اللہ کا ارشاد ہے:
فَانۡکِحُوۡا مَا طَابَ لَکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ
ان عورتوں سے نکاح کرو جوتمہیں پسند آئیں. (نساء /3)
اے لڑکے لڑکیو!
شکر کریں جی کہ اللہ نے تمہیں پسند کی شادی کا حکم دے کر آپ مردوں اور
خواتین پر احسان عظیم کیا۔
جب کسی لڑکے کا لڑکی پر یا لڑکی کا لڑکے پر دل آجائے اور وہ ایک دوسرے کو
چاہنے لگیں تو اس کا حل شادی کے علاوہ کچھ نہيں.
میری نہیں تو رسول اللہ کی ہی سن لیں
رسول اللہ نے فرمایا:
لَمْ نَرَ لِلْمُتَحَابَّيْنِ مِثْلَ النِّكَاحِ.
ترجمہ:
دو محبت کرنے والوں کے لیے، ہم نکاح کی مثل کچھ نہیں دیکھتے،
(سنن ابن ماجہ/کتاب النکاح 1847 )
یہ بات ذہن میں رکھ لیں،
یہاں پر لفظ ” متحابین ” تثنیہ اورجمع دونوں کا احتمال رکھتا ہے ، اور اسکا
معنی ہوگا:
اگرمحبت دو(لڑکا لڑکی) کے درمیان ہو تو نکاح جیسے رشتہ کے علاوہ ان کے
درمیان کوئی اور رشتہ دائمی قرب و محبت کا نہیں ہوسکتا ، اس لیے اگر اس
محبت کے ساتھ ان کے مابین نکاح ہو تو یہ محبت ہر دن بڑھتی رہے گی.
اچھا یار:
اگر کوئی لڑکی اپنے شوہر نامدار کو پسند نہیں فرماتی تو بھی اس لیے ہمارے
ہاں گنجائش ہو یا نہ ہو، مگر رسول اللہ کے پاس بہترین حل ہے. ذرا حدیث کا
ترجمہ ملاحظہ کیجے:
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں،
جمیلہ بنت سلول رضی اللہ عنہا،
نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس
آ کر عرض کیا:
اللہ کی قسم میں ( اپنے شوہر ) ثابت پر کسی دینی و اخلاقی خرابی سے غصہ
نہیں کر رہی ہوں، لیکن میں مسلمان ہو کر کفر ( شوہر کی ناشکری ) کو ناپسند
کرتی ہوں، میں ان کے ساتھ نہیں رہ پاؤں گی کیونکہ شکل و صورت سے وہ مجھے
ناپسند ہیں،
تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: کیا ان کا دیا ہوا (حق
مہر) باغ واپس لوٹا دو گی ؟ انہوں نے کہا: ہاں میں لوٹا دوں گی،( بلکہ ایک
روایت میں ہے کہ اس سے بھی زیادہ لوٹا دوں گی،)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت کو حکم دیا کہ اپنی بیوی جمیلہ سے اپنا باغ
لے لیں، اور زیادہ نہ لیں (اور اسے آزاد کر دیں)(سنن ابن ماجہ، حدیث
نمبر_2056)
ویسے اگر لڑکا لڑکا کا ایک دوسرے پر دل نہیں آیا البتہ وہ Love میریج کے
بجائے ارینجڈ میرج کرنا چاہتے ہیں تو لڑکا لڑکی نکاح سے پہلے ضرور دیکھ لیا
کریں. ورنا پھر لینے کے دینے بھی پڑ سکتے ہیں.
چلیں یارا رسول اللہ کیا فرماتے ہیں سن لیں.
ترجمہ حدیث :
مغیرہ بن شعبہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور میں نے آپ سے
ذکر کیا کہ میں ایک عورت کو پیغام دے رہا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: جاؤ اسے
دیکھ لو، اس سے تم دونوں میں محبت زیادہ ہونے کی امید ہے ، چناچہ میں ایک
انصاری عورت کے پاس آیا، اور اس کے ماں باپ کے ذریعہ سے اسے پیغام دیا، اور
نبی اکرم ﷺ کا فرمان سنایا، لیکن ایسا معلوم ہوا کہ ان کو یہ بات پسند نہیں
آئی، اس عورت نے پردہ سے یہ بات سنی تو کہا: اگر رسول اللہ ﷺ نے دیکھنے کا
حکم دیا ہے، تو تم دیکھ لو، ورنہ میں تم کو اللہ کا واسطہ دلاتی ہوں، گویا
کہ اس نے اس چیز کو بہت بڑا سمجھا، مغیرہ ؓ کہتے ہیں: میں نے اس عورت کو
دیکھا، اور اس سے شادی کرلی، پھر انہوں نے اپنی باہمی موافقت اور ہم آہنگی
کا حال بتایا۔ (یعنی وہ اس شادی سے بہت خوش تھے، آپس میں انکی باہمی محبت
تھی)
سنن الترمذی)
ویسے فقہ اسلامی بھی لڑکے اور لڑکی کی مکمل اجازت، رضا اور اوکے رپورٹ کے
بغیر نکاح کے عدم انعقاد کی ہی بات کرتا ہے. فقہ کی جزئیات میں جانے سے بات
لمبی ہوجائے گی. پہلے سے بحث طول پکڑ رہی ہے.
