اس روز رنگوں اور رونقوں سے آڈیٹوریم اور اس کے ارد گرد
کا علاقہ مزین تھا۔ ایک طرف سیمینار جاری تھا تو دوسری جانب خوبصورت
پروجیکٹس کی نمائش ہو رہی تھی۔ طالبِ علموں کے بناۓ ہوۓ ایسے نمونے جنہیں
دیکھ کر عقل فی الواقع یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہو جاۓ کہ قدرت نے انسان کو
بے شمار صلاحیات عطا کر رکھی ہیں۔ اگر انسان ایک مرتبہ اپنے آپ کو خود
آگاہی کے رستے پر ڈال دے تو وہ خود میں پنہاں اللہ کے ودیعت کردہ ایسے ایسے
جواہرات کو پا لے کہ اس کی دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں۔ اس تقریب کے چپ و
راست میں صرف ایک شے کا چرچہ تھا، "سیپ (SAP)"۔ اصل چیز یہ سیپ تھی جس کے
لیے سارا اہتمام کیا گیا تھا۔ آخر یہ سیپ کیا تھا؟
سیپ SAP (سوشل ایکشن پروجیکٹ) ایک ایسی اصطلاح ہے جو عام طور پر استعمال کی
جاتی ہے اور اس سے یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ سماج کو بہتر بنانے کے لیے کوئی
عمل کیا جاۓ۔ اس اصطلاح کو مزید وسیع تر معنوں میں شعبہ تعلیم، جامعہ کراچی
سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر معروف بن رئوف نے ایک منفرد انداز میں طالبِ
علموں کو انٹر پرینیور شپ سکھانے کے لیے استعمال کیا۔ طلباء کو ایک
اسائینمینٹ دیا گیا جس میں انہیں انتہائی ذیلی سطح پہ جا کر اپنی کسی بھی
صلاحیت کا انتخاب کر کے پچاس افراد کو اس کی تعلیم دینی تھی۔ مثلاً آرٹ ورک
کرنا، مہندی لگانا، میکپ کرنا، پیپر کرافٹ کرنا اور ڈرائینگ کرنا وغیرہ۔ اس
صلاحیت کو ایک پروجیکٹ کی شکل دے کر اس کا نام اور پنچ لائین منتخب کرنی
تھی۔ غرض یہ کہ طلباء نے برانڈ بنانا سیکھا۔ پھر اس صلاحیت کے مطابق چند
مقاصد طے کرنے تھے جو کہ اس امر کو طلباء کے ذہنوں میں راسخ کرنے کے لیے
بھی تھے کہ زندگی میں کوئی بھی کام، خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، بغیر مقصد کے
سر انجام نہیں دیا جاتا۔ اگلے مرحلے میں اس صلاحیت کو سکھانے کے دوران آنے
والی رقم کا بجٹ تیار کر کے اس سلسلے میں کوشش کرنی تھی کہ بجٹ زیادہ سے
زیادہ اسپانسر ہو جاۓ۔ اس مرحلے کا ایک مقصد طلباء میں اس چیز کا احساس
بیدار کرنا تھا کہ کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت اس کے مختلف زاویوں پہ غور کرنا
از حد ضروری ہے۔ یقیناً صلاحیات کے چناؤ میں یہ بات ہر طالبِ علم کو معلوم
تھی کہ ایسی صلاحیت کا انتخاب کرنا ہے جسے سکھانے میں بجٹ اتنا نہ بنے کہ
اس کا انتظام نہ کیا جا سکے۔ مزید یہ کہ اسپانسرز سے بات کرنے اور انہیں
قائل کرنے سے طالبِ علموں نے سیکھا کہ کیسے اپنی فیلڈ کے لوگوں سے رابطہ
قائم کر کے کنیکشن بنایا جاتا ہے۔ انسان ہر جگہ دوسروں پر کسی نہ کسی حد تک
انحصار کرتا ہے۔ آگے بڑھیں تو مارکِٹِنگ کا مرحلہ ہے جس کے ذریعے اپنے
پروجیکٹ سے متعلق لوگوں کو آگاہی دینی تھی۔ جب کورس مکمل ہو گیا تو طلباء
