یہ بیماری برطانیہ کے شاہی خاندان میں بھی ہے... کزنز کے درمیان شادیوں سے بچوں میں کون سی بیماریاں منتقل ہو سکتی ہیں اور بچاؤ کا طریقہ کیا ہے؟

image
 
’میرے ماں باپ نے فیصلہ کیا کہ بس بہت ہو گیا، اب خاندان میں شادیاں نہیں کرائیں گے۔ ددھیال میں تو بچوں سے بیماریاں ختم ہی نہیں ہو رہی تھیں۔‘
 
ستر سالہ رضیہ یوسف راولپنڈی میں رہتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ ان کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی ان کے بچوں کا تعلیم یافتہ ہونا اور ان کی بہوؤں کا خاندان سے باہر کا ہونا ہے۔
 
قیام پاکستان کے بعد سے ان کے اہلخانہ انڈیا سے پاکستان منتقل ہو گئے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کے ددھیال میں کزنز کے درمیان شادیاں عام تھیں اور یہی وجہ تھی کہ اکثر بچوں میں معذوری یا کوئی جینیاتی بیماری پیدا ہو رہی تھی۔ یہ معاملہ ایک ایسے وقت میں مزید پریشان کن تھا جب وہ ایک نئے ملک میں سیٹل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔
 
وہ بتاتی ہیں کہ 'میرے ابا ڈاکٹر تھے، پڑھے لکھے تھے۔ انھیں جب پتا چلا کہ یہ جینیاتی بیماریاں ہیں اور ایک ہی خاندان کے اندر مسلسل شادیوں کے باعث بچوں میں منتقل ہو رہی ہیں تو انھوں نے میری والدہ کے ساتھ مل کر فیصلہ کیا کہ وہ اپنے بچوں کی شادیاں خاندان میں نہیں کریں گے اور پھر ایسا ہی ہوا۔‘
 
یہ اس زمانے کی بات ہے جب نہ تو جینیٹک لیبارٹریوں کا کوئی وجود تھا نہ اس بارے کوئی آگاہی تھی۔ رضیہ یوسف کے والدین کے اس فیصلے سے کم از کم ان کے اپنے گھر سے جینیاتی بیماریوں کا خاتمہ ہوا۔
 
انھوں نے یہ روایت برقرار رکھی اور اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی شادی کے وقت بھی احتیاط کا دامن تھامے رکھا۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں علم تھا کہ خاندان میں یہ جین موجود ہے اور بہتر یہی ہے کہ اسے اگلی نسل میں منتقل ہونے سے روکا جا سکے۔
 
image
 
رضیہ یوسف کے والدین اور پھر خود انھوں نے تو یہ بڑا فیصلہ کیا مگر یہ روایت عام نہیں ہے۔ پاکستان میں خاندان میں یا کزنز کے درمیان شادیاں عام ہی نہیں بلکہ ترجیحاً کی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں جینیاتی بیماریوں کی شرح بہت زیادہ ہے۔
 
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 65 سے 75 فیصد شادیاں خاندان میں کی جاتی ہیں جن میں سے 80 فیصد شادیاں فرسٹ کزنز میں ہوتی ہیں۔ جن جوڑوں میں دونوں افراد کی ایک ایک جینز میں نقص ہو تو مرض پیدا ہونے والے بچوں میں منتقل ہونا یقینی ہے۔
 
یہ امراض موروثی یا جینیاتی طور پر منتقل ہونے والی بیماریاں کہلاتے ہیں اور ان کا فی الحال کوئی علاج ممکن نہیں ہے۔
 
موروثی بیماریوں میں پاکستان میں سب سے عام تھیلیسیمیا ہے۔ اس کے علاوہ ان میں ہیموفیلیا جیسی خون کی بیماریاں ہیں۔
 
