اسلامی پردہ اور حالیہ تنازع

اسلامی پردہ اور حالیہ تنازع

ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے ، جہاں ہر مذہب کے ماننے والوں کو اپنے اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزار نے کا بنیادی حق حاصل ہے ، دستورِ ہند میں مذہبی آزادی کو بنیادی حقوق[Fundamental Rights] میں شمار کیا گیا ہے ، لیکن یہاں کی اقلیتوں کے بنیادی حقوق کی جس طرح آئے دن پامالی ہوتی رہی ہے وہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔خاص طور سے مسلمانوں کے مذہبی شعائر میں دخل اندازی ، چھیڑ چھاڑ اور ان کی تذلیل وتضحیک کے واقعات آئے دن رونما ہو تے رہتے ہیں اور یہ باور کرا نے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ہندستانی مسلمانوں کو اپنے مذہب کے مطابق نہیں بلکہ یہاں کی اکثریت کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنی پڑے گی۔ظلم وزیادتی کے الگ الگ طریقے اپنائے جاتے ہیں ، کبھی ہجومی تشدد کے ذریعہ انھیں بے رحمی کے ساتھ قتل کیا جاتا ہے، کبھی ان کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچایا جاتا ہے ، کبھی ان کی عبادات میں خلل اندازی کی جاتی ہے، کبھی تعلیم گاہوں میں ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے اور کبھی ان کی شہریت پر ہی سوالیہ نشان کھڑا کر دیا جاتا ہے، اگر کوئی غیرت مند ان کی زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو اسے اسلامی تشدد پسند ،کٹر پنتھی اور بنیاد پر ست جیسے القاب کے ذریعہ بدنام کر نے کی کوشش کی جاتی ہے ، حکومتیں بھی اکثریت کی ان دست درازیوں پر مہر بہ لب نظر آتی ہیں ، بسا اوقات تو پس پردہ سارا کھیل ہی حکومت سر پرستی میں چل رہا ہو تا ہے ۔
ادھر کچھ ہفتوں سے اسلامی حجاب کا مسئلہ پورے ملک میں سرگرم ہے ، جس کے سہارےاسلام اور مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کا سلسلہ جاری ہے ، مسئلہ کرناٹک کے ایک اسکول میں مسلم طالبات کے حجاب پہننے کو لے کر شروع ہوا، چند ہی دنوں میں یہ مسئلہ میڈیا کا اہم موضوع بحث بن گیا،اسلام دشمن عناصر نے مسلمانوں کے خلاف دل کھول کر زہر افشانیاں کیں ،اسکولی طالبات کے حجاب کی آڑ میں پر دے کےاسلامی قانون کا خوب مذاق اڑایا گیااور اس حوالےسے بڑی بے تکی ، جاہلانہ اور غیر دانش مندانہ باتیں کی گئیں ، بعض نام نہاد مسلم اسکالر س بھی اس مسئلے میں حجاب مخالفین کے شانہ بشانہ نظر آئے اور پردے کے قانون کو بے اصل بتا تے ہو ئے کہا کہ قرآن وحدیث میں اس طرح کے پر دے کا کوئی حکم نہیں ہے ، اس لیے ہم اس مختصر تحریر میں قرآن وحدیث کی روشنی میں پردے کاحکم ،پردہ کی ضرورت واہمیت اور حالیہ تنازع کے پس منظر وپیش منظر پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے ۔
پردہ و حجاب اِسلامی شعار کی حیثیت رکھتا ہے،اسلام سے قبل عورتیں بے پردہ رہاکرتی تھیں ، جس کی وجہ سے بے شمار فواحش معاشرے میں راہ پاچکے تھے ، عورتیں صرف خالص حیوانی لذت وشہوت کی تسکین کا ذریعہ سمجھی جاتی تھیں ، معاشرے میں ان کا کوئی مقام نہیں تھا ، اِسلام نے اسے پردہ و حجاب کے زیور سے آراستہ کر کے نہ صرف یہ کہ ان کی عزت وعصمت کی حفاظت فر مائی بلکہ انھیں عظمت و کردار کی بلندی بھی عطاکی ۔
سورۃ الاحزاب میں اللہ جل شانہ ارشاد فر ماتا ہے:
وَ قَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْاُوْلٰى [الاحزاب:٣٣]
ترجمہ:اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہلیت کی بے پردگی۔
دوسرے مقام پر فر مایا گیا:
يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ۠١ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ١ؕ[الاحزاب:۵۹]
ترجمہ:اے نبی اپنی بیبیوں اور صاحبزادیو ں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادو کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں یہ اس سے نزدیک تر ہے کہ ان کی پہچان ہو تو ستائی نہ جائیں۔
