#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالزُمر ، اٰیت 53 تا 63
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
قل
یٰعبادی الذین
اسرفوا علٰی انفسھم
لا تقنطوا من رحمة اللہ
ان اللہ یغفرالذنوب جمیعا
انهٗ ھوالغفوررحیم 53 وانیبوا
الٰی ربکم وسلموالهٗ من قبل ان یاتیکم
العذاب ثم لاتنصرون 54 واتبعوااحسن ما
انزل الیکم من ربکم من قبل ان یاتیکم العذاب
بغتة وانتم لاتشعرون 55 ان تقول نفس یٰحسرتٰی
علٰی مافرطت فی جنب اللہ وان کنت لمن المسٰخرین
56 اوتقول لوان اللہ ھدٰنی لکنت من المتقین 57 اوتقول
حین تری العذاب لوان لی کرة فاکون من المحسنین 58 بلیٰ
قد جاءتک اٰیٰتی فکذبت بہا واستکبرت وکنت من الکٰفرین 59
ویوم القیٰمة تری الذین کذبوا علی اللہ وجوھھم مسودة الیس فی
جھنم مثوی للمتکبرین 60 وینجی اللہ الذین اتقوابمافزتھم لایمسھم
السوء ولا ھم یحزنون 61 اللہ خالق کل شئی وھو علٰی کل شئی وکیل 62
لهٗ مقالید السمٰوٰت والارض والذین کفرواباٰیٰت اللہ اولٰئک ھم الخٰسرون 63
اے ہمارے رسُول ! ہمارے جن بندوں کی جانیں جبرِ حالات کا شکار ہوکر آس سے
بے آس ہو چکی ہیں تو آپ ہمارے اُن تمام بندوں کو ہمارا یہ پیغام سنادیں کہ
وہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں کیونکہ زمان و مکان کی ہر ایک تحقیق سے
اِس اَمر کی تصدیق ہوچکی ہے کہ اللہ اپنے رحم و کرم کی بنا پر اپنے تمام
بندوں کی تمام خطاؤں کا پردہ پوش ہے ، اگر تُم جبرِ حالات کی اِس اذیت سے
بچنا چاہتے ہو تو تُم اِس بُری سزا سے زیادہ بُری سزا سے پہلے فورا ہی اپنے
رَب کے اَحکامِ نازلہ کے سامنے جُھک جاؤ تاکہ تُم پر کوئ ناگہانی عذاب آنے
سے پہلے ہی تُمہارے لیۓ تُمہارے رَب کی وہ فوری مدد آجاۓ جو اُس کے اَحکام
کی اتباع کے ایک لازمی نتیجے کے طور پر ہمیشہ ہی آتی رہتی ہے اور تُم یہ
بات بھی یاد رکھو کہ اِس وقت تُم میں اپنے رَب کی اِس مدد سے محروم رہ کر
اِس اَمر پر افسوس کرنے والا کوئ ایسا شخص نہیں رہنا چاہیۓ کہ جو بعد از
وقت یہ کہے کہ میں حق قبول کرنے کے وقت حق کا انکار کرتا رہا اور اَب وہ
وقت آگیا جب حق قبول کرنے کا وقت ہی میرے ہاتھ سے نکل گیا ہے کیونکہ جو شخص
اپنی کُھلی آنکھوں سے عذاب کا وہ ہولناک لَمحہ دیکھے گا تو وہ ضرور یہی کہے
گا ، کاش کہ میری زندگی کا یہ لَمحہ میرے ماضی میں لوٹ جاۓ اور میں ایک بار
پھر اپنے ماضی سے نکل کر اُن لوگوں کے ساتھ شاملِ حال ہو کر واپس یہاں پر
آجاؤں جہاں پر انسان کو سزا کے بجاۓ جزا سے نوازا جا رہا ہے لیکن اُس وقت
اُس حسرت کرنے والے شخص کو یہ جواب دیا جاۓ کہ ہم تو تُم پر اپنی کتابِ حق
کے قابلِ فہم اَحکام پیش کر تے رہے ہیں اور تُم اپنے تکبر کی بنا پر ہمارے
اُن اَحکام کو رَد کرتے رہے ہو یہاں تک کہ آج تُمہاری سزا کا یہ لَمحہ
تُمہارے سر پر پُہنچ گیا ہے ، جب قیامت کا وہ لَمحہ تُمہارے سامنے آۓ گا تو
تُم دیکھو گے کہ جو لوگ دُنیا میں اللہ کے اَحکامِ نازلہ کو جُھٹلاتے تھے
تو اُس روز اُن کے چہرے ذلت کی سیاہی سے سیاہ ہوجائیں گے اور اُن کا یہ
