#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالمؤمن ، اٰیت 67 تا 68
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ھوالذی
خلقکم من تراب
ثم من نطفة ثم من
علقة ثم یخرجکم طفلا
ثم لتبلغلوااشدکم ثم لتکونوا
شیوخا ومنکم من یتوفٰی من قبل و
لتبلغوااجلا مسمی ولعلکم تعقلون 67 ھو
الذی یحیٖ ویمیت فاذاقضٰٓی امرافانما یقول
لهٗ کن فیکون 68
وہ وہی ایک اللہ ہے جس نے پہلے پہل تُم کو اَجزاۓ مٹی سے اَجزاۓ مٹی میں
پیدا کیا ہے ، پھر اُس نے تُم کو مرد و زَن کے اجزاۓ جسم میں لاکر مرد و زن
کے اَجزاۓ جسم سے تُمہارے تجسیم کی تکمیل کی ہے ، پھر اُس نے ایک بچے کی
صورت میں تُم کو زمین پر لاکر زمین میں پروان چڑھنے کا موقع دیا ہے ، پھر
اُس نے ایک محبت سے ایک محبت میں تُمہارے جسم کو اِس غرض سے بڑھایا ہے تاکہ
پہلے تُم ایک تدریج کے ساتھ اپنے جسم میں توانائی جمع کرو اور پھر ایک
تدریج کے ساتھ اُس توانائی کو جسم سے خارج کر کے ناتوانی کی اُسی مقام تک
چلے جاؤ جہاں سے تُمہاری ابتدا ہوئی ہے ، تَخلیق و تجسیم کے اِس عرصے کے
دوران تُم میں سے کُچھ اَفراد تو اللہ کی اِس جاں بخشی کو بڑھاپاپے تک لے
جاتے ہیں اور کُچھ اَفراد اِس سے پہلے ہی تھک کر گر جاتے ہیں اور تُم کو
حیات کی اِن منزلوں سے اِس لیۓ گزارا جاتا ہے تاکہ تُم کو تَکمیلِ شعور کے
اُس اعلٰی مقام پُہنچا دیا جاۓ جو اللہ کو مطلوب ہے ، تُمہاری اِس زندگی
میں تُمہاری موت و حیات کا ہر فیصلہ ہمیشہ اُس ایک اللہ کے حُکم سے اِس طرح
ہوتا ہے کہ وہ تُم میں سے جس انسان کی موت و حیا کے جس عمل کا جس وقت حُکم
دیتا ہے اُس کی موت و حیات کا وہ عمل اُس کے حُکم کے مطابق اُسی وقت ہو
جاتا ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
عالَمِ خلق کے بیشمار پیچیدہ مسائل میں انسانی تخلیق کا سنجیدہ مسئلہ بھی
ایسا ہی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے کہ عہدِ حاضر کا جو انسان علم کے ایک سیلابی
اور عقل کے ایک آفتابی دور سے گزر رہا ہے اُس انسان کے لیۓ اُس کی تمام
علمی و سائنسی فتوحات کے باوصف بھی انسانی تخلیق کی تفہیم آج بھی اتنی اور
ایسی ہی مُشکل ہے جتنی اور جیسی مُشکل آج سے پہلے ہوا کرتی تھی ، قُرآنِ
کریم نے قُرآنِ کریم میں عالَم و انسانِ عالَم کی اِس پیچیدہ تخلیق کا جن
155 مقامات پر ذکر کیا ہے اُن 155 مقامات میں سے ایک مقام اِس سُورت کی یہ
اٰیت ہے جہاں پر قُرآنِ کریم نے حسبِ سابق انسانی تخلیق و سفرِ تخلیق کے
اُن تاریخی اور تدریجی مراحل کا ذکر کیا ہے جن تاریخی و تدریجی مراحل سے
گزر کر انسان یہاں تک آیا ہے اور جن تاریخی و تدریجی مراحل سے گزر کر انسان
یہاں سے آگے جارہا ہے تاہم قُرآنِ کریم نے انسانی تخلیق کے مُتعدد دیگر
مقامات کی طرح اِس سُورت کے اِس مقام پر بھی یہی ایک اشارہ دینے پر اکتفا
کیا ہے کہ انسانی تخلیق کا یہ تاریخی اور تدریجی عمل ایک بار ہونے والا
کوئی ایسا عمل نہیں ہے کہ جو ایک ہی بار ہوا ہے اور اِس کو ایک بار ہی
انسان کے لیۓ بیان کردینا ہی انسانی فہم کے لیۓ مفیدِ مطلب ہو سکتا ہے بلکہ
حقیقت یہ ہے کہ انسانی تخلیق کا یہ عمل ایک تدریج کے ساتھ ہوا ہے اِس لیۓ
انسانی تخلیق کے اِس تدریجی عمل کی تعلیم و تفہیم کو انسان کے عقلی و فکری
بلوغ کے ساتھ مُسلک کر دیا گیا ہے اِس لیۓ انسانی عقل و فکر پر جیسے جیسے
بلوغ آتا جاۓ گا ویسے ہی ویسے انسانی عقل و فکر پر اِس کا ابلاغ بھی خود
بخود ہوتا چلا جاۓ گا ، اِس سلسلے میں قُرآنِ کریم نے انسانی تخلیق کے جن
تین بڑے اَدوار کا ذکر کیا ہے اُن تین بڑے ادوار میں انسانی تخلیق و تدریج
کا پہلا دور وہ ہے جس کا سُورَةُالدھر کے آغاز میں اِس طرح ذکر کیا گیا ہے
