خاموش لڑکی

اندھی ہو تم!"
تمہیں کچھ نظر نہیں آتا, تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے کپڑوں کو ہاتھ لگانے کی اتنے گندے ہوتے ہو تم لوگ ، سکینہ آپا یہ سب سن رہی تھی اور نظریں جھکائے کھڑی تھی ۔
عروہ یہ سب کہہ کر کمرے سے باہر چلی جاتی ہے عروہ اپنے گھر میں سب سے بڑی ہوتی ہے بہت مغرور اور گھمنڈی ہوتی ہے اسے اپنی خوبصورتی اپنی ،دولت ہر چیز پر غرور ہوتا ہے ۔
کیا ہوا ؟
آج یونیورسٹی نہیں جا رہی ہو تم ؟ عروه کی امی نے پوچھا ۔
نہیں !موم نہیں جا رہی ، میرا آج موڈ نہیں ہے جانے کا ۔
خیریت ! سب ٹھیک ہے بیٹا ؟ عروه کی امی نے سوال کیا ۔
کچھ نہیں !موم آپ نے نوکروں کو بہت سر پہ چڑھایا ہوا ہے، انہی کی وجہ سے صبح صبح میرا موڈ خراب ہو گیا ۔
ہوا کیا ہے ؟
میں نے اپنا نیا ڈریس بیڈ پر رکھا تھا ، سکینہ آپا ناشتہ ليكر آئی تو اس پر چاۓ گر گئی۔
بس اتنی سی بات ہے ، تمہارے پاس اور بہت سارے کپڑے ہیں ان میں سے کوئی کپڑے پہن لو عروہ کی امی نے کہا۔
نہیں ! مجھے وہی ڈریس پہننا تھا اب میں نہیں جا رہی ہوں ، یہ کہتے ہوے گارڈن سے کمرے کی طرف چلی جاتی ہے ۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی ٹیبل پر رکھے موبائل پر کال آتی ہے ۔ کال اٹینڈ کرنے کے بعد عروه کہتی ہے، کیا ہوا؟ صبح صبح کیوں کال کی ہے ۔
صبح صبح ، کیا مطلب تمہاری ابھی صبح ہوئی ہے وقت دیکھا ہے؟ 12:30
جی دیکھا ہے ، عروه نے جواب دیا ۔
اچھا یہ سب چھوڑو! یہ بتاؤ کہ تم آج یونیورسٹی کیوں نہیں آئی؟
میں ، حاشر اور حمزہ کب سے تمہارا ویٹ کر رہے ہیں ، علیزے نے سوال کیا ۔
کل ملتے ہیں، یہ کہتے ہوئے عروہ کال کٹ کر دیتی ہے ۔اعلیزے ، حمزہ ،حاشر اور عروہ کی دوستی کو ابھی دو ماہ ہی ہوے ہوتے ہیں ۔ان کا ابھی پہلا سال ہی چل رہا ہوتا ہے ۔
ابھی سب علیزے سب کو یہ بتا ہی رہی ہوتی ہے ہےلگتا ہے میڈم کا موڈ خراب ہے ۔تبھی اس کی نظر ایک لڑکی جو عبایا پہنیں نقاب میں اپنے بابا کے ساتھ کافی دیر کھڑی ہوکر اپنے بابا سے بات کررہی ہوتی ہے اور پھر وه انگلش ڈیپارٹ کی طرف چلی جاتی ہے ۔
حمزہ دو منٹ میں آئی یہ کہہ کر علیزے وہاں سے چلی جاتی ہے ۔
اب اسے بھی دوست بنا ليگی یہ حاشر نے حمزہ کو کہا ۔
علیزے اس عبایا والی لڑکی سے دوستی کرلیتی ہے ۔علیزے کی عادت ہوتی ہے کہ کوئی بھی طالب علم جس کا یونیورسٹی میں پہلا دن ہو تو وه جہاں تک ہو سکتا ہے اس کی ہیلپ کرتی ہے ۔
ہائے ، "آئی ایم علیزے ، سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ ۔
آپ کا کیا نام ہے ؟
یمنہ !