اسی طرح نیورولاجیکل بیماریاں اور ڈویلپمنٹل ڈس آرڈرز ہیں جو جینیاتی طور پر خاندانوں میں موجود ہوتے ہیں اور اگلی نسلوں میں منتقل ہوتی جاتے ہیں۔
 
ملک میں ایک کروڑ لوگ تھیلیسیمیا مائنر کی کیرئیر ہیں جو بذات خود بیماری نہیں مگر ایسے کیریئر کی شادی کسی اور تھیلیسیمیا مائینر سے ہو گئی تو ہر حمل میں پچیس فیصد چانس ہو گا کہ بچہ تھیلیسیمیا میجر پیدا ہو۔
 
image
 
آگہی کے اسی فقدان نے جن زندگیوں کو متاثر کیا ان میں کوئٹہ کے دو بچے، 13 سالہ منیب (فرضی نام) اور چھے سالہ سارہ شامل ہیں۔ یہ بچے تھیلیسیمیا کے مریض ہیں اور انھیں ہر ماہ خون کی بوتلیں لگوائی جاتی ہیں۔
 
ان کی والدہ شائستہ (فرضی نام) نہیں چاہتیں کہ ان کی اور ان کے بچوں کی شناخت ظاہر کی جائے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ بچوں کو تکلیف انہیں توڑ دیتی ہے۔
 
'میرے بچوں کے ہاتھوں پر سوئیوں کے سینکڑوں نشان ہیں۔ یہ بتانا مشکل ہے کہ وہ کس قدر تکلیف سے گزرتے ہیں۔ میرا بیٹا 13 سال کا ہے اور انھیں اب تک 135 خون کی بوتلیں لگ چکی ہیں۔ میری بیٹی صرف چھ سال کی ہیں اور انھیں خون کی 60 سے زائد بوتلیں لگ چکی ہیں۔ ہر مہینے خون نہ لگوائیں تو یہ بچے زندہ نہیں رہ پائیں گے۔ ان کی طبیعت خراب ہونا شروع ہو جاتی ہے اور ہم انھیں اسپتال پہنچاتے ہیں۔'
 
شائستہ کی شادی ان کے خالہ زاد سے ہوئی جو ان کے علاقے کی روایات کے عین مطابق تھا مگر کسی کو یہ علم نہیں تھا کہ یہ دونوں ہی تھیلیسیمیا مائینر ہیں۔
 
’ہمارے ہاں یہ رواج تھا کہ اپنے خاندان سے جو بھی رشتہ آ جائے انکار تو ہوتا ہی نہیں تھا۔ میرے خالہ زاد کا رشتہ آیا اور اسی وقت طے ہو گیا۔ میں نے کبھی اس بیماری کا نام نہیں سن رکھا تھا۔ پہلی بیٹی بالکل ٹھیک تھی۔
 
’مگر دوسرا بچہ پیدا ہوا تو تین ماہ تک شدید بیمار رہا، پھر کچھ مہینے علاج ہوا۔ ڈاکٹرز نے ایک دن بلایا اور کہا کہ آپ دونوں کے ٹیسٹ ہوں گے۔ پھر پتا چلا ہم دونوں تھیلیسیمیا مایئنر تھے اور ان کا بیٹا تھیلیسیمیا میجر۔ پھر یہی ان کی تیسری بیٹی کی پیدائش پر بھی ہوا۔'
 
خیال رہے کہ تھیلیسیمیا مایئنر میں ہیموگلوبین جینز حمل کے وقت وراثت میں ملتی ہیں، اس میں ایک جین ماں اور ایک باپ سے ملتی ہے۔ وہ افراد جن کی ایک جین میں تھیلیسیمیا کا نقص پایا جاتا ہے، انھیں تھیلیسیمیا مائینر کہا جاتا ہے۔
 
آپ تھیلیسیمیا مائینر ہیں یا نہیں، یہ جاننے کا واحد طریقہ خون کا ایک ٹیسٹ ہے جسے ہیموگلوبن الیکٹروفاریسیس کہا جاتا ہے اور اس سے ایسی جینز کی شناخت ممکن ہوتی ہے۔
 
image
 
تھیلیسیمیا میجر اس کی بیماری کی شدید قسم ہے اور یہ ان بچوں میں پائی جاتی ہے جو اپنے ماں اور باپ سے یہ جینز حاصل کرتے ہیں۔ خون کے سرخ خلیے یا ہیموگلوبن پیدا کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کے باعث ان کی زندگی کے ابتدائی برسوں میں ہی ان میں خون کی شدید کمی ہوجاتی ہے۔
 
اگر انھیں مسلسل خون اور ادویات اور علاج دستیاب نہ ہو تو ان کی ہڈیاں ساخت تبدیل کرتی ہیں اور زندگی کے ابتدائی دس سالوں میں ہی ان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
 
اس بارے میں بی بی سی نے ڈاکٹر ثاقب انصاری سے بات کی۔ وہ اپنے بھائی کے ہمراہ عمیر ثنا فاونڈیشن کے نام سے ادارہ چلاتے ہیں جہاں تھیلیسیمیا سمیت دیگر جینیاتی بیماریوں پر تحقیق اور علاج کے لیے مدد فراہم کی جاتی ہے۔
 
تھیلیسیمیا کے لیے وہ 20 سال سے بون میرو ٹرانسپلانٹ کر رہے ہیں جبکہ ان بیماریوں سے متعلق آگاہی پھیلانے کے لیے بھی ملک بھر میں کام رہے ہیں۔
 
image
 
وہ کہتے ہیں کہ ’اس وقت پوری دنیا جینیاتی بیماریوں کے سامنے بے بس ہے۔ کزنز کے درمیان یا خاندان میں ہی شادی جہاں بھی زیادہ ہوں گی، وہاں موروثی بیماریاں زیادہ ہوتی ہیں، اس کی وجہ ایک ہی جین کا مسلسل ایک ہی خاندان میں پھیلنا ہے، مگر دیگر ممالک میں اس کو قابو کرنے کی کوششی حکومتی سطح پر کی گئیں۔‘
 
وہ کہتے ہیں کہ 'مثال کے طور پر تھیلیسیمیا جنوبی ایشیائی ممالک کے ساتھ ساتھ ترکی اور اٹلی وغیرہ میں عام تھا۔ تو ان میں سے چند ممالک نے یہ قانون بنا دیا کہ شادی سے پہلے تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ کروایا جائے اور اگر جوڑا تھیلیسیمیا مائنر نہیں ہے تو وہ شادی کریں۔ ورنہ اس کو روک دیں یا ان کی کونسلنگ کی جائے، اور اگر وہ پھر بھی شادی کرنا چاہیں تو یہ ان کی ذمہ داری ہو گی۔
 
’اس فیصلے سے یہ ہوا کہ جہاں ڈھائی سو یا پانچ سو بچے تھیلیسیمیا کیریئر پیدا ہو رہے تھے وہاں پانچ سال تک یہ قانون نافذ کرنے کے بعد ایک، دو ایسے بچے پیدا ہوئے۔ اس سے ثابت ہوا کہ جہاں انٹر فیملیز شادیاں ہوں گی تو جینیاتی بیماریاں جنم لیں گی۔‘
 
تو یہ بیماریاں ایک ہی خاندان میں شادی سے کیسے پھیل رہی ہیں، اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر ثاقب انصاری کہتے ہیں کہ ’اس تمام کہانی کا مخفی حصہ یہ ہے کہ جو آدمی یہ جینز کیری کر رہا ہے وہ بظاہر مکمل طور پر صحتیاب ہے کیونکہ اس کے پاس دو جینز ہیں، ایک میں تو نقص موجود ہے مگر دوسری جینز صحتمند ہے۔
 
