زہے عزوجلال ابوترابی فخرانسانی * ولی حق وصی مصطفیﷺ
دریائے فیضانی
علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ مشکل کشائی ،شیریزدانی * امام دوجہانی قبلۂ دینی
وایمانی
خلیفۂ چہارم ،حیدرکرار،شیریزدان،ابوتراب وابوالحسن،پروردہ ٔ آغوشِ رسالت
مآب ﷺ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ علومِ ظاہری وباطنی کامنبع ہیں۔آپ
غریق بحربلا،مقتدائے جملہ اولیاء واصفیاء،آپ کی شان اورمرتبہ بے
حدبلندہے۔آپ طریقت میں شان ِعظیم اورمقام ارفع کے مالک ہیں۔آپ رضی اللہ
عنہ اہل ِطریقت کے امام ہیں۔اہل شریعت وطریقت آپ کی اتباع کرتے ہیں۔حضرت
علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ رشتہ میں حضورنبی کریم ﷺکے چچازادبھائی ہیں اوردین
اسلام قبول کرنے والے اولین لوگوں میں سے ہیں۔آپ رضی اللہ عنہ نے جب اسلام
قبول کیااس وقت آپ رضی اللہ عنہ کی عمرمبارک محض آٹھ/ دس برس تھی۔آپ رضی
اللہ عنہ نے سایہ رسول اللہ ﷺمیں پرورش پائی اوراخلاق وعادات میں نبی کریم
ﷺ کاپرتوتھے۔
جس کی قوت دین اسلام کی طاقت ٹھہری * وہ علی جس کی رضا میں حق کی مشیت
ٹھہری
ولادت :حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی ولادت عام الفیل کے تیس برس بعد
۱۳،رجب المرجب کوخانہ کعبہ میں ہوئی جبکہ حضورنبی کریم ﷺکی ولادت باسعادت
عام الفیل کے برس ہوئی چنانچہ اس اعتبارسے آپ حضورنبی کریم ﷺ سے تیس برس
چھوٹے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کااسم مبارک ’’علی‘‘ حضورنبی کریم ﷺ نے
رکھااورآپ کے منہ میں لعاب ِ دہن ڈالا۔حضورنبی کریم ﷺ نے جب اعلان نبوت
کیااس وقت آپ کی عمرمبارک صرف دس برس تھی۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی
رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ کی پیدائش خانہ کعبہ
میں ہوئی اوریہ آپ کی بزرگی کی علامت ہے اوریہ شرف کسی اورکوحاصل نہیں
ہوا۔
نام ونسب:آپ رضی اللہ عنہ
کانام’’علی‘‘اورلقب’’حیدرکرار‘‘ہے۔کنیت’’ابوالحسن‘‘ اور ’’ابوتراب ‘‘
ہے۔آپ کے والدکانام ابوطالب ہے ۔والدہ کانام حضرت فاطمہ بن اسد رضی اللہ
عنہاہے۔آپ حضورنبی کریم ﷺ کے چچازادبھائی ہیں۔ آپ کودامادمصطفیٰ ﷺ ہونے
کاشرف بھی حاصل ہے۔ (سیرت حضرت علی رضی اللہ عنہ)
قبول اسلام:حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نوعمرلوگوں میں سب سے پہلے اسلام
سے مشرف ہوئے۔اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے
رسالہ ’’تنزیہ المکانۃ الحیدریہ ‘‘میں تحریرفرماتے ہیں کہ بوقت اسلام آپ
کی عمرآٹھ دس سال تھی۔آپ کے اسلام قبول کرنے کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت علی
رضی اللہ عنہ چونکہ نبی کریم ﷺ کے زیرسایہ پرورش پارہے تھے اس لئے آپ نے
جب حضور نبی کریم ﷺاورام المومنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ
عنہاکورات میں نمازپڑھتے ہوئےدیکھا۔ جب نمازسے فارغ ہوگئے توحضرت علی رضی
اللہ عنہ نے آقائے کریم سے عرض کیاکہ آپ لوگ یہ کیاکررہے تھے؟نبی کریم ﷺ
نے فرمایاکہ یہ اللہ تعالیٰ کاایسادین ہے جس کواس نے اپنے لئے منتخب کیاہے
اوراسی کی تبلیغ واشاعت کے لئے اپنے رسول کوبھیجاہے۔لہٰذامیں تم کوبھی ایسے