اچھا یہ بتائیں آپ کو کہاں جانا ہے میرا مطلب کونسا ڈیپارٹمنٹ ہے آپ کا ؟
دراصل، مجھے بھی سائیکالوجی کے ڈیپارٹمنٹ جانا ہے یمنہ نے علیزے کو جواب دیا ۔
پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے آج سے ہم دونوں دوست ہیں علیزے نے يمنہ کو کہا ۔
بہت شکریہ ! آپ کا میرا آج پہلا دن ہے اور میں بہت زیادہ نروس تھی کہ پتہ نہیں کیا ہوگا ۔
اچھا تم بہت پیاری ہو عبایا میں بھی اتنی پیاری لگ رہی ہو چلو پہلے GCR چلتے ہیں وہاں آپ عبایا اتار لینا ۔
نہیں ،نہیں، میں عبایا نہیں اتارتی میں پردہ کرتی ہوں يمنہ نے جواب دیا ۔
آپ شرعی پردہ کرتی ہیں کیا ؟ بہت مشکل ہوتی ہوگی نا ؟ علیزے نے پوچھا ۔
نہیں بس ابھی ہی سٹارٹ کیا ہے شرعی پردہ تو نہیں لیکن جہاں تک مجھ سے ہوسکتا ہے میں کوشش کرتی ہوں ۔
گڈ ! علیزے نے کہا ۔
مجھے تو اپنا چہرہ دکھا دو یہاں صرف لڑکیاں ہیں ۔
يمنہ نقاب ہٹاتی ہے نورانی چہرہ ،معصوم سی صورت ،گوری رنگت ، گلابی ہونٹ اور چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ دیکھ لیا میرا چہرہ آپ نے یہ کہتے ہی وه دوبارہ نقاب کر لیتی ہے ۔
ہاں جی ! دیکھ لیا یار تم تو بہت بہت پیاری ہو يمنہ ۔
اچھا چلو میرے ساتھ ڈیپارٹمنٹ وہاں انہيں حمزہ حاشر بھی مل جاتے ہیں ۔
کہاں تھی آپ ؟
حاشر نے علیزے سے پوچھا ۔
گائیز کیا ہم گروپ میں انہیں بھی شامل کر لیں ؟علیزے نے کہا ۔
یہ یمنہ ہے ہماری جونئیر ۔
اور ہم ان کے سينئر ، حاشر کی پہلی نظر جو آج کسی لڑکی پر تررکی حمزہ نے ہاۓ کہتے ہوۓ سلام کے لئے ہاتھ آگے کیا ، يمنہ نے بنا ہاتھ ملائے کہا ۔
وعلیکم السلام !
میں حمزہ ، اور یہ حاشر آپ ہماری بہنوں کی طرح ہیں بلکل کوئی بھی کام ہو بتا دینا ۔
حاشر جو اب کسی سوچ میں گم تھا اوے کیا ہوگیا ہے اپنا انٹرو تو کروا دے ۔
جی جی "میں حمزہ" حمزہ نے نظريں جھکائے کہا ۔
حمزہ کہتا ہے لگتا ہے ،کسی کو پہلی نظر والا پیار ہوگیا ہے ۔
حاشر نے حمزہ کے پاؤں پر زور سے پاؤں مارا ۔
آہ ! یار کیا ہوگیا حاشر نے حمزہ سے پوچھا ۔
کچھ نہیں حاشر نے وه ، کچھ نہیں ہوا حاشر نے کہا
حمزہ جو حاشر کے ساتھ ،جبکہ علیزے حمزہ کے سامنے اور حاشر کے سامنے يمنہ بیٹھی ہوتی ہے ۔
حمزہ يمنہ کو دیکھنا چاہتا تھا لیکن ہمت نہیں تھی کہ اسے دیکھے ۔
یمنہ ، حاشر، علیزے، حمزہ اور عروہ امیر گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ۔
یمنہ تمیز دار ،ہر کسی کے درد کو سمجھنے والی اور دوسرے کی مدد کرنے والی لڑکی ہوتی ہے امیر غریب میں ڈیفرنس نہیں کرتی ۔
اگلے دن عروه کی سب سے ملاقات ہوتی ہے ۔‏ ہاؤ آر یو گائز ؟ عروه نے پوچھا ۔
ہم سب ٹھیک آپ سنائیں میڈم !
یار علیزے تم نے مڈل کلاس لوگوں سے کب سے دوستی کرلی ۔
عروه نے عبایا میں کھڑی يمنہ کی جانب دیکھتے ہوۓ کہا ۔
یہ بھی ہمارے گروپ کی ميمبر ہے حاشر نے سخت لہجہے میں کہا ۔تمھیں کوئی اعتراض ہے ؟
نہیں، نہیں، اگر تمہيں کوئی مسلہ نہیں تو مجھے بھی نہیں ہے عروه نے کہا ۔
عبایا کیوں پہنا ہوا ہے ؟ عروہ نے سوال کیا ۔
کیا مطلب ؟ تمہارا ،علیزے نے جواب دیا ۔
کیا ضروری ہے کہ جو لڑکی سر پر دوپٹہ رکھے ، عبایا پہنے وہ میڈل کلاس ہی ہو ، "ویسے بھی ہمارا سلام ہمیں پردہ کرنے کا حکم دیتا ہے "اب ہم پردہ تو نہیں کرتے لیکن ایٹ لیسٹ ہم اپنے سر پر دوپٹہ تو پہن ہی سکتے ہیں ۔
يمنہ سے سوال کیا تھا میں نے عروہ نے کہا ۔ابھی وه مزید کچھ کہنا ہی چاہتی کہ يمنہ نے جواب دیا ۔
