مذاہب عالم میں اسلام ہی ایسا مذہب ہے جس کی تاریخ مکمل طور پر محفوظ
وموجود ہے ، ہزاروں ایسے مسلم مورخ ہیں جنھوں نے فن تاریخ کی تدوین میں
کارہاے نمایاں انجام دیے،تمدن کی کوئی شاخ اور معاشرت کا کوئی پہلو ایسا
نہیں ہے جس پر مسلمانوں نے تاریخیں مرتب نہ کی ہوں۔تاریخ کی جان اورروح
روایت کی صحت ہے اور اس کو مسلمانوں نے اس درجہ ملحوظ رکھا ہے کہ آج بھی اس
حوالے سے مسلمانوں کے سوا کسی دوسری قوم کو بطورِ مثال پیش نہیں کیا جاسکتا
،دوسری اقوام اوردوسرے ممالک کی تاریخیں مرتب کرنے میں بھی مسلمانوں کی طرف
سے نہایت زبردست صلاحیتیں صرف کی گئی ہیں ،فن تاریخ کو علم کے درجہ تک
پہنچانے کا کام مسلمانوں ہی کی نظر التفات کارہین منت ہے۔
قرآن کریم نے مختلف آیات میں انسانوں کو یہ دعوت دی ہے کہ وہ گزشتہ اقوام
کی زندگی کا مطالعہ کریں۔کتاب ہدایت نے ان کی زندگی کے مفید نکات پیش کرنے
کے بعد انسانوں کو یہ دعوت دی کہ وہ اللہ کے نیک بندوں کو اپناہادی و رہنما
بنائیں اور ان کی زندگی کو اپنے لیے نمونہ سمجھیں۔ حضرت ابراہیم علیہ
السلام کے بارے میں فرمایا گیا :
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِيْۤ اِبْرٰهِيْمَ وَ الَّذِيْنَ
مَعَهٗ١ۚ[ الممتحنۃ /۴]
بے شک تمہارے لیے اچھی پیروی تھی ابراہیم اور اس کے ساتھ والوں میں ۔[
کنزالایمان ]
اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فر مایاگیا:
َقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ۔[ الاحزاب
/۲۱]
بے شک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے۔[ کنزلایمان ]
تاریخ اسلام کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ صحابۂ کرام
رضوان اللہ علیہم اجمعین سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے
واقعات اور بعد میں پیش آنے والے سرایا وغزوات کے حالات نہ صرف اپنے سینوں
میں محفوظ رکھتے تھے بلکہ اپنی اولاد کو بھی انھیں یاد کرنے کی ترغیب دیا
کرتے تھے، ہر دور اور ہر زمانے میں صالحین نے اپنی تاریخ کی حفاظت کی اور
اسے سینے سے لگائے رکھا۔اسلامی تاریخ کی اسی عظمت کی وجہ سے مسلم مورّخین
خاص طورپر محمد بن اسحاق، ابن ہشام، ابن شہاب زُہری،ا بو جعفر محمد بن جریر
الطبری،ابن خُلدون ، ابن کثیر ،جلال الدین سیوطی وغیرہ نے اسلامی تاریخ کی
تدوین اور اس کی حفاظت کے حوالے سے بڑا اہم کار نامہ انجام دیا ہے ، آج ان
کی کتابیں مآخذ کا درجہ رکھتی ہیں ۔
مآخذ کی حیثیت رکھنے والی تاریخ اسلام کی اکثر کتابیں عر بی زبان میں ہیں،
جن سے استفادہ اردو خواں طبقے کے لیے مشکل ترین امرہے ، تاریخ کی ان اہم
کتب کے ترجمے اردو سمیت مختلف زبانوں میں ضرورہو ئے ہیں ، لیکن ان ترجموں
میں جو خیانتیں ہو ئی ہیں وہ بھی ذی علم طبقے سے مخفی نہیں ہیں ، اکثر متر
جمین گمراہ فرقوں سے تعلق رکھتے ہیں ، انھوں نے ترجمہ نگاری میں علم ودیا
نت کے تقاضوں سے صرف نظر کرتے ہوئے اہل سنت کے نظریات پر چوٹ کر نے کی کوشش
کی ہے اور تاریخی حقائق پر پردہ ڈالنے کا کام کیا ہے۔ ایسے ترجموں کو دیکھ
کر محسوس ہو تاہے کہ یہ ترجمے نہ ہو تے تو اچھا ہو تا۔
یہ بھی ایک افسوس ناک پہلو ہے کہ اردو زبان میں باضابطہ تاریخ اسلام پر
لکھی جانے والی اکثر کتابیں غیروں کی ہیں ، میں یہاں ان کتابوں اور ان کے
مصنفین کانام ذکر کر کے ان کی تشہیر کرنا مناسب نہیں سمجھتا ،ان مصنفین نے
تاریخ نگاری کے نام پر جو گل افشانیاں کی ہیں وہ بھی اہل نظر سے مخفی
نہیں۔تاریخ نگارحقائق وواقعات بیان کرتا ہے ، اس میں کسی طرح ذاتی خیالات
ونظر یات کو شامل کرنا اس کے لیے روا نہیں ہو تا ، اور نہ الفاظ وتعبیرات