معبودکی طرف بلاتاہوں جواکیلاہے اس کاکوئی شریک نہیں۔اورمیں تم کواسی کی
عبادت کاحکم دیتاہوں۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے کہاکہ جب تک میں
اپنے باپ ابوطالب سے دریافت نہ کرلوں اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں
کرسکتا۔چونکہ اس وقت حضورﷺ کورازکافاش ہونامنظورنہ تھااس لئے آپ نے
فرمایااے علی! اگرتم اسلام نہیں لاتے ہوتوابھی اس معاملہ کوپوشیدہ رکھوکسی
پرظاہرنہ کرو۔حضرت علی رضی اللہ عنہ اگرچہ اس وقت رات میں ایمان نہیں لائے
مگراللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں ایمان کوراسخ کردیاتھادوسرے روزصبح ہوتے
ہی حضورﷺکی خدمت میں حاضرہوئے اورآپ کی پیش کی ہوئی ساری باتوں کوقبول
کرلیااوراسلام لے آئے۔(خطبات محرم)
فضائل: حضرت علی مرتضٰی رضی اللہ عنہ کے فضائل ومناقب کے بارے میں
متعدداحادیث مبارکہ واردہوئی ہیں بلکہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں
کہ جتنی حدیثیں آپ کی فضیلت میں ہیں کسی اورصحابی کی فضیلت میں اتنی
حدیثیں نہیں ہیں۔ چنداحایث ملاحظہ کریں:ترمذی شریف میں ام المومنین حضرت ام
سلمہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے فرماتی ہیں نبی کریم ﷺ نے فرمایا :کہ منافق
،علی سے محبت نہیں رکھتااورمومن ،علی سے بغض نہیں رکھتا۔آقائے کریم نے ایک
موقع پرفرمایاجس نے علی سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اورجس نے مجھ سے
محبت کی اس نے اللہ سے محبت کی اورجس نے علی سے دشمنی مول لی اس نے مجھ سے
دشمنی مول لی اورجس نے مجھ سے دشمنی مول لی اس نے اللہ سے دشمنی مول
لی(تاریخ الخلفا ص۲۴۵)حاکم کی روایت ہے کہ آقا نے فرمایاکہ جس نے علی
کوبُراکہابلاشبہ اس نے مجھے براکہااورمیں علم کاشہرہوں اورعلی شہرکادروازہ
ہے۔حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ
نے فرمایاکہ تمام لوگ مختلف درختوں کی شاخیں ہیں جبکہ میں اورعلی ایک ہی
درخت کی شاخیں ہیں۔حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی
کریم ﷺ نے فرمایاعلی کودیکھنابھی عبادت ہے۔آقائے کریم نے حضرت علی مرتضٰی
کے متعلق فرمایاتومیراہے اورمیں تیراہوں۔
حضورنبی کریم ﷺ نے اپنی بعثت کے تین برس تک خفیہ تبلیغ کی اوراس دوران کئی
لوگ مسلمان ہوئے۔نبوت کے چوتھے برس اللہ عزوجل نے حضورنبی کریم ﷺ کوحکم
دیاکہ آپ اب اعلانیہ تبلیغ کریں اورسب سے پہلے اپنے نزدیکی رشتہ داروں
کواسلام کی دعوت دیں ۔حضورﷺ نے اعلانیہ دعوت دیتے ہوئے قریش کوکوہِ صفاسے
پکارااے میری قوم ! اگرمیں تم سے کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے دشمن کاایک
لشکرموجودہے اورتم پرحملہ کرنے کوتیارہے توکیاتم میری بات کایقین کرلوگے؟
سب نے کہاں ہاں !ہم یقین کرلیں گے ،کیونکہ ہم نے تمہیں سچااورامانت
دارپایاہے۔حضورنبی کریم ﷺ نے فرمایامیں تمہیں اللہ عزوجل کے عذاب سے
ڈراتاہوں اوردعوت حق دیتاہوں اگرتم لوگ ایمان لائے توفلاح پاؤگے
اوراگرایمان نہ لائے توعذابِ خداوندی کے حقدارہوگے۔حضورنبی کریمﷺ کی بات سن
کرقریش غصے میں آگئے اورآپ ﷺ کا چچاابولہب لوگوں کو بھڑکاکرواپس
لےگیاچنانچہ اس موقع پرسورہ لہب نازل ہوئی اورابولہب کے جہنمی ہونے کی
