#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالمؤمن ، اٰیت 60 تا 63
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
قال ربکم
ادعونی استجب
لکم ان الذین یستکبرون
عن عبادتی سیدخلون جھنم
دٰخرین 60 اللہ الذی جعل لکم الیل
لتسکنوافیه والنھار مبصرا ان اللہ لذوافضل
علی الناس ولٰکن اکثرالناس لایشکرون 61 ذٰلکم اللہ
ربکم خالق کل شئی لاالٰه الّا ھوفانٰی تؤفکون 62 کذٰلک یؤفک
الذین کانواباٰیٰت اللہ یجحدون 63
اے ہمارے رسُول ! آپ کے رَب نے تو تمام انسانوں کو پہلے ہی کہدیا ہے کہ تُم
اپنی حاجات کے لیۓ مُجھے پُکارا کرو ، میں تُمہاری پُکار کو سنوں گا ، میں
تُمہاری پُکار کا جواب بھی دوں گا اور میں تُمہاری حاجات کو پُورا بھی کروں
گا لیکن جو لوگ اپنے تکبر کی بنا پر میری کتابِ نازلہ کے اَحکام سے بغاوت
کریں گے میں اُن کو جہنم کی ذلّت بھری سزا بھی دوں گا ، تُمہارا حاکم وہی
اللہ ہے جس نے تُمہاری رات تُمہارے آرام کے لیۓ اور تُمہارا دن تُمہارے کام
کے لیۓ مقرر کیا ہوا ہے تاکہ تُم کام کے وقت پر کام کیا کرو اور آرام کے
وقت پر آرام کیا کرو اور یہ کام اور آرام بھی میرے اَحکام کے مطابق کیا کرو
، یقین کرو کہ یہ اللہ کی ایک مہربانی ہی ہے کہ اُس نے تُمہاری حیات کا یہ
آسان انتظام کیا ہے لیکن تُم میں سے اکثر لوگ اُس کا شکر ادا نہیں کرتے
حالانکہ اللہ کی اِس کرم نوازی کے بعد ہر انسان کو یہ بات خود بخود ہی سمجھ
لینی چاہیۓ کہ جس اللہ نے انسان کے لیۓ یہ سب کُچھ کیا ہے وہی اللہ انسان
کا وہ آقا ہے جس کی بندگی کی جاۓ اور اُس کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کی
جاۓ ، اگر تُم یہ بات سمجھتے ہو تو پھر تُم کہاں بہٹکتے پھر رہے ہو ، اِس
طرح تو اللہ کی اٰیات کے وہ پہلے مُنکر بہٹکا کرتے تھے جن کو اللہ کی اٰیات
کے پہلے مُنکر بہٹکایا کرتے تھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
انسان کے پاس انسان کے ساتھ اپنے تعلق و پیار کے اظہار کے جو بے شمار طریقے
ہیں اُن بے شمار طریقوں میں ایک طریقہ بہت دُور سے کہنے اور بہت دُور سے
سُنانے والی بات کو بہت قریب سے کہنے اور بہت قریب سے سنانے کا طریقہ ہے جو
انسان کے انسان کے ساتھ اظہارِ تعلق کا وہ طریقہ ہے جس میں انسان کے اظہار
کی آواز جتنی دھیمی ہوتی ہے اُس کے اظہار کا جذبہ اتنا ہی طاقت ور ، اتنا
ہی پُر اثر اتنا ہی یقیں پرور ہوتا ہے کہ انسان اُس کی یقین بینی اور اثر
آفرینی کو اپنے احساس میں تو کسی حد تک محسوس کر سکتا ہے لیکن اپنے الفاظ
میں اُس کو پُوری معنویت کے ساتھ بیان نہیں کر سکتا ، انسان کے احساس میں
آنے اور انسان کے الفاظ میں نہ آنے والے اسی حسین و اثر آفرین احساس کا نام
وہ دُعا ہے جس کا معنٰی کسی کا کسی کو اپنی کسی عرض یا غرض کے لیۓ آواز
دینا ہوتا ہے اور اُردو زبان میں انسان کی اسی عرض اور غرض کی شدتِ طلب کو
پُکار کہا جاتا ہے ، قُرآنِ کریم نے اِس پُکار کو خالق کی پُکار اور مخلوق
کی پُکار کے حوالے سے مُختلف صیغ و ضمائر کے ساتھ کم و بیش 170 بار اِس فرق
کے ساتھ بیان کیا ہے کہ جب اللہ تعالٰی انسان کو پُکارتا ہے تو یہ بات
بتانے کے لیۓ پُکارتا ہے کہ وہ انسان کا آقا ہے اِس لیۓ انسان اُس کے ایک
فرماں بردار غلام کی طرح بلا چون و چراں اُس کے اَحکام کی اطاعت کیا کرے
اور جب انسان اللہ تعالٰی کو پُکارتا ہے تو اپنی اِس عرض اور غرض کے لیۓ
پُکارتا ہے کہ وہ اُس کا ایک ایسا مُحتاج غلام ہے جس کو ہر لَمحے اپنے اُس
مہربان آقا کی اُس توجہ اور اُس مہربانی کی ضرورت رہتی ہے جس توجہ اور
مہربانی کے ساتھ وہ اپنے اُس مہربان آقا کی رحمت و مہربانی کے ساۓ میں
اطمینان و سکون کے ساتھ زندہ رہے اور زندہ رہنے کے لیۓ اُس کے ہر اُس
سامانِ زیست کا حق دار قرار پاۓ جو سامان اِس کی زیست کے لیۓ ضروری ہے ،
اللہ تعالٰی نے انسان کو پُکار کا یہ طریقہ سکھانے کے لیۓ بذاتِ خود پُکار
کا جو طریقہ اختیار کیا ہے اُس کی زندہ مثال اُس کی یہ زندہ کتاب ہے جس میں
انسان کو عزت و سکون کے ساتھ زندہ رہنے کے وہ تمام اَحکام دے دیۓ گئے ہیں
جن اَحکام میں اُس نے انسان کو پُرسکون زندگی گزارنے کے وہ سارے طریقے بھی
سکھا سمجھا دیۓ ہیں جن کا سیکھنا اور سمجھنا انسان کے لیۓ لازم ہے تاکہ
انسان اِن طریقوں کو عمل میں لا کر تشویش و اضطراب سے دُور ہو جاۓ اور اِن
طریقوں پر عمل کے بعد اِس کی مُضطرب زندگی میں ایک دائمی اطمینان و سکون
پیدا ہوجاۓ ، اٰیاتِ بالا میں اللہ تعالٰی نے انسان کے ساتھ اپنی جس پیار
بھری سرگوشی کا ذکر کیا ہے یہ وہی پیار بھری سر گوشی ہے جس کی راحتوں اور
مُسرتوں کو انسان محسوس ہی کر سکتا ہے بیان نہیں کر سکتا اور اِس پیار بھری
سرگوشی میں اللہ تعالٰی نے انسان سے کہا ہے کہ تُم جو اپنے وقتی حالات کی
ایک وقتی دگر گونی سے پریشان ہو تو بلاوجہ ہی پریشان ہو کیونکہ تُم کو تو
میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ تُم اپنی ناداریوں اور اپنی مجبوریوں کو اپنے
دل و دماغ پر مُسلط کر نے سے پہلے ہی میرے سامنے پیش کردیا کرو تا کہ میں
تُمہارے دل و دماغ کے اضطراب سے پہلے ہی تُمہاری اِس مجبوری و ناداری کو
دُور کر دیا کروں اور اللہ تعالٰی نے اِس موقعے پر انسان کو اپنی جس پہلی
بات کا پہلا حوالہ دیا ہے وہ سُورَةُالبقرة کی اٰیت 186 کا وہ حوالہ ہے جس
میں اللہ تعالٰی نے یہ بتایا ہے کہ مُجھے آج تک اپنے جس بندے نے جب بھی
پُکارا ہے تو اُس نے مُجھے اپنے بہت ہی قریب پایا ہے جبکہ دُوسرا حوالہ
سُورَہِ قٓ کی اٰیت 16 کا وہ حوالہ ہے جس میں اللہ تعالٰی نے یہ بتایا ہے
کہ ہم انسان کے سینے میں دھڑکنے والے دل کو دھڑکانے والی اُس رَگِ حیات کی
حرکت سے بھی زیادہ انسان کے قریب ہوتے ہیں جو رَگِ حیات ہمارے حُکم سے ہی
انسانی دل کو دھڑکاتی اور انسانی جان میں زندگی کی حرکت و حرارت پُنہچاتی
ہے اور اِس اٰیت میں اللہ تعالٰی نے { انا } بمعنی مَیں کا صیغہِ واحد
استعمال کرنے کے بجاۓ { نحن } جمع بمعنی ہم کا صیغہ استعمال کر کے انسان کو
یہ یقین دلایا ہے کہ میری کامل ذات ہی تُمہاری ناقص ذات سے اتنی قریب تر
نہیں ہوتی بلکہ میرا وہ کامل نظام حیات بھی تُمہاری ناقص حیات سے اتنا ہی
قریب ہوتا ہے جو ہر انسانی رَگِ حیات کو زندگی کی ایک تابندگی دے رہا ہوتا
ہے اور اَب قُرآنِ کریم کے اِس مُنفرد مقام پر انسان کو بہت قریب سے خوشی
کا یہ مُنفرد پیغام دیا گیا ہے کہ میں نے تو پہلے کہدیا ہوا ہے کہ میں
تُمہارے جسم و جان کے ہر ایک رَگ و ریشے کے آس پاس ہی موجُود ہوتا ہوں اور
تُمہاری رُوح و دل پر گزرنے والے ہر ایک خیال و سوال سے ہمہ وقت آگاہ رہتا
ہوں اِس لیۓ تُم جب بھی مُجھ سے مانگو اور جو بھی مانگو وہ تُمہارے لیۓ
میرے پاس ہمہ وقت موجُود ہوتا ہے ، قُرآنِ کریم کی اِس اٰیت کے خطاب کے
مُخاطب بظاہر اگرچہ صرف سیدنا محمد علیہ السلام ہیں لیکن حقیقی صورتِ حال
یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے آپ کے ساتھ انسان و انسانیت کے رہنماۓ اعلٰی کے
طور پر جو خطاب کیا ہے اُس خطاب میں انسان و انسانیت کے جُملہ ارکان سماعت
بھی شاملِ خطاب ہیں ، رہا یہ سوال کہ جب اللہ تعالٰی بذاتِ خود انسان سے
اتنا قریب ہوتا ہے اور انسان کی حاجات کو براہِ راست اتنے قریب سے جانتا ہے
تو پھر وہ بلا طلب ہی انسان کی حاجات پُوری کیوں نہیں کر دیتا ہے ، اِس
سلسلے میں پہلی گزارش یہ ہے کہ انسان کا دائرہِ ضرورت و طلب صرف اُس آب و
دانے تک ہی محدُود نہیں ہے جس کو انسان اپنے پیٹ کے حوالے سے جانتا ہے بلکہ
انسان کے سر سے لے کر انسان کے پیروں تک پھیلی ہوئی سلطنت میں اِس کی وہ
اَنگنت ضروریات ہیں جو انسان کی طلب کے بغیر ہی پُوری ہوتی رہتی ہیں اور آب
و دانے کی ضرورت بھی بلا طلب ہی پُوری ہوتی رہتی ہے لیکن اِس میں تعطل صرف
اُس وقت واقع ہوتا ہے جب ایک انسان دُوسرے انسان کے ساتھ چھینا جھپٹی کرکے
اللہ تعالٰی کے اِس فطری نظام میں اپنی غیر فطری مداخلت کرتا ہے مگر بندے
کی طلب اور اللہ تعالٰی کی عطا کا یہ طریقہ اِس لیۓ رکھا گیا ہے تاکہ مخلوق
کا اپنے خالق کے ساتھ اور غلام کا اپنے آقا کے ساتھ پیار اور راز و نیاز کا
وہ سلسلہ بھی ہمیشہ قائم و دائم رہے جو انسان کی یاس کو آس اور نااُمیدی کو
ایک اُمید کا ایک پیغام دیتا رہتا ہے اور اُس کے دل کو ایک اطمینان اور اُس
کی رُوح کو بھی ایک تسکین بہم پُہنچاتا رہتا ہے اور اِن اٰیات کا مقصد بھی
بندے اور غلام کی وہی راز داری ہے جو بندے کے مُحتاج اور مالک کے مُختار
ہونے کے تعلق کو تازہ کرتی رہتی ہے اور اِس تعلق کی بنا پر جو بندہ قُرآن
کے فرمان کی اطاعت کرتا رہتا ہے وہ اُس تعلق کو قائم کرتا رہتا ہے اور جو
بندہ قُرآن کے فرمان سے بغاوت کرتا رہتا ہے وہ اُس تعلق کو ختم کرتا رہتا
ہے اور یہی چیز رحمٰن اور انسان کے اِس تعلق کی حقیقی آزمائش ہے !!
|