باطل خیال بھی باطل ہو جاۓ گا کہ اُن کا ٹھکانا جہنم نہیں ہے اور اُس روز
وہاں پر وہی لوگ انعام و اکرام کے حق دار ہوں گے جو اللہ کے اَحکامِ نازلہ
کے تابع دار ہوں گے کیونکہ جس اللہ نے یہ عالَم بنایا ہے اُسی اللہ نے اپنے
اِس عالَم کے لیۓ وہ اَحکامِ نازلہ بناۓ ہیں جو اُس نے اپنی اِس تنزیل میں
درج فرماۓ ہوۓ ہیں اور وہ اللہ جس طرح اِس عالَم اور اِس عالم کی ہر ایک
چیز کا احاطہ کیۓ ہوۓ ہے اسی طرح اُس حاکم کے یہ سارے اَحکام بھی اِس عالَم
اور اِس عالَم کی ہر ایک چیز کا احاطہ کیۓ ہوۓ ہیں ، زمین و آسمان کے سارے
خزانے اُسی کے قبضے میں ہیں ، زمین و آسمان کی ہر اقلید و ہرکلید بھی اُسی
کے قبضے میں ہے اور جو لوگ اِس دُنیا میں اُس کے اِن اَحکامِ نازلہ کے
مُنکر ہوں گے وہ اُس دُنیا میں اُس کے انعام سے محروم ہوں گے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
سُورتِ ہٰذا کی اٰیاتِ بالا اللہ تعالٰی کے اُس خطاب پر مُشتمل ہیں جس خطاب
کی پہلی اٰیت کے مُخاطب بظاہر اہلِ ایمان ہیں اِس لیۓ جُملہ قدیم اور جُملہ
جدید روایتی اہلِ تفسیر نے اس خطاب کی پہلی اٰیت کے اِس ظاہری پہلو کو
دیکھتے ہوۓ اہلِ ایمان ہی کو اللہ تعالٰی کے اِس خطاب کا مُخاطب قرار دیا
ہے اور پھر جب یہ بات اُن کے ذہن پر حاوی ہوگئی کہ اللہ تعالٰی کے اِس خطاب
کے مُخاطب اہلِ ایمان بلکہ صرف اہلِ ایمان ہیں تو پھر اِن اہلِ روایت و
اہلِ تفسیر نے اِس خطاب کے پہلے لفظِ { قُل } اور دُوسرے لفظِ ندا {
یٰعبادی } سے یہ خیالی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اللہ تعالٰی کی اِس تازہ تنزیل
سے پہلے تو زمین کے تمام اہلِ زمین اللہ تعالٰی کے بندے ہوا کرتے تھے لیکن
اِس تازہ تنزیل کے بعد زمین کے تمام اہلِ زمین سیدنا محمد علیہ السلام کے
بندے بن چکے ہیں اور سیدنا محمد علیہ السلام اپنے مقامِ عبدیت و رسالت سے
ترقی پاکر اللہ تعالٰی کی اُلوہیت کے مقامِ اعلٰی پر فائز ہو چکے ہیں ،
چنانچہ مولانا مودودی مرحوم اپنی تفسیر کے مُتعلقہ تفسیری حاشیۓ میں لکھتے
ہیں کہ { بعض لوگوں نے اِن الفاظ کی یہ عجیب تاویل نکالی ہے کہ اللہ تعالٰی
نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خود "اے میرے بندو" کہہ کر لوگوں سے خطاب
کرنے کا حکم دیا ہے لہٰذا سب انسان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بندے ہیں ،
یہ درحقیقت ایک ایسی تاویل ہے جسے تاویل نہیں بلکہ قرآن کی بدترین معنوی
تحریف اور اللہ تعالٰی کے کلام کے ساتھ کھیل کہنا چاہیۓ ، جاہل عقیدت مندوں
کا کوئی گروہ تو اس نُکتے کو سن کر جُھوم اُٹھے گا لیکن یہ تاویل اگر صحیح
ہو تو پھر پُورا قرآن غلط ہوا جاتا ہے کیونکہ قرآن تو اَز اَول تا آخر
انسانوں کو صرف اللہ کا بندہ قرار دیتا ہے اور اس کی ساری دعوت ہی یہ ہے کہ
تم ایک اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود
بندے تھے ، ان کو اللہ نے رب نہیں بلکہ رسول بنا کر بھیجا تھا اور اس لیۓ
بھیجا تھا کہ خود بھی اسی کی بندگی کریں اور لوگوں کو بھی اسی کی بندگی
سکھائیں ، آخر کسی صاحبِ عقل انسان کے دماغ میں یہ بات کیسے سماسکتی ہے کہ