بشارت دی گئی۔(تاریخ ابن خلدون ج،۱،ص۴۳،تاریخ طبری ج،۲،حصہ اول،ص،۷۰،بحوالہ
سیرت پاک حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ)
حضورنبی کریم ﷺ نے قریش کے یوں لوٹنے کے بعدحضرت علی مرتضٰی رضی اللہ عنہ
سے فرمایاکہ اس شخص نے جلدی کی،اس کے بعدآقائے کریم نے حضرت علی رضی اللہ
عنہ سے اولادعبدالمطلب کی دعوت کرائی ،اس دعوت میں تقریباچالیس افرادشریک
ہوئے،پہلے دن دعوت طعام کے بعدسارے لوگ چلے گئے اوردعوت حق کاموقع نہ مل
سکاپھردوسرے دن ان افرادکی دعوت کاانتظام حضرت علی رضی اللہ عنہ نےکیاجس
میں میرے آقانے فرمایاکہ تمہارے سامنے دنیاوآخرت کی بہترین نعمت پیش
کرتاہوں تم میں کون میراساتھ دے گااورمیرامددگاربنے گا؟تین مرتبہ لوگوں
کومخاطب کرتے ہوئے فرمایاتھااس موقع پرحضرت علی مرتضیٰ کے علاوہ کسی نے بھی
لبیک نہیں کہاتھا،اس محفل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیاتھامیں
اگرچہ چھوٹااورکمزورہوں مگرمیں آپ کاساتھ دوں گااورتازندگی آپ کامحافظ
بنوں گا۔تب آقانے فرمایااے علی تم میرے وارث اوربھائی ہو۔(ایضا)
شجاعت :حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت وبہادری شہرۂ آفاق ہے،عرب وعجم
میں آپ کی قوت بازو کے سکے بیٹھے ہوئے ہیں،آپ کے رعب ودبدبہ سے آج بھی
بڑے بڑے پہلوانوں کے دل کانپ جاتے ہیں۔جنگ تبوک کے موقع پرسرکاراقدس ﷺ نے
آپ کومدینہ طیبہ پراپنانائب مقررفرمادیاتھااس لئے اس میں حاضر نہ ہوسکے
باقی تمام غزوات وجہادمیں شریک ہوکربڑی جانبازی کے ساتھ کفارکامقابلہ
کیااوربڑے بڑے بہادروں کواپنی تلوارسے موت کے گھاٹ اتاردیا۔
شاہ ِ مرداں شیریزداں قوت پروردگار * لافتیٰ الَّاعَلِیْ لاسَیْفَ الاَّ
ذُوالفِقَار
جنگ بدرمیں جب حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے اسودبن عبدالاسدمخزومی کوکاٹ
کرجہنم میں پہنچایاتواس کے بعدکافروں کے لشکرکاسردارعتبہ بن ربیعہ اپنے
بھائی شیبہ بن ربیعہ اوراپنے بیٹے ولیدبن عتبہ کوساتھ لے کرمیدان میں
نکلااورچلاکرکہاکہ اے محمد!(ﷺ)اشراف قریش میں سے ہمارے جوڑکے آدمی بھیجئے۔
حضور نے یہ سن کرفرمایااے بنی ہاشم ! اٹھواورحق کی حمایت میں لڑوجس کےساتھ
اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کوبھیجاہے۔حضورکے اس فرمان کوسن کرحضرت
حمزہ،حضرت علی اورحضرت عبیدہ رضی اللہ عنہم دشمن کی طرف برھے۔لشکرکے
سردارعتبہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے مقابل ہوااورذلت کے ساتھ
ماراگیا۔ولیدجسے اپنی بہادری پربہت بڑانازتھاوہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے
مقابلہ کے لئے مست ہاتھی کی طرح جھومتاہواآگے بڑھااورڈینگیں مارتاہواآپ
پرحملہ کیامگرشیرخداعلی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے تھوڑی ہی دیرمیں
اسے مارگرایااورذوالفقارحیدری نے اس کے گھمنڈ کوخاک وخون میں ملادیا۔اس کے
بعدآپ نے دیکھاکہ عتبہ کے بھائی شیبہ نے حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ کوزخمی
کردیاہے توآپ نے جھپٹ کر اس پر حملہ کیااوراسے بھی جہنم میں پہنچادیا۔جنگ
احدمیں جس وقت مسلمان کفارومشرکین کے بیچ میں آگئے تھے اورآقائے کریم ﷺ
بھی ان کے درمیان تھے تواسی درمیان کفارنے یہ اعلان کردیاکہ مسلمانو!