’اب جب ایسے شخص کی شادی ایک ایسی کزن سے ہوتی ہے جو اسی خاندان کا حصہ ہونے کی وجہ سے دو جنیز میں سے ایک نقص والی جینز کیری کر رہی ہے تو اصل مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ جب دو ڈیفیکٹڈ جینز مل جائیں گی تو پیدا ہونے والا بچہ دونوں ڈیفیکٹڈ جینز کا کیرئیر ہو گا اور وہ بیماری جو والدین میں مخفی تھی، بچے میں ظاہر ہو جائے گی۔‘
 
تو کیا کزنز کے درمیان یا خاندان میں شادی نہ کرنا ہی موروثی بیماریوں کا خاتمہ کر سکتا ہے؟ طبی ماہرین کے مطابق جینیاتی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں کو قابو کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ جینز کے پھیلاو کو روکا جائے۔
 
image
 
یہ ضروری نہیں کہ ہر جوڑے کے ہاں ایسی اولاد پیدا ہو جو مختلف بیماریوں کا شکار ہے مگر یہ بھی حقیقیت ہے کہ کزنز کے درمیان شادی سے بچوں میں اسی بیماری کا چانس 35 فیصد ہے جبکہ خاندان سے باہر شادی کی صورت میں یہ پانچ فیصد ہو جاتا ہے۔ یہ تعداد ان افراد کی ہے جو پہلے سے ایک نقص والی جینز لیے ہوئے ہیں۔
 
ڈاکٹر ثاقب انصاری نے اپنے بھائی سے متعلق بتایا کہ جن کے خاندان میں دو مختلف جینیاتی بیماریاں سامنے آئیں۔
 
وہ بتاتے ہیں کہ 'میرے بھائی کی شادی خالہ زاد بہن سے ہوئی، جب ان کے ہاں پہلی اولاد ہوئی تو بچے کے بلڈ سیل کام نہیں کرتے تھے۔ تو وہ بچہ یعنی عمیر فوت ہو گیا۔ دوسری پریگنینسی میں بچہ ٹھیک تھا۔ مگر تیسرے بچے میں ایک نئی جینیاتی بیماری تھی، اس طرح پیدا ہونے والی بچی ثنا بھی زندہ نہ رہ سکیں۔
 
’یعنی ہمارے ایک خاندان میں دو جینیاتی بیماریاں آ گئی تھیں۔ انھی دو بچوں کے نام پر ہم نے عمیر ثنا فاونڈیشن کی بنیاد رکھی جو موروثی بیماریوں خاص طور پر تھیلیسیمیا پر کام کرتا ہے۔‘
 
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں یہ قانون موجود ہے کہ شادی سے پہلے تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ کیا جائے تو ہم نے یہ کہا کہ مرد حضرات کا ٹیسٹ کیا جائے تاکہ خواتین سٹگماٹائیز نہ ہوں۔
 
’جو یہ جینز کیری کر رہے ہیں اس صورت میں ان کی ہونے والی دلہن کا بھی ٹیسٹ کر لیں۔ اس کے علاوہ فیملی اسکینگ کرائیں۔ یعنی جس بچے میں یہ بیماری ہے اس کے خون کے رشتے یعنی بہن بھائی، خالہ، پھپھو، چچا وغیرہ سے متعلق ایک فیملی ٹری بنا کر دیں تاکہ جب ان کی یا ان کے بچوں کی شادی ہو تو وہ بھی ٹیسٹ کروا لیں۔ ہم منع نہیں کر رہے کہ کزن میرج نہ کریں، اجتناب کریں تو بہتر ہے۔‘
 
کیا ایسی موروثی بیماریوں کا علاج ممکن ہے؟
اس سوال کا سادہ سا جواب تو یہی ہے کہ ان کا فی الحال علاج ناممکن ہے۔
 