"عبایا میری پہچان ہے" آپ کو مجھ سے کوئی پرابلم ہے تو میں چلی جاتی ہوں ۔
معافی چاہتی ہوں آپ کی پرمیشن کے بغیر ہی میں آپ کے گروپ میں آگئی ۔
نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں علیزے نے کہا ہم سب کی مرضی شامل ہے ۔
یار کیا ہوگیا ہے تم دونوں کیوں بحث کر رہی ہو ؟
ویسے علیزے نے کوئی غلط بات نہیں کہی، حاشر نے يمنہ کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا ہر وہ لڑکی جو پردہ کرے یا تمیز سے بات کرے وه مڈل کلاس نہیں ہوتی ۔
پتہ نہیں آج کل ہم یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ پردہ کرنے والی لڑکیاں غریب ہوتی ہیں ۔
جبکہ ہر لڑکی کو پردہ کرنا چاہے ۔
چلو چھوڑو اس بات کو کلاس شروع ہونے والی ہے ، حمزہ نے کہا ۔
حاشر تم اس طرح کی سوچ رکھتے ہو میں تمہیں ایسا نہیں سمجھتی تھی ، عروه نے کہا ۔
کلاس کے بعد يمنہ بغیر کسی کو بتائے گھر چلی جاتی ہے ۔حمزہ حاشر عروه اسے ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔
کچھ زیادہ ہی بول دیا شاید میں نے ، عروه چلتے ہوئے کہتی ہے ۔
ناراض ہو کر گھر چلی گئی ہوشاید ؟ حمزہ نے کہا ۔
نہیں وہ ایسی لڑکی نہیں ہے ضرور کوئی بات تو ہو گی جو وہ گھر گئی ہے لیکن عروہ کی باتوں کا اسے برا نہیں لگا تھا اتنا تو ہم اسے جاننے لگے ہیں ۔
ہاں شاید تم صحیح کہہ رہے ہو عروہ نے کہا ۔
چھٹی کے بعد سب اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں ۔گھر جا کر عروہ يمنہ کو کال کرتی ہے اور کہتی ہے کیا ہوا سب خیریت ہے میری باتوں کا برا لگتا ہے تو سوری یار میں کچھ زیادہ ہی بول گئی ۔
نہیں ،نہیں، ایسی کوئی بات نہیں بس میری طبیعت خراب ہوگئی تھی اسی وجہ سے میں گھر آ گئی تھی بابا کے ساتھ ،میں نے سوچا آپ کو بتاؤں گی تو تم سب پریشان ہو جاؤ گے اسی لئے بغیر بتائے ہیں میں گھر چلی آئی ۔
اچھا ٹھیک ہے کل ملیں گے یہ کہتے ہوئے عروه کال کٹ کر دیتی ہیں ۔
بیڈ پر لیٹے ، سامنے کھڑکی کھلی تھی جہاں سے چاند صاف دکھائی دے رہا تھا اور اس چاند کی روشنی آسمان پر پھیلی ہوئی تھی حاشر اپنی کروٹیں بدل رہا تھا کبھی ادھر ،کبھی ادھر ،کبھی دائیں ،کبھی بائیں، آج اسے نیند نہیں آ رہی تھی ۔وه آنکھیں بند کرتا تو اسے يمنہ کی آنکھیں اور اسی کی صورت نظر آتی ہے وه اسی کے بارے میں سوچ رہا ہوتا ہے ۔
آدھی رات گزر جاتی ہے حاشر کو آج نیند نہیں آ رہی ہوتی اور صبح فجر کی اذان کی آواز آرہی ہوتی ہے اور حاشر کی آنکھ لگ جاتی ہے ۔
بیٹا طبیعت تو ٹھیک ہے ؟ حاشر کی امی نے پوچھا ،
جی موم ! آئ ایم فائن ۔
اچھا میں چلتا ہو یونی ۔
کیا ہوگیا ہے بیٹا 2 بج رہے ہیں دن کے
واٹ ؟ آپ نے مجھے کیوں نہیں جگایا ؟
کوئی بات نہیں کل چلے جانا اگلے دن حاشر یونی جاتا بے تو وہاں سب ہوتے ہے لیکن حاشر جسے دیکھنا چاہتا ہے وه نہیں ہوتی ۔
کہاں گائب ہو آج کل ؟
حمزہ اور عروہ نے کہا ۔
کچھ نہیں بس کچھ کام تھا اس لئے بزی تھا ۔
اچھا چلو كيفاٹیریا چلتے ہیں حمزہ کہتا ہے يمنہ کو بھی ساتھ بلا لو ۔حاشر کی جانب دیکھتے ہوۓ کہا۔
نہیں وه نہیں آئے گی میں نے کہا تھا اسے کہہ رہی تھی کلاس ہے ۔عروہ نے کہا ۔
سچ میں تم نے اس سے کہا !حمزہ نے سوالیہ انداز میں پوچھا ۔
جی ! میں نے سوری بھی کرلی ۔
گڈ ! حاشر نے کہا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔دو ماہ بعد ۔۔۔۔۔۔۔
سنو ! سنو ! علیزے نے يمنہ کو آواز دی ، کہاں رہتی ہو نظر نہیں آتی تم !
