سبز نم گھاس پر بکھرے زرد پتوں پر سجاول کے سرخ و سفید پاؤں ہمیشہ کی طرح
دلکش لگ رہے تھے۔ماہی اُس کے قدموں میں بیٹھی ایک پتے کی نوک سے اُس کے
پاؤں سہلانے لگی کچھ دیر برداشت کے بعد پارک کے بینچ پر بیٹھے سجاول نے اُس
کے بالوں کی ایک لٹ کو پیار سے سہلاتے ہوئے مسکرا کر پوچھا کیا جادو کر رہی
ہو۔کیا ماہی راجپوت کو سجاول علی پر کسی جادو ٹونے کسی تعویز دھاگے یا
وظیفے کی ضرورت ہے اُس نے تڑپ کر پوچھا۔ماہی کے آنکھوں کی نمی نے سجاول کو
ہلا دیا۔نہیں نہیں میری زندگی سجاول علی جس نے کسی لڑکی کی طرف کبھی آنکھ
اُٹھا کر نہیں دیکھا تمہارے خلوص،چاہت اور سادگی نے پہلی نظر میں ہی جیت
لیا تھا۔اب یہ نظر اور جیت کبھی کسی کا مقدر نہیں بن سکتی۔رسم و رواج اور
خاندانی روایت کے آگے ماہی اور سجاول بے بس ہو گئے مگر محبت بے بس نہیں ہو
تی ہے اُسے جب ہونا ہوتا ہے ہو جاتی ہے گدی نشین سید سجاول کو بھی ہو گئی
ایک غریب گھر کی بیٹی ماہی سے۔ ماہی نے سجاول کے پاؤں پر اپنی گرفت مضبوط
کرتے ہوئے کمزور سے لہجے میں کہا سنو سجاول اگر کہیں بھی میرا ساتھ آپ کے
لیے مشکل تکلیف کا باعث بنے میں غلطی یا گناہ لگنے لگوں تو آپ کو پوری
اجازت ہے آپ کنارہ کش ہو جائے۔سجاول نے تڑپ کر اُس کے نرم گالوں کو اپنی
مضبوط ہتھیلیوں کے حصار میں لیا آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مضبوط لہجے میں
کہا شاید میں اور تم خاندانی روایت کے آگے مجبور ہو گئے مگر محبت نہیں
مجبور نہ غلطی نہ گناہ۔اگر زندگی میں ایسا کوئی موقع آیا تو غلطی دور کر
لیں گے گناہ سے توبہ کر لیں گے مگر کبھی اپنے خلوص اور بے لوث چاہت کے رشتے
کو توٹنے نہیں دے گے۔ماہی راچپوت سید سجاول علی وعدہ کرتا ہے روح سے روح کا
رشتہ ہے تم سے،روح نے جسم کا ساتھ چھوڑبھی دیا تومحبت کا یہ رشتہ روح سے
ہمیشہ قائم رہے گا۔
|