تمہارے نبی قتل کردیئے گئے ہیں اس اعلان کوسنناتھاکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ
نے تلوارلیکرایساسخت حملہ کیاکہ کفاربیچ میں سے ہٹتے گئے اورآپ نے رسول
اللہ ﷺ کودیکھ لیاتواس وقت آپ کی خوشی کی کوئی انتہانہ رہی۔فرماتے ہیں کہ
میں دوڑ کرحضور ﷺ کے پاس جاکرکھڑاہواکفارگروہ درگروہ حضورپرحملہ کرنے کے
لئے آنے لگے۔آپ نے فرمایا:علی ! ان کوروکو،توحضرت علی نے تن تنہاان سب
کامقابلہ کیااوران کے منہ پھیردیئے اورکئی ایک کوقتل بھی کیا۔جب ایک دوسرے
گروہ نے آقاپرحملہ کیاتوآپ ان پرٹوٹ پڑے اوراکیلے ہی اس گروہ کامقابلہ
کیااس کے بعدحضرت جبریل نے آکرحضورسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بہادری
اورمددکی تعریف کی تواس موقع پرنبی کریم ﷺ نے فرمایابے شک علی مجھ سے ہیں
اورمیں علی سے ہوں،اس فرمان کوسن کرحضرت جبریل نے عرض کیااورمیں آپ دونوں
سے ہوں۔جنگ احدمیں نبی کریم ﷺ کوجب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نہیں
پایاتوآپ کاشہیدہوجانے کی نیت سے کافروں کے جتھے میں تنہاگھس
جانااورحضورپرحملہ کرنے والے گروہ درگروہ سے اکیلے مقابلہ کرناآپ کی بے
مثال بہادری اورانتہائی دلیری کی خبردیتاہےساتھ ہی حضورﷺ سے آپ کے عشق
اورسچی محبت کابھی پتہ دیتاہے۔اسی طرح جنگ خیبرکے موقع پربھی حضرت علی رضی
اللہ عنہ نے شجاعت اوربہادری کے وہ جوہردکھائے ہیں جس کاذکرہمیشہ باقی رہے
گااورلوگوں کے دلوں میں جوش وولولہ پیداکرتارہے گا۔(تاریخ الخلفا ،ص۱۱۴
بحوالہ خطبات محرم ص ۱۹۵)
شہادت:حضر ت علی رضی اللہ عنہ ۱۷،رمضان المبارک ۴۰ھ کوعلی الصبح
بیدارہوکرنمازپڑھانے کے لئے گھرسے چلے ،راستے میں لوگوں کونمازکے لئے
آوازدے کرجگاتے جاتے تھے کہ اتنے میں ابن ملجم آپ کے سامنے آگیااوراس نے
اچانک آپ پرتلوارکابھرپوروارکردیا ،واراتناسخت تھاکہ آپ کی پیشانی کنپٹی
تک کٹ گئی اورتلواردماغ پرجاکرٹھہری۔شمشیر لگتے ہی آپ نے فرمایا:فُزْتُ
بِرَبِّ الْکَعْبَۃِ یعنی رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔آپ کے زخمی
ہوتے ہی چاروں طرف سے لوگ دوڑ پڑے اورقاتل کوپکڑلیا۔(ایضا)
درسِ ہدایت:دورِ حاضر کے نوجوانوں کے لئے حضرت مولیٰ علی مشکل کشا رضی اللہ
عنہ کی زندگی مشعلِ راہ ہے۔غوروفکرکرنے کی بات ہے کہ جس وقت بچے آٹھ دس
سال کی عمرکے ہوتے ہیں توانہیں اپنی کوئی فکر نہیں ہوتی لیکن قربان جائیں
شیرخدارضی اللہ عنہ کی ہمت پرکہ آٹھ برس کی عمرمیں آبا واجدادسے ہٹ کرنبی
کریم پرایمان لے آئے اورجس محفل میں اشراف قریش نے رسول اللہ ﷺ کی دعوت حق
کونہ ماناتھااس وقت بھی تن تنہاحضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے تین مرتبہ