کچھ خاص نہیں بس کلاس لینے کے بعد بابا کے ساتھ چلی جاتی ہوں ۔اچھا چلو آج ہمارے ساتھ بیٹھ جاو ۔
اچھا آتی ہوں تم جاؤ ۔
کلاس ختم ہونے کے بعد وه ڈپارٹمنٹ جاتی ہے وہاں کوئی نہیں ہوتا صرف حاشر ہوتا ہے وه بھی علیزے اور حمزہ اور خاص کر يمنہ کو ڈھونڈ رہا ہوتا ہے۔
السلام علیکم ! يمنہ نے حاشر کو سلام کیا ۔
وعلیکم السلام ! کیسی ہیں آپ ؟
میں ٹھیک ہوں، دراصل علیزے نے کہا تھا آج مجھ سے مل کر جانا ، آپ نے دیکھا ہے کیا انہیں ؟
یہیں ہوگی کہیں میں بھی انہیں ہی ڈھونڈ رہا ہوں ۔
یہاں ہیں ہم پیچھے سے حمزہ علیزے اور عروه کی آواز آئ ۔
کل میرا جنم دن ہے سب وقت پر آجانا علیزے نے سب کو انوائٹ کیا ۔اوکے جی سب نے جواب دیا ۔
آپ بھی! علیزے نے يمنہ کو کہا ۔
اچھا ٹھیک ہے بابا سے پوچھ کر بتا دونگی ۔
اتوار کےدن رات کے 7 بجے عبایا پہنے پارٹی میں يمنہ داخل ہوتی ہے ۔
یار آج تو عبایہ اتار دو يمنہ ، يمنه کا نام سن کر حاشر کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں ۔
نہیں میں نہیں اتار سکتی اچھا پھر دوپٹہ لائی ہو کیا ہاں لائی ہوں اتارو عبایہ اسی سے نقاب کرلو ۔
میں یہاں کسی کو نہیں آنے دونگی ۔
اچھا ٹھیک ہے وائٹ كلر کا ڈوپٹہ آنکھوں میں کاجل يمنه آج بہت حسین لگ رہی ہوتی ہے ۔
تبھی وہاں حاشر آجاتا ہے اور جب حاشر کی نظر وائٹ کپڑوں میں کھڑی يمنہ جو اكيلی نظریں جھکائے بیٹھی ہوتی ہے پر پڑتی ہے وه اسے دیکھتا ہی رہ جاتا ہے ۔
وہ چاہتا تھا کہ وہ آج يمنہ کو بتا دے کہ وہ اسے پسند کرتا ہے لیکن اسے یہ بات کہنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی تھی ۔کیونکہ يمنہ معصوم اور صاف دل لڑکی ہوتی ہے ۔ لڑکوں سے کبھی فری نہ ہوتی تھی وه صرف کام کی بات کرتی کبھی بھی اپنی حدود كراس نہ کرتی اسے معلوم ہوتا ہے کہ کس شخص سے کس طرح بات کرنی ہے یہی وجہ ہوتی ہے کہ وہ کبھی بھی حاشر اور حمزہ سے بات نہیں کرتی بلکہ انہوں نے بات چیت کے لئے گروپ بنایا ہوتا ہے وہاں پر تمام تر باتیں ہوتی ہیں ۔يمنہ بہت کم بولتی ہے اس لئے حمزہ نے اس کا نام خاموش لڑکی رکھا ہوتا ہے ۔رات میں سب اپنے گھر چلے جاتے ہیں ۔
آج پھر حاشر اپنے دل کی بات نہیں کہہ پاتا اور وه يمنہ کے بارے میں سوچتے سوچتے سو جاتا ہے ۔
ابھی حاشر کی آنکھ لگی ہی ہوتی ہے کہ اس کے موبائل پر کال آتی ہے وہ کال اٹھا تا ہے اور کہتا ہے کیا ہوا اتنی رات کو کال ، خیریت ؟
کچھ نہیں میں نے سوچا تم سے بات کرلو آج نظر نہیں آئے پارٹی میں ، عروہ نے کہا۔
تمہاری بات ہوئی کیا ؟
کس سے ؟ عروہ نے سوال کیا ۔
يمنہ سے ، حاشر نے جواب دیا ۔
وه آج پارٹی میں نہیں آئی تھی کیا ؟ حاشر نے انجان بنتے ہوئے سوال کیا ۔
آئی تھی ، عروه نے جواب دیا ۔
میں نے تمہیں کسی کام سے کال کی لیکن تم ہو کہ يمنہ کے بارے میں پوچھے جا رہے ہیں خود کیوں نہیں پوچھ لیتے اس سے نمبر ہے نا گروپ میں ، عروه نے کہا ۔
صبح مل کر بات کریں گے اللہ حافظ ! عروہ یہ کہہ کر کال کر کٹ کر دی ۔
السلام علیکم! کیسے ہو سب ، يمنہ نے پوچھا ۔
