پاکستان ان چند ممالک میں سے ہے جہاں ایک محتاط اندازے کے
مطابق ہر 4 میں سے 1 بچہ سکول نہیں جاتا ۔ کم از کم 2.5 کروڑ سے زائد بچے
آؤٹ آف سکول ہیں ۔ مجموعی حالات جس سمت جا رہے ہیں ، یہ 25 ملین کی فیگر
جلد دوگنی ہونے کا اندیشہ بھی بڑھتا جا رہا ہے ۔ مختلف تحقیقی رپورٹوں کے
مطابق پنجاب میں 8.5 ملین ، سندھ میں 7.2 ملین ، خیبر پختونخواہ میں 3.9
ملین اور بلوچستان میں.5 2 ملین بچے سکول نہیں جاتے ۔ ان میں سے 87 فیصد وہ
ہیں جو مہنگی تعلیم، گھر چلانے کے سلسلے میں اپنے والدین کا ہاتھ بٹانے یا
یتیمی اور غریب کی وجہ سے سکول جانے سے قاصر ہیں ۔
دوسری طرف نجی تعلیمی اداروں کے اخراجات بے لگام ہوتے جا رہے ہیں ۔
پرائیویٹ سکول، کالجز اور یونیورسٹیاں اک مافیا بن چکے ہیں۔ ان کی لوٹ مار
روکنے کی کسی میں ہمت نہیں۔ نجی تعلیمی اداروں میں بچے پڑھانے والے خاندان
پریشان ہیں ، جو پیٹ کاٹ کر بچوں کو تعلیم دلا رہے ہیں ۔ لیکن پرائیویٹ
تعلیمی اداروں کے آئے روز بڑھتے اخراجات کی وجہ سے یہ سہولت آہستہ آہستہ
عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے ۔
جناب عمران خان ! آپ نے عوام کے علاج معالجے میں درپیش مسائل کو سمجھا اور
صحت کارڈ کا اجراء کیا ۔ آپ قوم کے وہ مسیحا ہیں جس نے سفید پوش عوام کی
نجی ہسپتالوں تک رسائی ممکن بنائی اور صحت کارڈ کے ذریعے ان کا مہنگے
ہسپتالوں میں علاج یقینی بنایا۔ جناب وزیر اعظم ! آپ کی وجہ سے ملکی تاریخ
میں صحت کارڈ کی صورت میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ سفید پوش طبقے کو بھی
امیر لوگوں کی طرح نجی ہسپتالوں سے علاج کی سہولت میسر آئی، جہاں کا وہ صرف
سوچ ہی سکتے تھے ۔
جناب وزیر اعظم ! ایسے ہی معاشرے کو درپیش تعلیم کے مسائل بھی سمجھیں اور
تعلیم کو سہارا دیتے ہوئے ’’ایجوکیشن کارڈ‘‘ جاری کرنے کا سوچیں۔ یہ
’’تعلیم کارڈ‘‘ نجی تعلیمی اداروں کی لوٹ مار کے آگے بند باندھ اور عام
طالبعلم کو بہترین تعلیمی ادارے میں تعلیم کی سہولت دے سکتا ہے۔ یہ اقدام
نجی سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے ’’کھلے ہوئے منہ‘‘ بند کر سکے گا ۔
یوں سفید پوش گھرانے کے طلباء بھی اچھے تعلیمی اداروں سے بہترین تعلیم حاصل
کر سکیں گے اور جناب عمران خان ، آپ کے ویژن کے مطابق یہ نوجوان جدید علوم
اور اعلیٰ تعلیم سے آراستہ ہو کر اپنی زندگیاں سنوار سکیں گے۔ صحت کارڈ کی
طرح ’’تعلیم کارڈ‘‘ بالخصوص متوسط طبقے کو کس قدر فائدہ دے سکتا ہے، یہ سوچ
کر ہی قلبی اطمینان بڑھ جاتا ہے ۔ پاکستان 2030ء تک 100 فیصد شرح خواندگی
یقینی بنانے کیلئے کوشاں ہے۔ اگر ہم واقعی یہ ہدف حاصل کرنے میں سنجیدہ ہیں
تو اس کا حصول تعلیم کارڈ سے ہی ممکن ہے ۔
جناب عمران خان ! یہ کام یقینا آپ ہی کر سکتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے دیگر
سیاستدان اور ماضی کے حکمران تو عوام کے کرب سے بے نیاز رہتے ہوئے نجی
تعلیمی اداروں اور پرائیویٹ ہسپتالوں سے مستفید ہوتے رہے ہیں ، لیکن عام
لوگوں کیلئے انہوں نے ان تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں تک رسائی کا کبھی کوئی
انتظام کیا اور نہ ہی ان بے لگام گھوڑوں کے اخراجات آگے بند باندھنے کی
کوشش کی۔ مگر ، جس طرح آپ نے عوام کو اپنے علاج کے اخراجات سے بے فکر کیا ،
ایسے ہی ایجوکیشن کارڈ کا اجراء کر کے تعلیمی اخراجات سے بھی بے فکر کر
دیجئے۔
جناب عمران خان ! قوم کو آپ سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں ۔ گو کہ آپ بیشتر
امیدوں پر پورا بھی اتر رہے ہیں ، لیکن امیدوں کا دائرہ بھی وقت اور حالات
کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ تعلیم کی اہمیت سے آپ سے بڑھ کر
کون آشنا ہو سکتا ہے ۔ آپ تو نئی نسل کو جدید علوم سے آراستہ کرنے پر زور
دیتے ہیں ۔ آپ نہ صرف عوام دوست بلکہ تعلیم دوست حکمران بھی ہیں ۔ جس طرح
آپ نے صحت کارڈ سکیم کا آغاز کر کے بے شمار لوگوں کی دعائیں سمیٹی ہیں،
بالکل ایسے ہی تعلیم کارڈ بھی جاری کیجئے ۔ اس قدر سفید پوشوں کے ہاتھ آپ
کیلئے دعا کو اٹھیں گے ، کہ خود آپ کے بھی وہم و گمان میں نہ ہوگا ۔
’’تعلیم کارڈ‘‘ ہمیں وہ فائدہ دے گا جس کا گذشتہ 70 سالوں میں ہم صرف سوچ
ہی رہے ہیں ۔ ایجوکیشن کارڈ سے نہ صرف شرح خواندگی کا سو فیصد ہدف حاصل کیا
جا سکتا ہے بلکہ پاکستان بھی تعلیمی ترقی کی وہ منازل طے کر سکتا ہے جن کا
ذکر آج تک صرف بیان بازیوں اور خواب دیکھنے تک ہی محدود تھا ۔ پالیسی ساز
اس امر پر ضرور توجہ دیں ، کہ یہ وقت کی ضرورت بھی ہے اور حالات کا تقاضہ
بھی ……
|