مکہ معظمہ میں کفار قریش کے درمیان کھڑے ہو کر ایک روز محمد صلی اللہ علیہ
وسلم نے یکایک یہ اعلان کردیا ہوگا کہ تم عبدالعُزٰی اور عبدالشمس کے بجاۓ
دراصل عبدِ محمد ہو } اِن بعض اہلِ روایت و تفسیر کے سوا جن کا مولانا
مودودی نے حوالہ دیا ہے دیگر اہلِ تفسیر نے عبد کو اِلٰہ بنانے کا یہ حوصلہ
تو نہیں کیا ہے لیکن اُنہوں نے اِس اٰیت کے الفاظ { ان اللہ یغفرالذنوب
جمیعا } سے بخشش کا جو نتیجہ کشید کیا ہے اُس نتیجے نے ہر عبد کو یہ حوصلہ
دے دیا ہے کہ وہ قتل و غارت ، لُوٹ کھسُوٹ ، چوری چکاری ، زنا و بدکاری اور
اغوا براۓ تاوان وغیرہ کے منجُملہ جرائم میں سے جو بھی جرم کرے گا تو اللہ
تعالٰی اُس کے اُس جُرم کو اپنی مُتذکرہ بالا رحمت کی بنا پر معاف فرما دے
گا ، مُسلم معاشرے کے اِن مُسلم مُفسرین کی یہی وہ بدترین غیر قُرآنی تعلیم
و تفہیم ہے جس تعلیم و تفہیم نے مُسلم و مومن معاشرے کے مُسلم و مومن
اَفراد کو زبان کا مومن و مُسلم اور دل کا مُنکر و منافق بنایا ہوا ہے اور
ہر مُسلمان ہر وقت اِس خیال سے نہال رہتا ہے کہ اُس کا ہر جُرم اللہ تعالٰی
کی رحمت سے معاف ہوجاۓ گا اور اسی بناپر ہر نام نہاد دین دار مُسلم ایک
جُرم کرنے کے بعد فورا ہی ایک دُوسرا جُرم کرنے پر اِس یقین کے ساتھ کمر
بستہ ہو جاتا ہے کہ اگر ہر ایک انسان کا ہر ایک جُرم اللہ تعالٰی نے معاف
ہی کردینا ہے تو پھر وہ خود بھی کسی جُرم میں کسی دُوسرے مُجرم سے پیچھے
کیوں رہ جاۓ لیکن اِس سلسلے میں درست بات صرف یہ ہے کہ اِس خطاب کی پہلی
اٰیت کے مُخاطب اہلِ ایمان نہیں ہیں جو پہلے ہی کفر و شرک کے جبرِ حالات سے
نکل کر حلقہِ دین میں آچکے ہیں اور دین کے سَچے پیرو کار بن کر ذہنی و قلبی
اعتبار سے پُرسکون ہو چکے ہیں بلکہ اِس خطاب کے مُخاطب صرف وہ اہلِ کفر و
شرک ہیں جو اپنے دینِ کفر و شرک کو ترک اور دینِ ایمان و اسلام کو اختیار
کر کے قُرآن کے زیرِ اَحکام تو آنا چاہتے ہیں لیکن اپنے ماضی کے مُشرکانہ
اعمال کی بنا پر دل ہی دل میں اِس خیال سے بھی ہچکچاتے رہتے ہیں کہ خُدا ہی
جانے کہ وہ ایمان قبول کرنے کے بعد اہلِ ایمان کی طرح اہلِ ایمان بن پائیں
گے یا اپنے اعمالِ خیر میں اُن سے پیچھے رہ جائیں گے ، اِس سُورت کی دیگر
اٰیات کے خطاب میں تو تمام انسان شاملِ خطاب ہیں لیکن پہلی اٰیت کے مُخاطب
و ہی مُتفکر و مُتردد افراد ہیں جن کو یہ خطاب کر کے یہ تسلی و تشفی دی جا
رہی ہے کہ وہ اللہ تعالٰی کی رحمت سے بالکُل بھی مایُوس نہ ہوں کیونکہ جب
کبھی بھی حق کا کوئی مُنکر اللہ تعالٰی کے ساتھ اللہ تعالٰی کے اَحکامِ
نازلہ پر عمل کرنے کا عھد کرکے اُس کے حلقہِ دین میں آتا ہے تو اُس کی
سابقہ مُشرکانہ حیات کا صفحہ ہمیشہ کے لیۓ بند کر کے اُس کی ایک نئی
مومنانہ حیات کا ایک نیا صفحہ شروع کردیا جاتا ہے اور جو انسان اللہ تعالٰی
کا مُسلم بندہ بن جاتا ہے تو سُورَةُالنساء کی اٰیات 48 اور اٰیت 116 میں
بیان کیۓ گۓ قانون کے تحت اُس کے ساتھ یہ مشروط امکانی وعدہ بھی کر لیاجاتا
ہے کہ اگر وہ صاحبِ ایمان انسان اپنے قبولِ ایمان کے بعد اللہ تعالٰی کی
ذات کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرے گا تو اُس کے لیۓ اِس اَمر کا امکان بھی
موجُود رہے گا کہ اللہ تعالٰی اُس کے اِس عملِ توحید کو ہی اُس کے لیۓ کافی
جانتے ہوۓ اُس کے دیگر اعمال کے بارے میں اُس سے زیادہ سخت باز پرس نہ کرے
لیکن اِس اَمر کا ہر گز کوئی امکان نہیں ہے کہ ایک انسان جو اپنے ایمان کا
اعلان بھی کرے اور اُس کے بعد کفر و شرک بھی کرتا پھرے تو اللہ تعالٰی اُس
زبانی مُسلم اور ذہنی مُشرک سے کوئی سخت باز پرس بھی نہ کرے ، کیونکہ جو
شخص اللہ تعالٰی کے ساتھ شرک نہ کرنے کا معاہدہ کرتا ہے تو وہ اُس کے اُس
رحم و کرم کا حق دار ہوجا تا ہے جس رحم و کرم کے تحت وہ اپنے کسی بندے کی
بندے کی خطا پوشی کرتا ہے اور جو انسان ایمان لانے کے بعد اُس کے اِس رحم و
کرم کا حق دار ہوجاتا ہے وہ اُس کی اُس کی اُس خطا پوشی کا بھی حق دار ہو
جاتا ہے جس خطا پوشی کا نتیجہ اُس انسان کو اُس عام رُسوائی سے بچانا ہوتا
ہے جس عام رُسوائی سے وہ بچنے کا آرزُو مند ہوتا اور آرزُو مند رہتا ہے ،
کلامِ عرب میں فعل { غفر یغفر } کا معنٰی کہیں پر بھی بخشنا نہیں ہے کیونکہ
انسان کے کفر و شرک کا عمل یا اُس کی کسی عام معصیت کا عمل کوئی ایسی سوغات
تو ہر گز نہیں ہے کہ وہ سوغات کسی انسان سے راضی ہو کر اُس کو بخش دی جاۓ
اور وہ اُس وہ اُس سوغات سے خوش ہو جاۓ بلکہ کلامِ عرب اور قُرآنِ عربی میں
فعل { غفر یغفر } کا معنی کسی شئی کو چُھپانا ہوتا ہے اور اسی بنا پر پَتھر
کے اُس ٹوپی نما خود کو بھی عربی زبان میں"مغفر" کہا جاتا ہے جس خود سے
انسان میدانِ جنگ میں اپنے سر کو چُھپاکر دُشمن کے وار سے بچاتا ہے اِس لیۓ
قُرآنِ کریم میں فعل { غفر یغفر } کے اِس عنوان سے اِس اَمر کا جو بھی
خُدائی وعدہ آتا ہے وہ وعدہ صرف اِس اَمر کا ایک وعدہ ہوتا ہے کہ جس انسان
نے اللہ تعالٰی کی ذات کے ساتھ اپنے کسی خیالی خُدا کو شریک نہیں کیا ہوگا
تو اللہ تعالٰی اُس انسان کو مجمعِ عام کے درمیان ہونے والی اُس شرمناک
رُسوائی سے ضرور بچاۓ گا جس کی اُس مجمعِ عام میں وہ باز پرس سے ہوتی ہے جس
باز پرس سے وہ انسان ذلّت و شرمندگی محسوس کرتا ہے اور شرک کے حوالے سے
قُرآن نے قُرآن کا مُحولہ بالا جو قانونِ باز پرس بیان کیا ہے اُس قانون کا
مطلب بھی یہی ہے کہ قیامت کے روز اگر اللہ تعالٰی چاہے گا تو اہلِ ایمان کو
سوال و جواب کی اُس رُسوائی سے بچاۓ گا جس سوال و جواب سے اُن کو وہاں پر
موجُود دُوسرے انسانوں کے سامنے ذلّت و شرمندگی محسوس ہو گی لیکن جس ایمان
دار انسان نے شرک کا ارتکاب کیا ہوگا تو اُس روز وہ مشرک انسان ایسی کسی
بھی رُو رعایت کا مُستحق نہیں ہوگا ، نتیجہِ کلام یہ ہے کہ اگر مغفر کا یہ
معنٰی نہیں ہے کہ جو انسان میدانِ جنگ میں سر پر مغفر رکھ لے گا تو اُس کو
ایک فیلڈ مارشل کا عہدہ دے کر گھر بھیج دیا جاۓ گا تو پھر مغفرت کا بھی
معنی بھی ہر گز یہ نہیں ہے کہ قیامت کے روز جس انسان کی مغفرت کرنا مقصود
ہوگا تو اُس انسان کا حساب ہی معطل یا منسوخ کرکے اُس کو سیدھا جنت میں
بھیج دیا جاۓ گا !!
|