ہم سب ٹھیک ہیں، محترمہ یہ بتائیں کہ آپ کل کہاں غائب ہو گئیں تھی وہ بھی بنا بتائے ۔
تجھے بڑی فکر ہو رہی ہے حمزہ نے حاشر کے کان میں کہا ویسے یہ بتاؤ مجھے لگتا ہے میرے یار کو پیار ہو گیا ہے ۔
چپ کر یار ! حاشر نے حمزہ کے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا ۔
کل بھی يمنہ نے پردہ کیا ہوا تھا جبکہ وہاں صرف لڑکیاں تھیں ۔دراصل اب عادت ہوگئی ہے اس لئے ۔عجیب لگتا ہے عبایہ نہ ہو تو بس کرو ! کون سے زمانے کی سوچ لے کر بیٹھی ہو، عروہ نے کہا ۔
اگر تم اس طرح کی سوچ رکھتی ہوں تو تم نے یہاں پر ایڈمیشن کیوں لیا گھر میں بیٹھ کر پڑھتی ۔ایک تو تم لوگوں کی بات مجھے سمجھ نہیں آتی، تم لوگ پڑھنا بھی چاہتے ہو ،آگے بڑھنا بھی چاہتے ،ہو لڑکوں سے دوستی کرنا بھی چاہتے ،چھپ کر باتیں بھی کرتی ہو اور سامنے ایسے بیہو کرتی ہو جیسے تم سے زیادہ نیک پروین کوئی ہو ہی نا ،عروہ نے رات کا غصہ يمنہ پر اتارا تھا ۔
يمنہ یہ سننے کہ بعد ایک لفظ بھی نہ بولی اور وہاں سے چلی جاتی ہے ۔حاشر کہتا ہے يمنہ ہم تمھيں جانتے ہیں تم ایک باکردار لڑکی ہو ۔ نہیں بس جب کردار پر بات آجائے تو بات ختم ہوجاتی ہے مجھے کوئی صفائی نہیں دینی جس نے جو سوچنا ہے سوچے ۔
حمزہ اور حاشر ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوتے ہیں حمزہ حاشر سے کہتا ہے یار یہ تو کام بننے سے پہلے ہی بگڑ گیا ، اب کیا ہوگا میرے یار کا حمزہ نے کہا ۔
میں یہاں پریشان ہوں اور تجھے ابھی بھی مستی سوجھی ہے ۔
رکو! یمنہ کہاں جا رہی ہو اور وہ ایسے ہی کہہ دیتی اس کی باتوں کا برا مت ماننا ہاں علیزے نے یمنہ کو روکتے ہوئے کہا ۔لیکن وه نہیں رکتی ۔
پریشان نہ ہو حاشر اگر تمہاری محبت سچی ہے تو اللّہ تم دونوں کو ضرور ملوائے گا علیزے نے کہا ۔
کیا کہا ؟ حاشر نے سوال کیا ایسا کچھ نہیں ہے ۔
اچھا سچ میں پھر اس دن پارٹی میں يمنہ کو اتنی پیار بھری نظروں سے کیوں دیکھ رہے تھے ، اور جب 2 ماہ يمنہ ہم سے ملنے نہیں آتی تھی مجھ سے کوئی پوچھا کرتا تھا آج بھی نہیں آئی ۔
عروه جب بھی کوئی بھی بری بات يمنه کے بارے میں بولتی ہے تو تمھیں کیوں غصہ آتا ہے ۔
یہ پیار نہیں تو اور کیا ہے ۔آپ کی سسڑ ہوں اتنا تو جانتی ہوں آپ کو بھائی ۔
نیکسٹ ڈے ویلنٹائن ڈے ہوتا ہے سرخ میکسی بہنیں، بال کھلے تھے جو دائیں بائیں بکھرے ہوئے تھے ، جو ہوا سے اڑ رہے تھے ۔گوری رنگت پر سرخ میکسی بہت ہی خوبصورت لگ رہی ہوتی ہے لمبا قد ، ہونٹوں پر لپ اسٹک ،آنکھوں میں مسکارا عروہ نہایت ہی حسین لگ رہی ہوتی ہے ۔یونیورسٹی میں موجودہ ہر شخص اسی کو دیکھ رہا ہوتا ہے عروه جسے اپنی خوبصورتی اور دولت پر بہت ناز ہوتا ہے اور وہ آج بڑے غرور سے زمین پر چل رہی ہوتی ہے اسے معلوم ہوتا ہے کہ سب اسی کو دیکھ رہے ہیں ۔ اس کی نظریں جو آج بھی حاشر کی جانب ہوتی ہیں حاشر اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا ۔
آج سب لوگوں کے سامنے اپنے پیار کا اظہار کرتی ہے اور کہتی ہے " آئی لوو یو " یہ کہتے ہوئے وہ حاشر کی جانب بڑھتی ہے ۔