طبی ماہرین اس بارے میں موروثی بیماری ہیموفیلیا کی مثال بھی دیتے ہیں ’یہ بیماری برطانیہ کے شاہی خاندان میں بھی ہے تو میں اپنے غریب مریضوں کو سمجھاتا ہوں کہ یہ تو بادشاہوں میں بھی ہے اور اس کا کوئی علاج نہیں۔ مسئلے کا حل یہ ہے کہ حمل کے دوران بارہویں ہفتے میں ماں کے پیٹ سے بچے کے ٹشو کا ٹیسٹ کروائیں اور اگر بچے میں بیماری موجود ہے تو اسلامی فتوے کی روشنی میں 16ویں ہفتے سے پہلے حمل گرایا جا سکتا ہے۔
 
image
 
’ہم نے صرف سندھ اور بلوچستان میں اب تک دس ہزار سیمپل حاصل کیے جس میں سے ڈھائی ہزار کے حمل ضائع کیے گئے، کیونکہ بچے اس بیماری کے کیرئیر تھے۔‘
 
وہ کہتے ہیں کہ کزنز کے درمیان اور کہیں بھی شادی سے پہلے جوڑے کو بلڈ ٹیسٹ ضرور کرانا چاہیے تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ وہ آنے والی نسلوں میں کوئی موروثی بیماری منتقل نہیں کریں گے۔ ’ہم نے چھوٹے چھوٹے اضلاع میں جینیٹک لیبارٹریاں قائم کیں تاکہ تشخیص اور روک تھام کا عمل تیز کیا جا سکے۔‘
 
یہ بیماریاں والدین اور بچوں دونوں ہی کے لیے تکلیف دہ تو ہیں ہی مگر ان کی ادویات کا استعمال تاعمر کرنا پڑتا ہے جو پہلے سے غریب خاندانوں کے اخراجات میں بے تحاشہ اضافہ کرتا ہے۔
 
کوئٹہ کی رہائشی شائستہ کہتی ہیں کہ ان کے دونوں بچوں کو خون کے علاوہ ادویات روزانہ کی بنیاد پر دی جاتی ہیں جو انتہائی مہنگی ہیں۔
 
وہ کہتی ہیں کہ ’ہسپتال میں ادویات بہت زیادہ مہنگی ہیں۔ مثلاً گولیوں کا ایک پیکٹ نو ہزار میں ملتا ہے، اس میں تیس گولیاں ہوتی ہیں، جو پندرہ دن میں ختم ہو جاتی ہیں۔ غریب انسان اتنا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا، خون ملنا اس سے بھی مشکل کام ہے۔
 
’پہلے تو محلے سے، خاندان سے لوگ دے دیا کرتے تھے۔ مگر اب تو ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ ہر بار تو کسی سے درخواست نہیں کر سکتے۔ کئی بار ہسپتال میں ایسے غریب بچے دیکھے جن کے خون کا گروپ او نیگیٹو تھا۔ یہ نادر خون اتنا مہنگا ہے کہ وہ تو افورڈ ہی نہیں کر سکتے۔
 
’میں نے ایسے والدین کو اپنے بچے خون لگوائے بغیر واپس لے جاتے دیکھا ہے۔ ان کے دل پر کیا گزرتی ہو گی؟ حکومت کو کم از کم ادویات کے معاملے میں ایسے بچوں کی مدد کرنی چاہیے۔‘
 
دوسری جانب رضیہ یوسف اپنے اردگرد موجود لوگوں کو یہ مشورہ ضرور دیتی ہیں کہ وہ جس قدر ممکن ہو سکے کزنز کے درمیان شادیوں سے اجتناب کریں۔
 
وہ کہتی ہیں کہ 'خاص طور پر اس صورت میں جب خاندان میں کسی فرد کو کوئی جینیاتی بیماری ہو چکی ہے۔ شادی ناگزیر ہے تو جوڑا ایک چھوٹا سا خون کا ٹیسٹ ضرور کروائے تاکہ آئندہ نسلوں کو امراض سے بچایا جا سکے۔'
 
Partner Content: BBC Urdu

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

YOU MAY ALSO LIKE: