#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالمؤمن ، اٰیت 10 تا 20
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ان
الذین کفروا
ینادون لمقت اللہ
اکبر من مقتکم انفسکم
اذتدعون الی الایمان فتکفرون
10قالواربنا امتنااثنتین واحییتنا
اثنتین فاعترفنا بذنوبنا فھل الٰی خروج
من سبیل 11 ذٰلکم بانه اذا دعی الله وحدهٗ
کفرتم وان یشرک بهٖ تؤمنوا فالحکم للہ العلی
الکبیر 12 ھوالذی یریکم اٰیٰتهٖ وینزل لکم من السماء
رزقا ومایتذکر الّا من ینیب 13 فادعواللہ مخلصین له
الدین ولوکره الکٰفرون 14 رفیع الدرجٰت ذوالعرش یلقی
الروح من امرهٖ علٰی من یشاء من عبادهٖ لینذر یوم التلاق 15
یوم ھم بارزون لایخفٰی علی اللہ منھم شئی لمن الملک الیوم
للہ الواحد القھار 16 الیوم تجزٰی کل نفس بما کسبت لاظلم الیوم
ان اللہ سریع الحساب 17 وانذرھم یوم الاٰزفة اذاالقلوب لدی الحناجر
کاظمین ماللظٰلمین من حمیم ولاشفیع یطاع 18 یعلم خائنة الاعین وما
تخفی الصدور 19 واللہ یقضی بالحق والذین یدعون من دونهٖ لایقضون بشئی
ان اللہ ھوالسمیع البصیر 20
ہر تحقیق سے اِس اَمرِ حق کی تصدیق ہوچکی ہے کہ جس روز حق کا انکار کرنے
والوں کو اُن کے انکار کی جواب دہی کے لیۓ بلایا جاۓ گا تو اُس روز اللہ
اُن پر اِس سے کہیں زیادہ ناراض ہوگا جتنا کہ وہ آپ اپنے اعمالِ جان سے
نالاں ہوں گے ، اُس روز اُن سب کو بتا دیا جاۓ گا کہ آج تمہیں جو سزا ملے
گی وہ تُمہارے اُس انکارِ حق کا نتیجہ ہوگی جس حق پر تُم کو ایمان لانے کی
دعوت دی جاتی رہی اور تُم اپنے دل میں دَبے ہوۓ کفر پر پہلے سے زیادہ جری
ہو تے رہے ، یہ فردِ جرم سن کر وہ اللہ سے کہیں گے کہ ہم تیرے وہ اقراری
مُجرم ہیں جن کو تُونے دوبار کی موت کے بعد دو بار پیدا کیا ہے تو پھر آج
بھی ہمارے لیۓ دوبارہ وہ صورت پیدا کردے کہ ہم دوبارہ دُنیا میں چلے جائیں
اور پھر توبہ تائب ہو کر دوبارہ یہاں آجائیں ، اُن کی اِس خواہش پر اُن کو
یاد دلایا جاۓ گا کہ دُنیا میں جب تُمہارے سامنے اللہ کا ذکر کیا جاتا تھا
تو تُم اُس سے بدک جاتے تھے اور جب اللہ کے ساتھ تُمہارے خیالی خُداؤں کا
ذکر آتا تھا تو تُم نہال ہوجاتے تھے لیکن آج کا فیصلہ کُن دن تو اُسی ایک
اللہ کے اُس حتمی فیصلے کا دن ہے جس دن اور جس فیصلے کی تُم کو بار بار
اطلاع دی جا چکی ہے ، یہ عالَم کے اُس حاکم کے فیصلوں کا دن ہے جو اپنی
شناخت کرانے اور تُم تک تُمہار روزی پُہنچانے کے لیۓ تُم پر آسمان سے بارش
برساتا ہے لیکن عالَم میں ظاہر ہونے والے اِن بصری مشاہدات سے تو وہی لوگ
فائدہ اُٹھاتے ہیں جو اِن مشاہدات کی طرف متوجہ ہوتے اور متوجہ رہتے ہیں
اِس لیۓ ہم نے اپنے رسُول کو اس بات کا حُکم دیا ہے کہ انسان چاہے یا نہ
چاہے لیکن وہ انسان کو بہر حال ہمارا یہی خالص دین سناۓ اور اُس کو بتاۓ کہ
یہ اُس اللہ کا دین ہے جو اپنے عرش کی بلندیوں سے جس پر چاہتا ہے اُس پر
اِس غرض سے اپنے یہ اَحکام نازل کرتا ہے تاکہ وہ جسم و رُوح کے اتصال کے
بعد ظاہر ہونے والے تباہ کُن اعمال کے تباہ کُن نتائج سے انسان کو ڈراۓ
کیونکہ جب وہ دن آ جاۓ گا تو ہر ایک انسان کا ہر ایک عمل انسان کے سامنے ہی
اللہ کے سامنے پیش کیا جاۓ گا اور اُس دن ہر ایک انسان کو اُس کے ہر ایک
اَچھے اور بُرے عمل کا بلا تاخیر بدلہ دیا جاۓ گا ، حسابِ اعمال و احتسابِ
اعمال کا وہ دن ایسا ہی ایک دن ہے کہ جس دن کی ہولناکیوں کو دیکھنے والے
تمام مجرموں کے دل اُچھل کر حلق میں آجائیں گے کیونکہ اُس دن وہ لوگ اپنے
سامنے والے اعمال سے یہ بات جان جائیں گے کہ آج کے دن اُن کا یہاں کوئی
حمایت کار و مدد گار نہیں ہے اور دُنیا میں وہ مجرم لوگ جن ہستیوں کی پُوجا
کرتے رہے ہیں اُن ہستیوں کے اور اُن ہستیوں کے اِن پُجاریوں کے دل میں
چُھپے ہوۓ سارے خیالات اور اُن کے آنکھوں سے کیۓ گۓ سارے اشارات اُن کے
سامنے آجائیں گے اور اِن کے اُن تمام دیدہ و نادیدہ اعمالِ بد کا اُن کو
بدلہ مل جاۓ گا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا کا یہ مضمون بھی اُن پہلی اٰیات کے اُس پہلے مضمون ہی کا ایک
حصہ ہے جس پہلے مضمون میں ترکِ شرک و نجات جہنم اور قبولِ توحید و حصولِ
جنت کا ذکر کیا گیا تھا اور اُس پہلے مضمون میں یہ اَمر واضح کیا گیا تھا
کہ جو لوگ زمین پر آنے کے بعد زمین پر حق اور اہلِ حق کا ساتھ دیتے ہیں تو
وہ لوگ جس وقت تک زمین پر رہتے ہیں اُس وقت تک اُن کو صاحبِ عرش کی اعانت
خیر اور اہلِ عرش کی دُعاۓ خیر برابر ملتی رہتی ہے جس سے اُن کے اعمالِ
حیات کی درستی ہوتی رہتی ہے اور جب وہ اہلِ ایمان اپنے درست اعمال کے ساتھ
حیاتِ دُنیا سے نکل کر حیاتِ عُقبٰی میں جاتے ہیں تو اپنے حسابِ اعمال کے
بعد وہ جنت میں چلے جاتے ہیں اور موجُودہ اٰیات میں اُس پہلے مضمون کے اِس
دُوسرے حصے میں یہ بتایا گیا ہے کہ جو لوگ زمین پر آنے کے بعد زمین میں حق
اور اہلِ حق کا ساتھ دینے کے بجاۓ حق و اہلِ حق کے ساتھ برسرِ پیکار رہتے
ہیں تو اُن کو حیاتِ دُنیا سے نکل کر حیاتِ عُقبٰی میں جانے کے بعد وہ
بدترین ترین حالات پیش آتے ہیں جن بدترین حالات کا اٰیاتِ بالا کے مفہومِ
بالا میں ذکر کیا گیا ہے لیکن اِس مضمون کا مرکزی کا خیال اِس مضمون کا وہ
حصہ ہے جس حصے میں مُنکرینِ حق کے اُس بیان کا ذکر کیا گیا ہے جو مُنکرینِ
حق کی طرف سے میدانِ محشر میں دیا گیا ہے اور اُس بیان میں مُنکرینِ حق نے
اہلِ زمین کی اُن دو اَموات و دو حیات کا ذکر کیا گیا ہے جو دو اَموات اور
دو حیات اُس وقت اُن کے حافظے میں محفوظ ہوں گی لیکن اُس وقت اُن کے اُس
بیان کی تائید یا تردید نہیں کی جاۓ گی کیونکہ وہ حسابِ اعمال و جزاۓ اعمال
کا موقع ہو گا تاریخ کا کوئی امتحانی پرچہ حل کرنے کا موقع نہیں ہو گا تاہم
اَمرِ واقعہ بہر حال یہی ہے کہ یومِ موت کے بعد اور یومِ محشر سے پہلے
انسان کو خلقِ جدید کے اُس لامحدُود زمان و مکان سے بھی گزرنا ہوتا ہے جس
لامحدُود زمان و مکان کا قُرآنِ کریم نے پہلی بار سُورةُالرعد کی اٰیت 5
میں خلقِ جدید کے عنوان سے اِس طرح ذکر کیا ہے کہ { وان تعجب فعجب قولھم
ءاذا کنا ترابا ءانا لفی خلق جدید } یعنی اگر آپ کو اِن کے اِس تعجب پر
تعجب ہوا ہے تو آپ کا تعجب بجا ہے کیونکہ اِن لوگوں کو یہ بات اِن کو واقعی
تعجب میں ڈال دینے والی بات ہے کہ جب ہم سارے انسان مرنے کے بعد مٹی میں مل
کر مٹی ہو جائیں گے تو پھر ہماری خلقِ جدید کس طرح ممکن ہو جاۓ گی ، قُرآنِ
کریم نے دُوسری بار انسان کی اِسی خلقِ جدید کا سُورَہِ ابراہیم کی اٰیت 19
میں اِس طرح ذکر کیا ہے کہ { ان ہشایذھبکم ویات بخلق جدید } یعنی اللہ
تعالٰی جب چاہتا ہے تُم کو اِس زندگی سے نکال کر تُم پر خلقِ جدید کا ایک
زمانہِ حیات جاری کردیتا ہے ، قُرآنِ کریم نے تیسری بار انسان کی اِس خلقِ
جدید کا سُورَةُالسجدة کی اٰیت 7 میں اِس طرح ذکر کیا ہے کہ { وقالوا ءاذا
ضللنا فی الارض ءانا لفی خلق جدید } یعنی بہت سے لوگوں نے اپنے خالق کی
قُدرتوں کا صرف اِس بنا پر انکار کردیا ہے کہ موت کے بعد خلقِ جدید میں
داخل میں ہونا اُن کی عقلِ خام کی رُو سے اُن کے لیۓ ایک بعید تر بات ہے
اور قُرآنِ کریم نے چوتھی بار سُورَہِ سباکی اٰیت 7 میں انسان کی اِس خلقِ
جدید کو اِس طرح اُجاگر کیا ہے کہ { وقال الذین کفروا ھل ندلکم علٰی رجل
ینبئکم اذا مزقتم کل ممزق انکم لفی خلق جدید } یعنی قُرآن کے مُنکروں نے
قُرآن کے مُنکروں سے کہا ہے کہ ہم تمہیں اُس آدمی سے خبردار کر رہے ہیں جو
ہمیں اِس بات سے خبردار کر رہا ہے کہ مرنے کے بعد جب تُمہارے جسم ریزہ ریزہ
ہو کر بکھر جائیں گے تو تُم کو ایک خلقِ جدید میں ڈال دیا جاۓ گا اور
قُرآنِ کریم نے پانچویں بار سُورَہِ فاطر کی اٰیت 16 میں بھی انسان کی خلقِ
جدید کا اسی طرح اور اُن ہی الفاظ میں ذکر کیا ہے جس طرح اور جن الفاظ میں
سُورَہِ ابراہیم کی اٰیت 19 میں ذکر کیا ہے اور قُرآنِ کریم نے اِن پانچ
مقامات کے بعد چَھٹے مقام پر چھٹی بار سُورَہِ قٓ کی اٰیت 15 میں بھی اسی
خلقِ جدید کا ذکر کیا ہے جو خلقِ جدید انسان کی بعثتِ بعد الموت سے ایک الگ
حقیقت ہے اور جو اُس پر یومِ موت کے بعد اور یومِ محشر سے پہلے گزرنے والی
ایک حقیقت ہے اور ہم نے اِس کی مُتعلقہ تفصیلات سُورَةُالسجدة کی اٰیت 7 کے
میں اُس کے مُتعلقہ مضمون میں پیش کردی ہیں اور جہاں تک اٰیاتِ بالا میں
بیان ہونے والی دو اَموات و دو حیات کا تعلق ہے تو وہ دو اَموات و حیات
انسان کی اُن عمومی اموات و حیات میں سے دو اَموات و دو حیات ہیں جو انسان
پر وارد ہوتی رہتی ہیں اور جن کا اِس سے پہلے بھی کئی مقامات پر ذکر ہو چکا
ہے ، قُرآنِ کریم کی مُتعدد دیگر اٰیات کی طرح اٰیاتِ بالا کی تیسری اٰیت
میں زمین کے بارش کے بغیر مرجانے اور بارش کے بعد جی اُٹھنے کا جو استعارہ
استعمال ہوا ہے وہ بھی اسی حقیقت کا ایک اشارہ ہے کہ جس طرح زمین و اشجارِ
زمین بار بار مرتے اور بار بار زندہ ہوتے رہتے ہیں اسی طرح اہلِ زمین بھی
اِس زمین کے ساتھ بار بار مرتے اور بار بار جیتے رہتے ہیں لیکن قُرآنِ کریم
کی اٰیات و تمثیلات سے جو بات زیادہ اُجاگر ہوکر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ
جس طرح زمین آسمان سے برسنے والی بارش سے مُردہ زمین زندہ ہوتی ہے اسی طرح
آسمان سے اُترنے والی وحی سے بھی انسان کے مُردہ دل زندہ ہوجاتے ہیں اور جس
طرح زمین آسمانی بارش کے بغیر زندہ نہیں ہوتی اور زندہ نہیں رہتی اسی طرح
انسان بھی آسمانی وحی کے بغیر زندہ نہیں ہوتے اور زندہ نہیں رہتے ، حیات کا
یہی وہ خُدائی نظامِ حیات و انتظامِ حیات ہے جس کی انسان نے پابندی کرتے
ہوۓ زمین میں زندہ رہنا اور زمین میں مرنا ہے !!
|