ہاں یاد آیا:
فیڈرل شریعت کورٹ نے سن انیس سو اکیاسی میں قرار دیا تھا کہ ایک عاقل اور
بالغ مسلمان عورت کو ایک عاقل اور بالغ مرد سے شادی کے لئے کسی ولی کی
اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔
اب اس سب کے باوجود بھی آپ ویلینٹائن ڈے کی مخالفت یا آڑ میں اسلام کو ہی
مسخ کرنا چاہتے ہیں تو یہ دل گردہ اکیسویں کا متقی مسلمان یا مسلم سماج کا
ہی ہوسکتا ہے.دراصل یہ آپ کی اسلام یا تعلیمات الہی و سنت نبوی صل اللہ
علیہ وسلم سے محبت نہیں، اپنے من کی بات ہے اپنی خواہشات کی تکمیل ہے. ان
کے لیے آپ نے لبادہ اسلام کا اوڑھا ہوتا ہے. مجھے امید ہے آپ اپنے کرتوت
چھپانے کے لئے اسلام کو معاف فرمائیں گے.
ہمارے متشدد مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ نکاح جیسے مقدس عمل کو مشکل بنائیں
گے اور نکاح کے باب میں قرآن، حدیث، سیرت الرسول، فقہ اسلامی اور ملکی
عدالتوں کے فیصلوں کا تو اپنے ایک ایک عمل سے سینہ تان کر مخالفت کریں گے
لیکن جب بات آتی ہے ویلنٹائن ڈے کی تو اپنے اندر کی خباثت باہر نکال لیں گے
اور ایسے پارسا بنیں گے کہ بندہ دودھ پتی چاہیے پی کر، دھاڑیں مار مار کر
ہنستا چلا جائے..
اوہو پاجی!
ذرا سی غیرت اور دین کا پاس ہے تو نکاح کی راہ میں رسم و رواج کے نام پر
رکاوٹیں مت ڈال، آسان بنا، تو مسلم سماج سے ویلنٹائن جیسے خرافات خود بخود
ختم ہوجائیں گی. بصورت دیگر آپ کے خرافات سے ویلنٹائن ڈے کو مزید تقویت ملے
گی.
مجھے بتائیں! اسلام اسلام کا رٹ لگانے والے کتنے ہیں جو قرآن و حدیث اور
سنت رسول پر عمل کرتے ہوئے اپنے بیٹے بیٹیوں کو پسند کی شادی کی اجازت دیتے
ہیں؟ کتنے ہیں جو نکاح سے پہلے بحکم رسول اللہ کتنے ایک نظر دیکھنے کی
اجازت دیتے ہیں؟ کتنے ہیں جو بہم بیٹے کو شوہرنامدار کے مظالم سے چھڑانے کے
لیے سنت اور قانون پر عمل کرتے ہیں؟ یا پھر یہ کہتے ہیں کہ اس گھر سے آپ
نہیں آپ کی لاش آنی چاہیے؟ اور کتنے ہیں جو بالغ لڑکا لڑکی کے ولی کی اجازت
کے بغیر نکاح کرنے سے ان کو قبولتے ہیں؟ ویلنٹائن جیسی خرافات کی مخالفت سے
پہلے اپنی گریبان میں جھانک لیں. ان شاء اللہ کافی افاقہ ہوگا.
آپ کا حق یہ ہے کہ آپ مذکورہ فرامین و احکام پر بلا چوں و چراں عمل کریں
اور اگر کوئی مخالفت کرے تو اس کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہوجائے اور ہاں
کوئی اپنے دین، کلچر یا روایات کے مطابق ویلنٹائن ڈے کے ذریعے اپنی زندگی
آگے بڑھانا چاہتا ہے تو ان کا حق تسلیم کرکے انہیں لتاڑنے کی بجائے جینے
دیں.
ہاں اگر آپ کا تقوی زور کرے تو حکمت اور مواعظ حسنہ کے ذریعے شادی و نکاح
کے اسلامی احکام ان کو سنا دیں اور بس... اس سے آگے آپ کا کام ختم ہوجاتا
ہے..
احباب کیا کہتے ہیں؟
|