سے در کار تھا کہ وہ اس کی سوشل میڈیا پہ تشہیر کریں تاکہ اس طریقے کو
معاشرے میں عام کیا جا سکے۔
ویسے تو یہ کام تفویض کرنے کے پیچھے بہت سے مقاصد ہیں، لیکن چند مقاصد کا
ذکر کرنا لازمی ہے تاکہ اس کی اصل روح کو سمجھا جا سکے۔ اول تو یہ کہ اس کے
پیچھے ہاورڈ گارڈنر کا متعدد ذہانت کا نظریہ کار فرما ہے۔ گارڈنر کے مطابق
دنیا کا ہر انسان ذہین ہے لیکن اس کی ذہانت کا دائرہ مختلف ہے۔ جس طرح انڈے
اور دودھ ایک ہی پیمانے میں نہیں تولے جا سکتے بالکل اسی طرح ہر انسان بھی
ایک ہی ترازو میں نہیں پرکھا جا سکتا کیوں کہ دو انسانوں کی خصوصیات میں
فرق پایا جاتا ہے۔ عموماً ہمارے تعلیمی نظام میں صرف تحریری صلاحیات کی
جانچ کی جاتی ہے اور باقی ماندہ صلاحیات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یہ
پروجیکٹ اس اعتبار سے ایک اہم پروجیکٹ ہے کہ اس میں ہر طالبِ علم کو اپنی
صلاحیات سے نہ صرف واقفیت حاصل ہوتی ہے بلکہ انہیں سامنے لانے کا موقع بھی
میسر آ جاتا ہے۔ ان صلاحیات کو آگے صحیح سمت میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
مثلاً اگر کوئی گرافک ڈزائیننگ کے فن سے واقف ہے تو یہ ممکن ہے کہ وہ اپنی
صلاحیت کو پہچان کر اور خود اعتمادی حاصل کر کے آگے اپنے شعبے کو فائدہ
پہنچاۓ۔
دوئم یہ کہ پاکستان کی اکثر آبادی بے روزگاری جیسے مسائل سے نبرد آزما ہوتی
ہے۔ سیمینار میں ہی موجود ایک معلم نے بتایا کہ جب انہوں نے تحقیق کی تو
معلوم ہوا کہ ایک سال میں تقریباً چار لاکھ اسّی ہزار طالبِ علم یونیورسٹیز
سے فارغ ہوۓ جن میں سے ایک لاکھ بہتّر ہزار افراد ہی نوکری کے حصول میں
کامیاب ہو سکے۔ جب ایسی صورتِ حال ہو تو اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی
ہے کہ طالبِ علموں کو اس طرح سے تیار کر دیا جاۓ کہ وہ در بدر پھرنے کے
بجاۓ انٹر پرینیور شپ کے ذریعے اپنی گزر بسر کر سکیں اور اپنی زندگیاں
نوکری کے لیے دھکے کھا کھا کر ضائع نہ کریں۔ نوکری نہ بھی ہو تو ان کے پاس
کوئی دوسرا آپشن موجود ہو۔ مراد یہ کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو صحیح
سمت دکھانے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی تازہ اینرجی ضائع ہونے سے بچ جاۓ اور وہ
نہ صرف خود کو یا اپنے خاندان کو فائدہ پہنچائیں بلکہ اس طرح ملکی معیشت کا
معیار بھی بلند کر سکیں۔ ڈاکٹر معروف کی پیروی کرتے ہوۓ اگر اس طرز کے کام
تفویض کیے جائیں تو نہ صرف نوجوانوں کو جماعت میں متحرک کیا جا سکتا ہے،
بلکہ ان نوجوانوں کو ہنرمند نوجوانوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ نیز یہ کہ
ان میں فیصلہ سازی، خود اعتمادی اور کئی دیگر ایسی صلاحیات پروان چڑھائی جا
سکتی ہیں جو آئندہ زندگی میں ان کی معاون و مدد گار ثابت ہوں۔ جب وہ جامعہ
سے نکلیں تو ایک عدد ڈگری اور چند فلسفے لے کر نہ نکلیں بلکہ وہ اپنی آنے
والی پیشہ ورانہ زندگی کے لیے تیار ہو کر نکلیں۔
|