کہ انسانی تاریخ میں انسان پر وہ دور بھی گزرا ہے جس دور میں انسان تو اِس
عالَمِ عمل میں موجُود تھا لیکن فکر و عمل کے اعتبار سے اُس وقت اِس کی
ہستی کوئی ایسی قابلِ ذکر ہستی نہیں تھی کہ جس ہستی کا ناقابلِ ذکر ہونے سے
زیادہ کوئ ذکر کیا جاۓ لیکن انسانی تاریخ کا وہ دُوسرا دور یقینا ایک قابلِ
ذکر دور رہا ہے جس دور کا اِن دو اٰیات سے پہلے اِس سُورت کی اٰیت 64 میں
ارض و سما کے ذکر کے معا بعد وہ ذکر کیا گیا ہے جو ذکر ایک طرف تو اِس بات
کی خبر دیتا ہے کہ انسان کی یہ قابلِ ذکر تخلیق اگر ارض و سما کے ساتھ ساتھ
نہیں ہوئی ہے تو اِس کی تخلیق ارض و سما کی کے آس پاس ضرور ہوئی ہے جس کی
بنا پر انسانی تخلیق کے اِس قابلِ ذکر دور کا ذکر ارض و سما کے قابلِ ذکر
دور کے ساتھ کیا گیا ہے اور دُوسری طرف اِس زمینی و آسمانی تخلیق کے ذکر کے
ساتھ انسانی تخلیق کا یہ ذکر اِس بات کی بھی خبر دیتا ہے ارض و سما کی اُس
تخلیق کا باعث بھی وہی انسانی تخلیق تھی جس کا اُس زمینی و آسمانی تخلیق کے
ساتھ ذکر کیا گیا ہے ، اگر اِس عالَمِ اَرض و سما کی اِس تخلیق سے مقصود
انسانی تخلیق نہ ہوتی تو ارض و سما کی تخلیق بھی نہ ہوتی اور تیسری طرف اسی
اٰیت کے اسی مضمون کے نتیجہِ مضمون کے طور پر یہ بات بھی پُوری طرح واضح
ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالٰی کے نزدیک انسانی تخلیق کا مقصد کوئی ایسا ہی عظیم
الشان مقصد رہا ہے اور ہے کہ جس عظیم الشان مقصد کی تکمیل کے لیۓ انسان کی
تخلیق کی گئی ہے اور اُس تخلیق کا بار بار ذکر بھی کیا گیا ہے تاکہ انسان
کو اپنے اُس عظیم منصب کی عظمت کا ادراک ہو سکے جس منصب پر اُس کو فائز کیا
گیا ہے اور انسان کو اللہ تعالٰی کے اُس عظیم مقصد کا ادراک بھی ہو سکے جس
عظیم مقصد کے حصول کے لیۓ اللہ تعالٰی نے انسان کو اِس عظیم منصب پر فائز
کیا ہے ، انسانی تخلیق و تشکیل کی اِس پہلی تفصیل میں انسان کا وہ پہلا دور
بھی آگیا ہے جب انسان ایک ناقابلِ ذکر ہستی تھا اور وہ دُوسرا دور بھی آگیا
ہے جب انسان ایک قابلِ ذکر ہستی بن کر ایک قابلِ ذکر دور کے طرف آہستہ
آہستہ بڑھنے لگا تھا ، گزشتہ اٰیات کی اِس تمہید کے بعد اٰیاتِ بالا میں سے
پہلی اٰیت میں انسان کے اُسی تاریخی و تدریجی اور ارتقائی دور کا کیا گیا
ہے جس دور میں انسان اپنے جیسے انسان کے جسم سے گزر کر اپنے جسمِ ذات میں
آتا ہے اور پھر اپنے اِس جسم ذات کے ساتھ سفر کرتا ہوا ایک عالَم سے نکل کر
دُوسرے عالَم میں چلا جاتا ہے جبکہ اٰیاتِ بالا کی دُوسری اٰیت میں ایک تو
اللہ تعالٰی کی اُس قُوت و قُدرت کو بیان کیا گیا ہے جس قُوت و قُدرت سے وہ
چاہے تو اپنے ایک ہی حُکمِ ہست کے ساتھ اِس عالَمِ ہست جیسا ایک اور عالَمِ
ہست پیدا کردے اور اگر وہ چاہے تو اپنے ایک ہی حُکمِ نیست کے ساتھ اِس
عالَمِ ہست کو نیست و نابُود کردے لیکن اللہ تعالٰی عالَم و تخلیقِ عالَم
کے لیۓ اپنی اُس طاقتِ کُن اور فیکون کو استعمال نہیں کرتا بلکہ وہ اپنا
قانونِ تدریج ہی استعمال کرتا ہے جو ہر انسان کو اُس کی ہر ایک تخلیق اور
تشکیل میں نظر آتا ہے اور اِس اَمر کی دلیل یہ ہے کہ قُرآنِ کریم کے بیان
کی رُو سے اللہ تعالٰی نے زمین و آسمان کو جن چھ دنوں یا جن چھ زمانوں میں
بپیدا کیا ہے وہ اُس نے اپنے ایک لفظ کُن سے پیدا نہیں کیا ہے بلکہ اُس نے
اِن زمین و آسمان کو اپنے قانُونِ تدریج کے مطابق ایک تدریج کے ساتھ پیدا
کیا ہے کیونکہ اُس نے اپنا یہ ایک لفظ کُن کہنے کے لیۓ اتنا طویل زمانہ صرف
نہیں کیا ہے بلکہ اُس نے اپنے اُس عملِ تدریج میں اتنا طویل وقت صرف کیا ہے
جو عملِ تدریج اُس کو اپنی اِس عظیم تخلیق کی تکمیل کے لیۓ مطلوب تھا !!
|