کیا کامیابی یہی ہے ؟

ہجرت ایک مقدس چیز ہے۔ مادی مفادات کے تحفظ کے لیے دارالاسلام سے دارالکفر میں جا بسنا اور پھر ان کی وفاداری کی قسم اٹھا کر ان کے طور طریقوں کو اپنانا کہاں کی دانشمندی ہے؟

وہ ایک نہایت ذہین ،زیرک اور زبردست صلاحیتوں کا حامل نوجوان تھا ۔۔۔گو کہ زبان کا تیز تھا مگر دل کا انتہائ نرم۔۔۔اپنے حق کیلئے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتا تھا۔۔۔کرکٹ کیساتھ ساتھ وہ دیگر کھیلوں میں بھی دوستوں میں اپنا ایک مقام رکھتا تھا۔۔۔آج بھی اسکا امتحان میں اپنے حاصل کردہ نمبروں کیلئے استاد سے بحث کرنا اور اپنا مطلوبہ نتیجہ حاصل کرنے کیلئے انکو قائل کرلینا آنکھوں کے سامنے دن کی روشنی کی طرح عیاں ہے۔پڑھائ کا انتہائ شوقین اور زندگی کے مقصد کو پانے کی اسکی جدوجہد بہت سے لوگوں کو اپنی زندگی کے مقاصد طے کرنے میں معاون ثابت ہوتی تھی۔ اپنے ماں باپ کی آنکھوں کا وہ تارا تھا۔انکو اس سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں جب کبھی اس کی والدہ سے ملاقات ہوتی انکی باتوں سے یہ ظاہر ہوتا کہ انہوں نے اس کیلئے کئ خواب دیکھ رکھے ہیں۔

اپنے ہم جماعتوں میں اسکا شمار ایک لائق فائق طالبعلم کی حیثیت سے ہوتا تھا۔۔۔زندگی کے بہترین دنوں میں وہ ساتھ رہا ہے۔اپنی زندگی کی منازل کو وہ فرد بہت بہترین انداز میں عبور کررہا تھا۔۔

ایک دن اچانک اسکی زندگی نے رخ بدلا اور وہ سب چھوڑ چھاڑ بیرون ملک اپنے خاندان کے ساتھ"بہتر مستقبل"کی خاطر منتقل ہوگیا۔زندگی کے رنگ بھی بڑے نرالے ہیں بہت کچھ انسان سوچتا نہیں اور وہ ہوجاتا اور جس چیز کے حوالے سے ذہن ہر وقت سوچتا ہے وہ بس سمٹ کر ذہن میں ہی رہ جاتا ہے۔

زندگی میں جس چیز کوبھی اس نے چنا اسکو بہت شدت سے نبھایا پھر چاہے وہ دوستی ہو یا زندگی کا کوئ اور پہلو ہو۔۔۔ زندگی کی مصروفیات کے باعث بات چیت ایک وقت پر آکر نہ ہونے کے برابر ہوگئ۔

وقت تھا گزرتا گیا۔۔ایک دن خبر آئ کہ اس نے اپنے آپ کو ایک کمرے میں بند کرلیا ہے۔۔ بال بڑھا لئے ہیں۔۔دن بھر اسی کمرے میں رہتا ہے لوگوں سے ملنا جلنا اس نے تقریبا ختم کر دیا ہے۔۔والدین سے گفتگو بھی نہ ہونے کے برابر کرتا ہے۔۔ذہنی حالت یہ ہے کے بھائیوں میں سب سے بڑا ہونے کے باوجود کسی بھی قسم کی ذمے داری لینے کو تیار نہیں۔۔یہ سن کر ایک دھچکا لگا یوں لگا جیسے وہ انسان اپنی زندگی کی دوڑ میں جسکا وہ ہمیشہ خود ہی فاتح رہا ہے۔۔۔ہار گیا ہو۔۔ کیا زندگی اس طرح بھی بدلہ لیتی ہے ؟ اس کے خواب چکنا چور ہوگئے آج اسکے والدین آنکھوں میں نمی لیے اس کو زندگی میں واپس آتا دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔

آج وہ اپنی صلاحیتوں سے یکسر محروم ہوگیا۔۔اس مغربی معاشرے کے وہ اثرات اس پر مرتب ہوئے جس نے اسکی شخصیت سے لے کر اسکی ذات کے ہر پہلو کو بہت بری طرح متاثر کیا۔۔ایک مضبوط شخصیت کا یوں ٹکڑے ٹکڑے ہوجانا دل کو اداس کرجاتا ہے اور ذہن میں یہ سوالات ابھر کر آجاتے ہیں!

کیا جس "بہتر مستقبل" کو پانے کیلئے وہ اور اسکا خاندان نکلا وہ انکو حاصل ہو گیا ؟

کیا اس "بہتر مستقبل" کی قیمت ان کے بیٹے کی زندگی ہے ؟

کیا کامیاب مستقبل کی ضمانت اپنے وطن کو چھوڑ غیر ممالک میں جا بسنا ہے ؟

 

Syed Mansoor Hussain
About the Author: Syed Mansoor Hussain Read More Articles by Syed Mansoor Hussain: 32 Articles with 23154 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.