حاشر جو کہ آج بلک کورٹ میں بہت ہی ہینڈسم لگ رہا ہوتا ہے لیکن آج وہ پریشان ہوتا ہے ۔تمام لڑکیاں اسی کی جانب دیکھ رہی ہوتی ہیں ۔
میں تم سے محبت کرتی ہوں عروه دوبارہ کہتی ہے ۔
یہ سن کر حمزہ اور حاشر دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے لگ جاتے ہیں حاشر ابھی کچھ کہنا ہی چاہتا ہے کہ حمزہ اسے روک لیتا ہے ۔
اس کے بعد سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں اور عروہ جو یہ سمجھتی ہے کہ کوئی اسے ناپسند ، ریجیکٹ کر ہی نہیں سکتا حاشر کے بہت ہی قریب آ کر بیٹھ جاتی ہے حاشر وہاں سے چلا جاتا ہے ۔
کیا بات ہے تم پریشان کیوں ہو؟ عروه نے سوال کیا ۔
اصل بات یہ ہے کہ میں تم سے محبت نہیں کرتا ۔
غصہ نہیں کرنا میرے دل میں جو ہے وہ بتا رہا ہوں میں کسی اور سے محبت کرتا ہوں ۔
اچھا ! یہ کہہ کر عروه بغیر کچھ کہے گھر چلی جاتی ہے ۔
دو تین دن گزر جاتے ہیں کسی کا کسی سے کوئی رابطہ نہیں ہوتا ایک ہفتہ گزرنے کے بعد يمنہ کی ملاقات علیزے سے ہوتی ہے ۔ وہ کلاس لینے کے بعد سائیکالوجی کے پارٹمنٹ میں جاکر بیٹھ جاتی ہے وہاں کتاب پڑھنے میں میں مصروف ہوجاتی ہے ۔
کیسی ہو ؟ علیزے نے یمنہ سے سوال کیا ۔
ٹھیک ہوں یار تم سناؤ کیا چل رہا ہے يمنہ نےجواب دیا ۔
کچھ خاص نہیں بس آج لڑکے والے آرہے ہیں مجھے دیکھنے ۔
مبارک ہو ۔يمنہ نے کہا ۔
کسی کو پسند کرتی ہو تو ابھی ہی بتا دو ويسے بھی ہمار ےمذہب میں زبردستی شادی نہیں کی جاتی لڑکی کی راۓ بھی لی جاتی ہے ۔
علیزے يمنہ کی یہ بات سن کر حیران ہوجاتی ہے کہتی ہے نہیں یار میری مرضی بھی شامل ہے اس میں ۔
ماشاءالله !
اللہ مبارک کرے یہ رشتہ ۔
اچھا ایک بات پوچھوں ، علیزے نے پوچھا ۔
ہاں، ہاں، پوچھو ۔
کیا تم کسی کو پسند کرتی ہو ؟ یہ تمھاری انگیجمينٹ ہوئی ہوئی ہے ۔
نہیں نہیں ابھی کہاں پڑھ تو لوں پہلے ،يمنہ نے ہنستے ہوۓ جواب دیا، ويسے بھی یہ فیصلہ میرے بڑے کریں تو اچھا ہے ۔
اچھا آج میرے ساتھ چلنا علیزے نے کہا اچھا ٹھیک ہے ۔
چھٹی کے وقت علیزے اور حاشر گھر جارہے ہوتے ہیں کہ عروه کے بابا کہتے ہیں بیٹا یہ آپ کے کلاس فیلو ہیں ہیں نا ابھی حاشرگاڑی میں بیٹھنے ہی لگتا ہے کہ علیزے کہتی بھائی میٹ فادر آف يمنہ ۔
ان کی یہ ملاقات بہت اچھی رہی ہوتی ہے يمنہ کے بابا کہتے ہیں علیزے ہمارے ساتھ جارہی ہے ۔
جی ٹھیک انکل ۔
یہاں علیزے جب يمنہ کا گھر ديکھتی ہے تو حیران رہ جاتی ہے یار تم نے بتایا نہیں کہ تمہارا اتنا شاندار گھر ہے ۔
يمنہ پہلے نماز پڑھتی ہے اس کے بعد عروہ کے پاس اکر بیٹھتی ہے ۔آج پہلی بار علیزے نے يمنہ کو اچھی طرح دیکھا ہوتا ہے ۔
گھر میں صرف فیمیل ہوتی ہیں گھر کے باہر کا کام مرد کیا کرتے جبکہ گھر میں خواتین ہی کرتی، یمنہ کیچن میں جاکر کھانہ بناتی ہے اور مل کر دونوں کھانہ کھاتی ہیں ۔
یار اتنی ملازمہ ہیں تم خود کیوں کرتی ہو یہ سب کام، علیزے نے کہا ۔
مجھے اپنا کام خود کرنا پسند ہے ۔
اچھا سنو یہ میری طرف سے گفٹ ہے ایک تسبیح اور عبایا اگر کبھی ارادہ کرو لازمی پہننا ۔
