ہم تو بغیر کسی معاوضے کے گھر سے وردی سلوا کر قوم کی خدمت کرنے کے لیے نکلے تھے لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹا تھا۔ اصولاً تو شہری دفاع کے محکمے کو ہمارے ناز اور نخرے اٹھانے چاہئیں تھے کہ ہم انہیں بغیر کسی معاوضے کے اپنا وقت اور خدمات فراہم کر رہے ہیں لیکن وہ لوگ بجائے ہماری عزت کرنے کے ہم سے رشوت طلب کرتے تھے۔

ایک مرتبہ دریائے راوی میں تیراکی کی مشقوں کا اہتمام کیا گیا۔ شہری دفاع کی ساری تنظیموں کو اس مظاہرے میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ میں بھی اپنے علاقے کی نمائندگی کرتے ہوئے وہاں پہنچ گیا۔ اس وقت دریا میں شدید طغیانی آئی ہوئی تھی جبکہ پانی کی سطح پل سے دو تین فٹ نیچے تھی ان حالات میں ہم دریا میں جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ میں تو لاہور شہر سے گزرنے والی چھوٹی نہر میں کبھی نہیں نہایا ۔ اس لیے میں نے اس کام سے معذرت ہی کر لی۔ کیونکہ اگر ہم دریا میں چھلانگ لگا دیتے تو دوسرے دن اخبارات میں یہ خبر ضرور چھپتی کہ ایک سول ڈیفنس آفیسر دریا کی تند و تیز لہروں کا مقابلہ کرتے ہوئے خالق حقیقی سے جا ملا اور مفت میں شہری دفاع کو بھی ایک شہید مل جاتا چنانچہ میں کنارے پر کھڑا ہو کر تیرنے والوں کا نظارہ کرتا رہا۔

اسی اثناء ڈرموں کی ایک کشتی بنائی گئی جس پر سول لائن ڈویژن کے خواجہ صاحب کے علاوہ چند اور افراد بھی سوار تھے۔ وہ کشتی پانی کی طاقت سے بے قابو ہو کر نظروں سے اوجھل ہوتی جا رہی تھی وہاں موجود سب کو فکر لاحق ہوئی جبکہ کشتی پر سوار شہری دفاع کے افسروں نے بھی جان بچانے کے لیے چیخ وپکار شروع کر دی تو انہیں بچانے کے لیے فوجی جوانوں کو طلب کرنا پڑا۔ یہ اس تنظیم کا حال تھا‘ جس کا کام جنگ اور امن کے دوران عوام الناس کا تحفظ کرنا تھا۔ اس نے عوام کا تحفظ کیا کرنا تھا‘ وہ تو خود فوج کی مدد کی محتاج تھی۔

انہی دنوں شہر لاہور میں بے تحاشا چوریاں ہونے لگیں‘ رات کے وقت ہتھوڑا گروپ کی وارداتوں کا ذکر اکثر ہونے لگا۔ انسانوں کے سر ہتھوڑے سے کچلے جانے لگے‘ گھروں کے تالے ٹوٹنے لگے تو حکومت نے پولیس کی مدد کے لیے سول ڈیفنس کی تنظیم کو بھی استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ انہی دنوں اخبار میں بھی ایک انوکھا واقعہ اشاعت پذیر ہوا کہ سول ڈیفنس کے رضاکاروں نے ایک ڈاکو کو پکڑا اور تھانے میں جمع کروا دیا۔ ابھی رضاکار ڈاکو کو تھانے چھوڑ کر گھر بھی نہیں پہنچے تھے کہ پولیس والوں نے رشوت لے کر ڈاکو کو چھوڑ دیا اور وہ رضاکاروں سے پہلے اپنے علاقے میں پہنچ گیا۔ یہ واقعہ خصوصاً میرے لیے بہت تشویش ناک تھا کیونکہ مجھے خود سے زیادہ اپنے رضاکاروں کا خیال تھا۔ میں نے میٹنگ بلوائی اور حکومت کا یہ آرڈر ان کے سامنے رکھا کہ ہم لوگ رات کے وقت اپنے اپنے ماتحت علاقے میں ڈنڈا ہاتھ میں لے کر گشت کیا کریں تاکہ عوام کی جان و مال کی حفاظت ہو سکے۔ سب سے پہلے میٹنگ میں یہ بات سامنے آئی کہ صرف ڈنڈے سے نہ ڈاکوؤں کو پکڑا جا سکتا ہے اور نہ ہی چوروں کو خوفزدہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر اس حالت میں کسی چور کو للکارا بھی جائے تو ہو سکتا ہے کہ شہری دفاع کا رضاکار اپنی جان ہی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ دوسری جانب یہ خدشات موجود تھے کہ اگر ہم جان پر کھیل کر کسی کو چوری کرتے ہوئے پکڑ بھی لیتے ہیں تو پھر کیا ضمانت ہے کہ پولیس انہیں رشوت لے کر چھوڑ نہیں دے گی؟ محلے میں رہنے کی بناء پر ہمیں ان تمام لوگوں کے بارے میں علم تھا جو چوری اور ڈکیتیوں میں ملوث تھے لیکن ہم نے تو اسی محلے میں رہنا تھا اگر ہم حکومت کے کہنے پر ان کی دشمنی مول لے بھی لیں تو ہمیں اس کے عوض کیا ملے گا ۔صرف پستول کا لائسنس‘ رضاکار جان سے جائے اور حکومت اسے یاد ماضی سمجھ کر بھول جائے۔ میں نے تو حکومتی آرڈر پر عمل کرنے سے صاف انکار کر دیا اور عذر یہ پیش کیا کہ میں نے لوگوں کے بچے نہیں مروانے۔ سارا دن محنت مزدوری کر کے شام کو سونے کی بجائے ہاتھ میں ڈنڈا لے کر محلے کے چکر لگاتے پھریں۔ پھر ڈاکوؤں کے ہاتھوں شہید ہو جائیں۔

بہرکیف ان واقعات کے بعد مجھ پر سول ڈیفنس تنظیم کی اصلیت بھی کھل گئی۔ اس لیے میں نے اس سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا۔ یہاں میں بتاتا چلوں کہ لاہور میں صرف میاں عبدالمجید اور شیر محمد کی تنظیم کسی حد تک منظم تھی۔ باقی تمام جگہوں پر فرضی لوگ ہی اکٹھے کیے جاتے تھے اور سچ تو یہ ہے کہ شہری دفاع کی تنظیم کے احباب اختیار کو ملک و قوم کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں تھی وہ تو صرف سرکاری پیسے ہڑپ کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہاں یہ بات ملحوظ خاصر رہے کہ حکومت ہر سال کروڑوں روپے سول ڈیفنس تنظیم کو منظم کرنے کے لیے خرچ کر رہی ہے اور یہ ساری رقم اس ادارے کے افسر ہی مراعات اور تنخواہوں کی صورت میں آپس میں بانٹ لیتے ہیں۔ پھر اس تنظیم کے رضاکاران کو جدید تقاضوں کے مطابق تربیت اور سہولتوں سے آراستہ کرنے کی بجائے دوسری جنگ عظیم میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ 1971ء کے بعد کوئی جنگ نہیں ہوئی وگرنہ اندرونی دفاع کی ضامن شہری دفاع تنظیم کی کارکردگی کا پول کھل جاتا۔ اب بھی شہر میں کسی جگہ گیس کا سلنڈر پھٹ جاتا ہے تو سول ڈیفنس کے اہلکاروں کو پتہ نہیں ہوتا کہ اس گیس کے نقصانات کیا ہیں اور اس سے کیسے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔

گڑھی شاہو میں المونیا گیس کا سلنڈر جب پھٹا تو بہت سے لوگ اس کا شکار ہوئے پولیس سمیت کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے انہیں کیا کرنا ہے۔ اس سانحے کے دوران شہری دفاع کی تنظیم تو نظر بھی نہیں آئی۔ یہاں بھی فوج نے آکر صورت حال کو کنٹرول کیا۔ اگر سارے کام فوج نے ہی کرنے ہیں‘ تو پھر دوسرے سرکاری ادارے بنانے کا کیا فائدہ۔ شہری دفاع سمیت تمام سرکاری ادارے صرف تنخواہیں وصول کرنے اور مراعات حاصل کرنے کے لیے ہی رہ گئے ہیں اور ان کا کوئی کام نہیں۔ بہرکیف اس تحریر کے حوالے سے میری گزارش یہ ہے کہ سول ڈیفنس تنظیم کو اس حد تک منظم اور بااختیار بنایا جائے کہ وہ دوران جنگ عوام کی مناسب رہنمائی کر سکے وگرنہ اس پر کروڑوں روپے خرچ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔( یاد رہے کہ یہ تحریر 1990ء کے زمانے میں لکھی گئی ہے اسی تناظر میں پڑھا جائے)

 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 667300 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.