سورۃ النور میں فر مایا گیا :
وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ يَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ لْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُيُوْبِهِنَّ١۪ وَ لَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ۔
ترجمہ: اورمسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے اور دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں اور اپنا سنگار ظاہر نہ کریں۔
ان تمام آیات میں مسلمان عورتوں کو واضح لفظوں میں پردے کا حکم دیا گیا ہے اور اس پر عمل در آمد کی سخت تاکید بھی کی گئی ہے، انھیں لازمی حکم دیا گیا ہےکہ بے پردہ نہ رہیں ، اپنے جسم کو ڈھانک کر رکھیں ، اپنی زینت وآرائش کی نمائش نہ کریں ۔ یہی نہیں بلکہ انھیں اپنی نگاہیں نیچی رکھنے کا بھی حکم دیاگیا ، اِسی کو اُن کی عزت وعصمت کی حفاظت کا وسیلہ اور شر پسند عناصر سے بچنے کا ذریعہ قرار دیا گیا۔
احادیث کریمہ میں بھی پردے کے ان قرآنی احکام کی تفصیل موجو دہے،صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے ان اسلامی احکام کواپنی معاشرتی زندگی میں برت کر دکھا یا ہے ۔
ام المومنین حضرتِ سیدتنا ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب قرآنِ مجید کی یہ آیتِ مبارکہ نازِل ہوئی:
يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ۠١ؕ [پ٢٢، الاحزاب:٥٩]
ترجمہ:اے نبی اپنی بیبیوں اور صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دو کہ اپنی چادروں کا ایک حصّہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں۔
تو انصار کی خواتین سیاہ چادر اوڑھ کر گھروں سے نکلتیں ، ان کو دور سے دیکھ کر یوں لگتا کہ ان کے سروں پر کوّے بیٹھے ہیں۔[ابو داؤد، ص:٦٤٥، حدیث : ٤١٠١ ملخصا]
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ وہ اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی تھیں ، اتنے میں حضرت ابن مکتوم آئے جو نابینا تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: ا ن سے پردہ کرو، حضرت ام سلمیٰ نے عرض کیا : کیا یہ نابینا نہیں ہیں؟ نہ وہ ہمیں دیکھیں گے اور نہ ہمیں پہچانیں گے ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : کیا تم دونوں بھی نابینا ہو ؟ کیا تم انھیں نہیں دیکھتی ہو ؟[ ترمذی شریف، باب ماجاء فی احتجاب النساء من الرجال]
ابو داؤد شریف میں ہے :
عن عائشہ رضی الله عنہا قالت او مأت امراء ة من وراء ستر بیدہا کتاب الی رسول اللہا‘ فقبض النبی ا یدہ‘ فقال ما ادری اید رجل ام ید امرأة؟ قالت بل ید امرأة۔ قال: لو کنت امرأة لغیرت اظفارک یعنی بالحناء۔ [ابوداؤد:ص:۵۷۴‘ ج:۲]
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک عورت کے ہاتھ میں پرچہ تھا، اس نے پرچہ دینے کے لیے پردہ کے پیچھے سے سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہاتھ بڑھایا،آپ نے ہاتھ روک لیا اور فرمایا کہ: نہ معلوم مرد کا ہاتھ ہے یا عورت کا؟ اس نے کہا کہ یہ عورت کا ہاتھ ہے۔ آپ ا نے ارشاد فرمایا: اگر تم عورت ہوتیں تو اپنے ناخنوں پر مہندی لگاتیں۔
ان تمام آیات واحادیث سے اسلام میں پردے کے حکم کی حقیقت اور اس کی اہمیت وافا دیت نیز بے پر دگی کے خطر ناک اثرات پر روشنی پڑتی ہے ، یہ باتیں صدیوں کی مسلمہ ہیں ، یہاں اس گفتگو کی ضرورت اسی لیے پڑی کے حکومت اور پر دہ مخالفین کا ایک طبقہ یہ ثابت کر نے پر بھی تُلا ہو اہے کہ حجاب اسلام کا حصہ نہیں ہے ۔