کا سہارا لے کر کسی ایک طبقے پر طعن تشنیع اس کا کام ہو تا ہے ، اردوزبان
میں لکھی جانے والی اسلامی تاریخ کی ان کتابوں میں جہاں حقائق کو توڑ مڑور
کر پیش کر نے کی کوشش کی گئی ہے ، وہیں اپنے باطل وفاسد خیالات کو شامل کر
نے کا بھی شر م ناک کام کیا گیا ہے۔اس طبقے سے تعلق رکھنے والے خیانت پسند
مصنفین نے اردو زبان میں سیرت نبوی کے موضوع پر لکھی گئی کتابوں میں بھی
یہی گھنونا کام کیا ہے اورایسی ایسی شر انگیزی کی ہے کہ اللہ کی پناہ!۔
وہ تو کہیے کہ سیرت نبوی میں جامع انداز میں سیرت الر سول المعروف بہ ضیاء
النبی لکھ کر پیرکرم شاہ ازہری نے اہل سنت کی جانب سے فرض کفایہ ادا کیا ہے
۔ور نہ اس میدان میں بھی ہماری جماعت میں اس کا کوئی متبادل نہیں تھا۔
اردو زبان میں اسلامی تاریخ کے حوالے سے علماے اہل سنت کی کاوشوں کا جائزہ
لیا جا تا ہے تو بڑی مایوسی ہاتھ آتی ہے ، ابھی تک اس موضوع پر اہل سنت کے
کسی مستند عالم دین کی باضابطہ کوئی کتاب نظر نہیں آتی ، تاریخ اسلام کے
بعض گوشوں پر ہمارے علما کی کچھ کتابیں ضرور ہیں، لیکن باضابطہ اس موضوع پر
کوئی قابل ذکر کتاب نظر نہیں آتی ، شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے کئی مرکزی
اداروں میں تاریخ اسلام کے مطالعے میں انہی غیروں کی کتابیں داخل نصاب ہیں
، جو یقینا ہمارے لمحۂ فکر ہے ،اور ہماری غفلتوں کا ثبوت بھی۔
الحمدللہ ہماری جماعت میں ایسے بزرگ علما اور اصحاب فکر وقلم موجود ہیں جو
علم وعمل ، فکر وبصیرت ، علم وآگہی ، دنائی وبینائی اور اخلاص وللہیت کے
دولت لازوال سے مالامال ہیں ، جن کی علمی وقلمی صلاحیتوں کا ایک جہان معترف
ہے ، جن سے اس موضوع پر مستند ، معتبر اور جامع کتاب لکھوائی جاسکتی ہے ۔
سچ یہ ہے کہ اب نہ تو وسائل کی کمی ہے اور نہ افراد کی ،بس لازم ہے کہ ہم
اپنے اندرجماعتی سطح کی ضرورتوں کا احساس پیداکریں ،دینی و جماعتی مفادات
کو ترجیح دیں ، اپنے اندر احساس زیاں پیدا کریں ،انفرادی طور پر نہ سہی
اکیڈمک سطح پر ہی کریں، لیکن اس کام کو ترجیحی طور پر کر نے کی سخت ضرورت
ہے ۔ہماری جماعت جب ہر اعتبار سے خود کفیل ہے تو اس جہت سے ہم کسی کے محتاج
کیوں رہ جائیں ،ہم اپنی عوام اور اپنی نئی نسل کے سامنے غیروں کی کتابیں
پروس کر کوئی اچھا پیغام نہیں دے سکتے ، بلکہ یہ اپنی غفلتوں کا اعلان ہو
گا۔
قدیم کتابوں کی نشر واشاعت ، نئے حواشی اور نئی کتابوں کی ترتیب وتدین کے
حوالے سے قومی وبین الاقوامی سطح پر مجلس برکات جامعہ اشرفیہ مبارک پور نے
جو اعتبار واعتماد حاصل کیا ہے وہ کسی معاصر اشاعتی ادارے کو نہیں حاصل ہو
سکا ہے ،کام بولتا ہے ، اور کام کر نے والے دلوں میں جگہ بناتے ہیں ، اس کی
زندہ مثال مجلس بر کات اور اس سے وابستہ علما ومصنفین ہیں ، مجلس کے زیر
اہتمام سیکڑوں کتابوں کی اشاعت کے ساتھ ’’مصباح الانشا ‘‘ کی ترتیب نے پوری
جماعت کی جانب سے فرض کفایہ ادا کیا ہے ، ور نہ اس سے قبل ہم کہاں تھے یہ
بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔جامعہ اشرفیہ مبارک پور اپنے مختلف شعبوں
کے ذریعہ جماعتی ضرورتوں کو پورا کررہاہے،اردو زبان میں ایک ’’مستند تاریخ
اسلام ‘‘ کی ترتیب وتدین بھی ایک دینی وجماعتی ضرورت ہے ، مجلس بر کات کے
زیر اہتمام اگر یہ اہم کام بھی انجام پاجائے تو قوم وملت پر ایک بڑا احسان
ہو گا ۔
ہندوستان میں اس وقت کئی اور اکیڈمیاں اور اشاعتی ادارے ہیں جہاں سے بڑا
کام ہو رہاہے، جس کے ذمے داران اہل سنت کی اشاعتی ضرورتوں کو پورا کررہے
ہیں ، ایسے اداروں کو بھی اس پر خصوصی توجہ دینی چاہیے ۔ اللہ کرے کوئی
سبیل پیدا ہو اور اس جماعتی ضرورت کی تکمیل کا راستہ آسان ہو ۔
|