شکریہ ! یار علیزے نے کہا ۔
نیکسٹ ڈے ان کی ملاقات یونی میں ہوتی ہے ۔
آج وه پکّا ارادہ کرکہ آتا ہے کہ وه ضرور آج اپنے دل کی بات يمنہ کو بتا دے گا ۔
تبھی اسے بینچ پر بیٹھی يمنہ نظر آتی ہے حاشر کہتا ہے آج تو کوئی ہے بھی نہیں آس پاس بےعزتی ہوگئی تو کوئی دیکھنا والا نہیں ۔
کیسی ہیں آپ ؟ ٹھیک ! اچھا کیا کررہی ہیں باقی سب کہاں ہیں ؟
معلوم نہیں ، میں خود ابھی آئی ہوں ۔
دراصل میں کہنا چاہ رہا تھا کہ میں آپ کو، اتنے میں آواز آتی ہے حاشر ، یار تم یہاں ہو کب سے ڈھونڈ رہا ہوں ۔
ہاں میں یہاں ہوں سڑا ہوا منہ بناتے ہوۓ حاشر نے کہا ۔چلو ذرا کام ہے مجھے حاشر نے کہا اچھا پھر ملتے ہیں ۔
اتنی مشکل سے میں نے ہمت کی تھی، میں نے ابھی شروع ہی کیا تھا کہنا کہ تم پتا نہیں کہاں سے آ کر ٹپک گئے ۔
اللہ تیرا جیسا دوست کسی کو نہ دے حاشر نے مذاق میں کہا ۔
حاشر! حاشر !
علیزے نے کہا ۔
آج شام کو ہم تمہارے لئے لڑکی دیکھنے جا رہے ہیں حاشر جو بیڈ پر سکون سے لیٹا ہوا ہوتا ہے يمنہ کی حسین یادوں میں گم ہوتا ہے یہ خبر سنتےہی بیٹھ جاتا ہے ۔
نو! دادی آپ نمنہع کر دیں میں کسی اور کو پسند کرتا ہوں ۔
بیٹا اگر ایسی بات ہے تو تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا چلو خیر ابھی بھی کوئی دیر نہیں ہوئی ہے دادی جو حاشر کے ساتھ ہی بیڈ پر بیٹھی قرآن پڑھ رہی تھی ۔
دادی جان! میں موم کو بتانا چاہتا تھا لیکن پھر یہ سوچ کر کہ پتہ نہیں وه لڑکی مانے یا مانے ۔اس لئے نہیں بتایا ۔
کیا وہ لڑکی بھی تمہیں پسند کرتی ہے؟ دادی جان نے سوال کیا ۔
اسے نہیں بتایا میں نے کہ میں اسے پسند کرتا ہوں۔
بیٹا ! آپ اس سے بات کریں اس کے بعد ہم کچھ کر سکتے ہیں ۔اگر وه کسی اور کو پسند کرتی ہو تو پھر ؟
نہیں، دادی جان! مجھے نہیں لگتا کہ وہ کسی کو پسند کرتی ہو گی ۔
پھر بھی بیٹا جانکاری ہو تو زیادہ اچھا ہوگا ۔
ہم کسی سے زبردستی محبت نہیں کروا سکتے ٹھیک ہے بیٹا ۔
جی دادی ! جی ہاں بالکل صحیح کہہ رہی ہیں آپ ۔
وہاں بیٹھی علیزے ہنس رہی ہوتی ہے ۔
تمام تر گفتگو کے بعد حاشر حمزہ کو کال پر بتاتا ہے کہ اب ایسا کیا کروں جس سے یہ معلوم ہو جائے کہ اس کی لائف میں میرے علاوہ کوئی نہیں ہے اس کا کوئی رشتہ تو نہیں ہوا ؟ کہیں وہ کسی کو پسند تو نہیں کرتی یہ سب جاننا میرے لئے بہت ضروری ہے ۔
لیکن یار اب کیسے پتہ چلے گا کہ وه کسی کو پسند کرتی ہے یا نہیں ۔
کچھ بھی کر مجھے سب معلومات چاہیے حاشر نے حکم دیا ۔
چل ٹھیک ہے، یار پریشان نہ ہو کچھ کرتے ہیں ۔
ابھی سو جاکل دیکھتے ہیں ۔ٹھیک ہے خیال رکھنا حاشر کہتے ہوئے فون رکھ دیتا ہے ۔
بھیا! علیزے نے کہا! سوری بھئیا میں آپ کی مزید مدد نہیں کر سکتی آج ہم آپ کے لئے لڑکی دیکھنے جا رہے ہیں اور موم بہت زیادہ غصہ میں ہیں ۔ لہٰذا آپ خاموش رہیں ابھی ، ہو سکتا ہے کہ جو لڑکی ہم دیکھنے جا رہے ہیں وہ يمنہ سے بھی زیادہ پیاری ہو ۔
حاشر نے کہا ! اس سے پیارہ کوئی نہیں ہو سکتا میں موم سے بات کرتا ہوں ۔
