علمی لیاقت اور عملی طاقت کا زُعم !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالزُمر ، اٰیت 49 تا 52 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
فاذا
مس الانسان
ضردعانا ثم اذا
خولنٰه نعمة منا قال
انما اوتیتتهٗ علٰی علم بل
ھی فتنة ولٰکن اکثرھم لایعلمون
49 قد قالھاالذین من قبلھم فما اغنٰی
عنھم ماکانوایکسبون 50 فاصابھم سیئاٰت
ماکسبواوالذین ظلموامن ھٰؤلاء سیصیبھم سیئاٰت
ماکسبواوماھم بمعجزین 51 اولم یعلمواان اللہ یبسط
الرزق لمن یشاء ویقدر ان فی ذٰلک لاٰیٰت لقوم یؤمنون 52
انسان اپنی عادات کے اعتبار سے کُچھ ایسا تُھڑ دِلا واقع ہوا ہے کہ جب اِس پر کوئی مُشکل آتی ہے تو وہ اُس مُشکل میں ہمیں بار بار پُکارتا ہے لیکن جب ہم اُس کی اُس مُشکل کو ٹال کر اُس کو نہال کر دیتے ہیں تو کہتا ہے کہ مُجھے تو یہ خوش حالی اپنی علمی لیاقت اور اپنی عملی طاقت سے حاصل ہوئی ہے کیونکہ اکثر انسان ایسے ناشکرے ہیں کہ وہ یہ بھی نہیں سمجھتے کہ اُن کو جو آسائش دی گئی ہے وہ اُن کی اسی کم ظرفی و عالی ظرفی کی ایک آزمائش ہے جس میں اکثر انسان کم ظرفی کا مظاہرہ کر کے خود کو خود ہی اُس آسائش سے محروم کرنے کے لیۓ کمر بستہ ہو جاتے ہیں ہے ، اَمرِ واقعہ یہ ہے کہ انسانی آسائش کی اصل حقیقت تو وہ آزمائش ہے جس آزمائش سے گزرنے والے جن پہلے لوگوں نے ہماری ناشکری کی ہے تو اُن کا مال اُن کی مُشکل کو نہیں ٹال سکا ہے اور اُن کے بعد جو لوگ ہماری نا شکری کریں گے تو اُن کا مال بھی اُن کی مُشکل کو نہیں ٹال سکے گا اور جس طرح پہلے لوگوں نے اپنی ناشکری کے نتائج بُھگتے ہیں اسی طرح اُن کے بعد آنے والے لوگوں نے بھی اپنی ناشکری کے وہی نتائج بُھگتنے ہوں گے کیونکہ اللہ کی کوئی عاجز مخلوق اپنے کسی بھی طرزِ عمل سے اللہ کے نافذ هونے والے فیصلوں کو نہیں ٹال سکتی ، جہاں تک انسان کے رزق کا تعلق ہے تو اللہ نے انسان کے رزق کو انسان کی محنت کے ساتھ وابستہ کیا ہوا ہے ، اللہ کے اِس قانُون کے مطابق جو انسان جتنی زیادہ محنت کرتا ہے اللہ اُس کا رزق اتنا ہی زیادہ کر دیتا ہے اور اللہ کے اِس قانون کے مطابق جو انسان جتنی کم محنت کرتا ہے تو اللہ اُس کی کم محنت کے مطابق اُس کا رزق بھی کم کردیتا ہے ، غور کرو تو اہلِ ایمان کے لیۓ حصولِ رزق کے اِس طریقے میں بھی بہت سی سبق آموز نشانیاں موجُود ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سے قبل اِس سُورت کی اٰیت 8 اور 9 میں بھی انسانی آزمائش و آسائش کا یہی فکر انگیز مضمون بیان ہوا تھا اور اُن پہلی اٰیات کے بعد اِس سُورت کی اِن دُوسری اٰیات میں بھی انسانی آزمائش و آسائش کا وہی فکر انگیز مضمون بیان ہوا ہے ، اِس سُورت کی اُن پہلی اٰیات کے اُس پہلے فکر انگیز مضمون کا ماحصل یہ تھا کہ انسان کی آزمائش و آسائش کے درمیان ایک چیز انسان کی خواہش و طلب اور دُوسری چیز انسان کی محنت و لگن ہوتی ہے اور انسانی جماعت کے جو اَفراد تُھڑ دلے اور پست ہمت ہوتے ہیں وہ زندگی میں آنے والی اُس آزمائشی مُدت کے دوران محنت و لگن کو بُھول کر صرف دُعاؤں و التجاؤں میں لگے رہتے ہیں کیونکہ وہ یہ بات بالکُل ہی بُھول جاتے ہیں کہ ایک سردی کے مارے ہوۓ انسان کے لیۓ ایک خالی چُولہا ہی حرارت کا مُوجب نہیں ہوتا بلکہ اُس چولہے میں لَکڑی کا ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہوتا ہے جتنا کہ اُس چُولہے کا ہونا ضروری ہوتا ہے لیکن یہ تُھڑ دلے لوگ سردی میں اپنے جسم کو مطلوبہ حرارت پُہنچانے کے لیۓ اُس خالی چُولہے کو تو ایک حرارت طلب اُمید کے ساتھ دیکھتے رہتے ہیں لیکن لَکڑی کے حصول کا وہ محنت طلب کام نہیں کرتے جو اِس چُولہے میں ڈلنے کے بعد حرارت کا مُوجب بنتی ہے بخلاف اِس کے کہ انسانی جماعت کے جو لوگ عالی ہمت لوگ ہوتے ہیں وہ آزمائش اور آسائش کی اُس درمیانی مُدت میں اللہ تعالٰی سے ہمت و توفیق کی دُعا و التجا کے ساتھ اپنی مطلوبہ عقل و فکر کے مطابق پُوری عالی ہمتی کے ساتھ وہ مطلوبہ محنت بھی کرتے رہتے ہیں جو اُن کو آزمائش کے اُس بُرے وقت سے نکال کر آسائش کے اُس اَچھے وقت میں لے جاتی ہے جو اُن کے فکر و خیال میں موجُود ہوتا ہے اور جب یہ عالی ہمت لوگ اپنی اُس آزمائش سے گزر کر اپنی مطلوبہ آسائش تک پُہنچ جاتے ہیں تو وہ اللہ تعالٰی کا شکر ادا کرتے ہیں کیونکہ اِن کو اِس بات کا یقین ہوتا ہے کہ اُن کی اِس کامیابی میں اصل چیز اُن کی محنت و لگن نہیں ہے بلکہ اصل چیز اللہ تعالٰی کی عطا کی ہوئی وہ توفیق ہے جس توفیق نے اُن کو اُس محنت پر آمادہ کیا ہے جو محنت اُن کی اُس آسائش کا باعث بنی ہے اور اللہ تعالٰی کی اُس توفیقی محنت و لگن کے بعد بھی وہ اللہ تعالٰی کی مہربانی کی بدولت ہی آزمائش کے اُس مقام سے گزر کر آسائش کے اِس مقام تک پُہنچے ہیں جو اِس وقت اور اِس مقام پر اُن کو حاصل ہوئی ہے ، اِس سُورت کی اُن سابقہ اٰیات کے اُس سابقہ فکر انگیز مضمون کے بعد موجُودہ اٰیات کے اِس موجُودہ فکر انگیز مضمون میں اِس حقیقت کی نشاندہی کی گئی ہے کہ اِن عالی ہمت اور شکر گزار لوگوں کے برعکس پست ہمت اور ناشکرے لوگوں کا اَحوال یہ ہے کہ جب اِن پر آزمائش کی کوئی مُشکل گھڑی آتی ہے تو یہ لوگ بھی اپنے پیروں فقیروں اور اپنے پنڈتوں اور پروہتوں کے بجاۓ اللہ تعالٰی ہی کو پُکارتے ہیں لیکن جب اللہ تعالٰی اِن کی اِس راحت گریز آزمائش کو ایک راحت آمیز آسائش میں بدل دیتا ہے تو یہ نا شکرے لوگ اللہ تعالٰی کا شکر ادا کرنے کے بجاۓ اپنی اُس آسائش کو اپنی علمی لیاقت اور اپنی عملی طاقت کا نتیجہ قرار دے کر ایک ناشکری کے بعد ایک اُس دُوسری ناشکری کا ارتکاب کرتے ہیں جو ناشکری ایک وقتی و لمحاتی غلطی کی حد تک تو اللہ کے رحم و کرم کے باعث اکثر مواقع پر قابلِ معافی ہی ہوتی اور قابلِ معافی ہی رہتی ہے لیکن جب انسان کے اِس ناشکرے پن کی عادت انسان کو اپنی پرستشِ ذات کا عادی بنا کر ایک مُشرک انسان بنا دیتی ہے تو اُس وقت انسان کی یہ مُشرکانہ خُو اللہ تعالٰی کی اُس سزا کا باعث بن جاتی ہے جو اللہ تعالٰی کے قانون کے مطابق پہلے زمانے کے مجرموں کو بھی ہمیشہ ملتی رہی ہے اور آنے والے زمانے کے مجرموں کو بھی ملتی رہے گی ، اِس کلام کا نتیجہِ کلام یہ ہے کہ انسان کو آزمائش کی اُس بُری گھڑی سے گزر کر آسائش کی ایک اَچھی گھڑی میں جانے کے لیۓ صرف زبانی دُعا کی ضرورت ہی نہیں ہوتی بلکہ اُس زبانی دُعا کے ساتھ ساتھ اُس عملی دَوا کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو عملی دوا اُس کی کم ہمتی کو اُس کی عالی ہمتی میں بدل کر اُس کی آزمائش کو اُس کی آسائش بناتی ہے کیونکہ قُدرت کاقانون ہمیشہ سے ہمیشہ کے لیۓ یہی ہے کہ ؏

صرف چُولہا حرارت کا مُوجب نہیں

شرط یہ ہے کہ چُولہے میں لَکڑی بھی ہو
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 461094 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More