کہاتھامیں آپ کاساتھ دینے کودل وجان سے تیارہوں۔اس کے بعدسے زندگی
بھراورآنے والی کئی نسلوں کواپنے وعدے کے مطابق دین اسلام کی آبیاری کے
لئے قربان کردیا۔شب ہجرت بسترمرگ پربلاخوف وخطرچین وسکون کے ساتھ سوئے رہے
۔اورکفارکے دفاع کے لئے جتنی بھی جنگیں واقع ہوئی ہیں ان میں میرے مولیٰ
مشکل کشا بہادری وشجاعت کے ساتھ دشمن اسلام کو واصل نارکرتے نظرآتے ہیں۔اس
پرفتن دورمیں مسلم نوجوان شریعت مطہرہ سے بالکل کورے ہیں۔ان کے اندرخوف
وہراس نے بھیانک جگہ بنالی ہے۔ نماز،روزے،عبادت وریاضت سے کوسوں دورنظرآتے
ہیں۔ ایسے پرآشوب زمانہ میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب اس ذات کی شجاعت
وبہادری کے قصے اپنے جوانوں کوسنائیں ۔اوران کویہ ہدایت دی جائے کہ موبائل
پرسیریل دیکھنے کے بجائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے وہ احوال پڑھیں کہ آپ
غزوات میں ہزاروں دشمن اسلام کے بالمقابل ڈٹ جایاکرتے اوراللہ ورسول کے کرم
سے فتحیاب ہواکرتے تھے۔ جتنے بھی معرکے اسلام اورکفرکے درمیان واقع ہوئے ان
کاخلاصہ پڑھنے سے ہمارے جوانوں کے اندرکی بزدلی ختم ہوجائے گی۔ آج کے جس
خطرناک دورمیں ہم سب سانس لے رہے ہیں یہ ایساخطرناک زمانہ ہے جس میں اسلام
اورمسلمانوں کے خلاف غلط پروپیگنڈے تیار کئے جارہے ہیں۔ اورہم وطن امن
پسندجوانوں کے اندربغض وعداوت اورنفرت کاایسابیج بویاجارہاہے جو کسی سے بھی
پوشیدہ نہیں ہے۔عصرحاضرکے جوانوں سے گزارش یہی ہے کہ خداکے واسطے اپنی
جوانی کوفحش ناولوں،لٹریچروں اورگندی فلموں میں ضائع نہ کریں۔بلکہ اللہ
عزوجل کاخوف دل میں بسائیں اورآقائے کریم ﷺ کی سچی محبت والفت کادرس لیں۔
اس کے لئے صحابۂ کرام کی نایاب زندگی کامطالعہ کریں۔ حضرت مولیٰ علی رضی
اللہ عنہ کی زندگی کاسنہراباب جو صفحہ قرطاس پرمحفوظ ہے یہ عشق رسول کادرس
دے رہاہے۔ اوراس پرفتن زمانے میں ہمت وشجاعت اوربہادری کاسبق پڑھارہاہے
۔آج بھی اگرکوئی ماں یہ چاہتی ہوکہ میرابچہ بزدل نہ ہوبلکہ جواں مرد،بہادر
پیداہو تواس کوحضرت علی رضی اللہ عنہ کی زندگی کوپڑھناچاہیے جس وقت وہ
امیدسے ہو۔آج ہمارے بچوں اورجوانوں کے اندربزدلی اس لئے آرہی ہے کہ یہ سب
اسلاف کی زندگی سے واقف نہیں ہیں۔ ضرورت ہے کہ ہم صحابہ کرام رضوان اللہ
علیہم اجمعین کی سوانح حیات کوپڑھیں اوران کی شجاعت وبہادری کودیکھ کراپنے
اندرہمت وحوصلہ پیداکریں۔ اوراللہ عزوجل اوراپنے آقا ﷺ کے فرامین پردل سے
عمل کریں۔بزدلی ،خوف وہراس،اورناامیدی کوختم کردیں۔ یقین جانیں کہ اللہ کی
جانب سے فتح ونصرت ہمیں ملتی رہے گی۔اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعاہے کہ
مولیٰ تعالیٰ ہم سب کودونوں جہان کی سعادتوں سے مشرف فرمائے۔
|