موم میں کسی اور کو پسند کرتا ہوں لہذا آپ اپنا وقت ضائع نہ کریں ۔
کیا مطلب ؟ علیزے نے تو کہا ہے کہ تمہیں وہ لڑکی پسند ہے اور تمہاری رضامندی جاننے کے بعد ہی ہم نے یہ فیصلہ لیا ہے ۔
نہیں موم ۔
اچھا ٹھیک ہے بھائی ، موم ایسا کریں گے یمنہ کے گھر والوں کو کال کریں اور انہیں منع کر دیں ۔
يمنہ کا نام سنتے ہی حاشر حیران ہو جاتا ہے ۔
یہ ، یہ يمنہ کونسی والی ؟
کیا مطلب بھائی کونسی والی ایک ہی تو يمنہ ہے جسے آپ پسند کرتے ہیں ۔
نہیں ان کے گھر بھی نہ جائیں کیونکہ میں نے ابھی تک محبت کا اظہار ان کے سامنے نہیں کیا اور مجھے نہیں معلوم کہ اس کی انگیجمنٹ ہوگئی ہے یا نہیں، ہو سکتا ہے وہ کسی کو پسند کرتی ہو ؟
وہ سب میں نے معلوم کر لیا تھا جب میں اس کے گھر گھر گئی تھی ۔وہ کسی کو پسند نہیں کرتی بلکہ وہ یہ کہتی ہے کہ میری زندگی کا سب سے اہم فیصلہ میرے ماں باپ کریں گے ۔
اچھا اور کیا بات ہوئی تمہاری حاشر نے پوچھا ۔
چلیں بھائی آ کر بات کریں گے ابھی ہم لیٹ ہو رہے ہیں ۔
حاشر یہ سب سننے کے بعد خوشی سے پاگل ہو جاتا ہے ،سب سے پہلے اپنے دوست حمزہ کو یہ ساری خبر دیتا ہے ۔
حمزہ کہتا ہے مبارک ہو ۔
میرے یار کو اس کی محبت مل گئی ۔
تقریبا نو بجے کے قریب حاشر کے گھر والے آجاتے ہیں اور حاشر ان کا بے چینی سے انتظار کر رہا ہوتا ہے ۔
کیا ہوا؟ کیا بنا؟ کیا کہا؟ انہوں نے حاشر نے ایک ہی سانس میں کئی سوالات پوچھے ۔
دادی نے کہا ،بیٹا! صبر کرو ! سب بتاتی ہوں ۔
ہمیں تو لڑکی بہت زیادہ پسند آئی سلیقہ مند ،خوبصورت ، با حیا ویسے تمہاری پسند بہت پیاری ہے ۔
آخر پوتا کس کا ہوں ۔
اتنے میں حاشر کے واٹس اپ پر ایک میسج آتا ہے ۔میسج علیزے کے نمبر سے آتا ہے ۔پک سینڈ کروں يمنہ کی ؟
کیا تمھارے پاس ہے تو سوچ کیا رہی ہو جلدی سے سینڈ کر دو ۔
اتنی آسانی سے تو نہیں علیزے نے کہا ۔خاموشی سے سینڈ کرو ورنہ کمرے میں آکر تمہیں بتاتا ہوں، حاشر نے حکم کرنے کے انداز میں کہا
اچھا کرتی ہوں بھائی ۔
يمنہ کی تصویر کو دیکھنے کے بعد حاشر کو ایسا لگتا ہے اس کو آج سب کچھ مل گیا ہو وه بہت خوش ہوتا ہے ۔
تب ہی عشاء کی اذان ہوتی ہے اور وہ سب کچھ چھوڑ کر مسجد میں نماز پڑھنے چلا جاتا ہے ۔گھر میں سب حیران ہوتے ہیں کہ وہ حاشر جو رمضان کے روزے تک نہیں رکھتا آج عشاء کی نماز پڑھنے گیاہے ۔ مسجد میں جا کر اللہ تعالیٰ کا بہت شکریہ ادا کرتا ہے کہتا ہے کہ مجھ جیسے گناہ گار بندے کو بھی تو نے جو چاہا وہ عطا کر دیا ۔
عروه کو جب اس بات کا پتہ چلتا ہے تو وه بہت پچھتاتی ہے اور دل میں کہتی ہے کہ دولت میرے پاس بھی تھی اور يمنہ کے پاس بھی، خوبصورت وہ بھی ہے اور میں بھی لیکن اس نے خوبصورتی کو چھپا کر رکھا اللہ کے بندوں سے عاجزی سے ملتی ، کبھی غرور نہ کیا اسلام کے مطابق زندگی گزاری اور آج وہ کامیاب ہوگئی ۔
 

Shazia Hameed
About the Author: Shazia Hameed Read More Articles by Shazia Hameed: 11 Articles with 13257 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.