یاد رہے کہ گزشتہ دنوں کر ناٹک کے اڈوپی ضلع کے ایک گورنمنٹ کالج میں مسلم طالبات کو حجاب پہن کر اسکول میں داخلے سے روکا گیا ، سوشل میڈیا میں اس کی ویڈیوز وئرل ہو تے ہی سنسنی پھیل گئی ، بعد میں یہ ملکی پھر بین الاقوامی مسئلہ بن گیا ، اس کے بعد ملک کی کئی دوسری ریاستوں میں بھی اس طرح کے نفرت انگیز واقعات رونماہو ئے ، ملک کی پانچ ریاستوں میں انتخابات ہو نے کی وجہ سے اس مسئلے کے سیاسی ہتھکنڈہ بننے میں بھی دیر نہیں لگی ، حالاں کہ یہ کر ناٹک کے ایک اسکول کا مسئلہ تھا ،جس کو وہاں کی انتظامیہ کی کوششوں سے آسانی سے حل کیا جا سکتا تھا ، لیکن جس طرح اس تنازع نے سنگین رُ خ اختیار کیا اور ملک کے الگ الگ گوشوں سے بھگوا تنظیموں نے زہر افشانیاں شروع کر دیں وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ کر ناٹک کو ہندوتوا کی نئی تجر بہ گاہ بنایا جارہا ہےاوراس تنازع کو کرناٹک ودھان سبھا ۲۰۲۳ء اور لوک سبھا ۲۰۲۴ء کے انتخابات میں فتح کا گیٹ وے بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
ذہنوں میں کس قدر زہر بھرا جا رہا ہے اور کرناٹک کی مسلم طالبات کو کس طرح ہراساں کیا جارہاہے وہ آئے دن اس حوالے سے سوشل میڈیا پر آنے والی ویڈیوز سے ظاہرہے ، کرناٹک کی بہادر دوشیزہ مسکان کی جرأ ت وہمت کو کون بھُلا سکتا ہے ، ایک تنہا مسلم لڑکی کو سیکڑوں غنڈوں نے گھیر کر ہراساں کر نے کی کوشش کی اور ہر طرح ان کا راستہ رو کنا چاہا ، اور جس طرح اس تنہا لڑکی نے ہمت، حوصلہ اور جرأت سے کام لے کر حق کی آواز بلند کی وہ ہر لحاظ سے لائق تحسین ہے۔ لیکن یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ اس مسئلے کو ایک ملکی مسئلہ بنانے اور فاشسٹ طاقتوں کو تقویت پہنچانے میں ہمارے کچھ عجلت پسند سیاسی قائدین اور ہمیشہ سیاست کر نے والی ’’غیر سیاسی‘‘جماعتوں نے اہم کردار اداکیا، اس مسئلے کو قانونی طریقے سے حل کر نے کی بجاے جلوس و احتجاج اور اردو اخبارات میں جذباتی بیانات پر فوکس کیا گیا ، ایک تنظیم نے تو مسکان کےلیے کئی لاکھ کے انعام کا اشتہار اخبارات میں چھپواکر خوب سرخیاں بٹوریں ، لیکن اس اقدام کے منفی اثرات کو یکسر نظر انداز کردیاگیا،حالاں کہ اس پورے تنازع کی اسکرپٹ لکھنے والے کا مقصد ہی یہی تھا کہ حجاب کے خلاف ہندو تنظیمیں متحد ہوجائیں اور ہندو مسلم منافرت پھیلا نے کا ایک بڑا ایشو ہاتھ آجائے جس کے اثرات حالیہ انتخابات کے ساتھ ساتھ آئندہ دوسالوں میں ہو نے والے انتخابات میں بھی محسوس کیے جائیں، اب ان کا یہ مقصد پورا ہو تا نظر آرہاہے۔
افسوس کی بات ہے کہ آج مسلم سماج کی اکثر لڑکیاں بے پر دہ اسکول اور کالج جاتی ہیں ، پہلے برقع کا رواج تھا ، اب اس کی جگہ حجاب اور اسکارف نے لے لیا ہے، کچھ لڑکیا ں تو صرف گلے میں دوپٹہ ڈال لینا ہی کافی سمجھتی ہیں ، مسلم لڑکیوں کی یہ بے راہ روی حجاب مخالفین کےلیے مخالفت کی دلیلیں فراہم کرتی ہیں ۔ اب ہمیں خالص احتجاج اوربے جا بیان بازی کی بجاے کوشش کر نی ہو گی کہ مسلم خواتین اور دوشیزاؤں کو پردے کے احکام سے واقف کرایا جائے اور ان احکام پر عمل در آمد کی صورتیں پیدا کی جائیں، ور نہ اس مسئلے کا حال بھی ماضی کے مسلم مسائل کی طرح ہو گا ، شاہ بانو کیس اور طلاق ثلاثہ کی نظیریں ہمارے سامنے ہیں ۔
اس پورے تنازع کے ذریعہ مخالفین کو دوہرا فائدہ ہو رہاہے ، ایک طرف جہاں مسلمانوں کے خلاف یہاں کی اکثریت کو لام بند کر نے میں انھیں کام یابی مل رہی ہے اور ووٹ کا پولرائزیشن ہو رہاہے ،وہیں مسلم بچیوں کو تعلیم سے دور رکھ کر ایک پوری نسل کو تاریکی میں ڈھکیلنے کی ناپاک کوشش کی جار ہی ہے۔ایسے میں مسلمانو ں کے لیے ضروری ہو گیا ہے کہ مختلف صوبے ،اضلاع اور آبادیوں میں کثیر تعداد میں معیاری اور اعلیٰ عصری تعلیمی ادارے قائم کریں ، جہاں مسلم بچیوں کو پورے تحفظ کے ساتھ باپردہ رہ کر تعلیم حاصل کرنے کی سہولتیں مہیا کی جائیں ۔یہ وقت کا جبری تقاضا ہے اور مسلم بچیوں کی روشن مستقبل کے لیے حد درجہ ضروری بھی ۔
•••
 

محمد ساجدرضا مصباحی
About the Author: محمد ساجدرضا مصباحی Read More Articles by محمد ساجدرضا مصباحی: 56 Articles with 107157 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.