اکیسویں صدی کا بائیسواں سال شروع ہو چکا ہے۔ دنیا کو
دیکھ کر دماغ دنگ رہ جاتا ہے . جدید دنیا کی ترقی جسے ہم سائنس اور
ٹیکنالوجی کی ترقی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ جدید دنیا کے ان ممالک کے ارادے
تھمنے والے نہیں ہیں ۔ یہ آگے اور آگے بڑھیں گے اور دنیا کو ہم اور ہمارے
بعد آنے والے ایک دوسرے نئے جھان کی شکل میں دیکھیں گے۔ دنیا کے ان ترقی
یافتہ ممالک کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ اپنی خواتین کو اپنے ساتھ ہر مقام پہ
برابر رکھتے ہیں۔ اور شاید یہی ان کی کامیابی کا راز ہے۔
علامہ اقبال فرماتے ہیں:
وجودِ زن سے ہے تصويرِکائنات ميں رنگ
اُسي کے ساز سے ہے زندگي کا سوزِ دروں
اگر ہم اپنے ملک اور خاص کر اپنے صوبہ سندھ کی بات کریں تو اس وقت ہمارے
ساتھ یہاں کیا ہو رہا ہے۔ ہم اپنی عورت کو بنیادی حقوق بھی نہیں دے سکے۔ ہم
سب جانتے ہیں کہ باہر نکلنے والی خواتین کو معاشرے کے مخصوص طبقہ جات کی
طرف سے کس طرح نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہمیں حقوق نسواں، آزادی، آزادی کی
خواہش چاہیے ، گھر سے فرار کا بھانہ ہو بس ، وغیرہ جیسے طعنے دیے جاتے ہیں۔
آٹے میں نمک کے برابر ، کچھ ایسے خاندان ہیں جہاں صحیح طریقے سے واقعی عورت
آزاد ہے۔ باقی جگہ معاملات کیسے ہوتے ہیں یہ بھی سب کو معلوم ہے لیکن لوگ
نہیں مانتے۔ ہمارے ہاں عورت کا اپنا گھر تک نہیں ہوتا، کبھی باپ کا گھر،
پھر شوہر کا گھر اور پھر بڑھاپے میں بیٹے کا گھرہے جہاں وہ رہتی ہے۔ عورت
کے یہ دکھ، درد، اور تکلیف کو ایک عورت ہی سمجھ سکتی ہے۔
یہ معاشرہ خواتین کو ان کے بنیادی حقوق آخر کب دے گا جو ہمیں ہمارے مذہب
نے بھی دیے ہیں۔ دونوں جہانوں کے سردار، تمام کائنات کے رہنما اور نامور
شخصیت حضور صلی اللہ علیہ وسلم ادب میں کھڑے ہو جاتے جب ان کی بیٹی حضرت
فاطمہ رضی اللہ عنہا تشریف فرما ہوتیں ۔ سندھ میں عام طور پہ کچھ جگہون پر
لڑکی کو سات قرآن کہکر بلایا جاتا ہے لیکن بظاھر اتنی تعظیم دینے کے
باوجود اس لڑکی کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہم روز دیکھتے اور سنتے ہیں۔
اخبارات ایسی خبروں سے بھرے پڑے ہیں جہاں خاندان کا کوئی فرد اپنی جائیداد
باہر نہ چلی جائے، کے خوف سے لڑکی کی شادی اپنی فیملی کے کسی بچے سے کروا
لیتا ہے۔ جہاں آج بھی کہیں کسی بچی کا قرآن کے ساتھ نکاح کروادیا جاتا ہے۔
اور جہاں کوئی لڑکی پسند آجائے تو کئی درندے جنگلی جانوروں کی طرح اس کا
شکار کرنا بھی پسند کرتے ہیں۔ ایسے جنسی شکاریوں کو دیکھ کہ لگتا ہے انکی
اپنی کوئی خاتون گھر میں نہیں ہو۔ اور اکثر ہم خواتین پہ رسم و رواج کی
بیڑیاں ڈالی جاتی ہیں جس کا بوجھ تاحیات اس کو اپنے کندھوں اٹھانا ہوتا ہے۔
کہاں ہے آج کی وہ عورت جو آزاد بھی ہے، تو ہے؟
وہ جہاں بھی کام کرتی ہے، اس کے ساتھ مرد کے برابر سلوک کیا جاتا ہے؟ یا
پھر بہت سے ایسے ہیں جو محض عورت کو گوشت کا ٹکڑا نہیں سمجھتے۔ ایک خاتون
اپنے وجود کو کیسے برقرار رکھتی ہے اور معاشرے میں خود کو ایک انسان ثابت
کرنے کے لیے کس طرح جدوجہد کرتی ہے، یہ وہ چیز ہے جسے ہر عورت ہی اچھی طرح
سمجھ سکتی ہے۔ جو اس طرح کے کرب سے گزری ہے۔ کہتے ہیں کہ جس تن لگیہ وہ ہی
جانے ۔
اس کے علاوہ، ملازمت پیشہ عورت اپنے شوہر کی مرضی ہو تبھی کام کرتی ہے۔ یہ
اس پر اس کے خاوند کا احسان ہوتا ہے کہ شادی شدہ ہونے کے باوجود اس کو
اجازت مل گئی۔ کیا عورت کا انتخاب اس کی مرضی کوئی معنی نہیں رکھتی؟
نوکری کے بعد گھر، شوہر، ماں باپ اور بچوں کی ذمہ داری اکیلی عورت پر ہی رہ
جاتی ہے۔ مردوں کے لیے اتوار کو چھٹی ہوتی ہے اور ہمارے ہاں عورت کے لیے
کوئی بھی چھٹی نہیں ہوتی۔ کبھی شوہر کا بریانی کھانے کو دل کرتا ہے تو پھر
بیٹا ماں کے ہاتھ کا پیزا کھانا چاہتا ہے۔ کبھی کوئی بھائی فرمائش کرتا ہے
آج اس کا دہی بھلے کھانے کا من ہے ۔ بارش ہوتی ہے تہ گھر کے بیشتر افراد
بارش میں لطف اندوز ہوتے ہیں، اس وقت یہ عورت پکوڑے بنا رہی ہوتی ہے، کیوں
کہ سب کو گرم گرم پکوڑےبرسات میں اچھے لگتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہم سب
اس وقت واقعی خوش ہوتے ہیں۔
یہ سب تو چلو چھوڑو پر خواتین کو تعلیم بھی نہیں دی جاتی۔ اس دؤر میں بھی۔
ہاں اکیسویں صدی کے بائیسویں سال میں بھی آج بھی چھوٹے چھوٹے شہر، گاؤں اور
دیہات ایسے ہیں جہاں لڑکی کو دی جانے والی تعلیم پہ لڑکے کو فوقیت دی جاتی
ہے۔ اور لڑکی کو نظرانداز کیا جاتا ہے ان کے اسباب کچھ بھی ہوں پر ایسا
ہوتا ہے۔
آپ نے سنا ہی ہوگا جب ایک مرد پڑھتا ہے تو وہ ہی ایک پڑھا لکھا ہوتا ہے پر
جب ایک خاتون پڑھتی ہے تو مطلب ایک پورا خاندان پڑھا لکھا ہوتا ہے۔ تو اگر
ہم ایک لڑکی کو غیر تعلیم یافتہ رکھیں گے تو ہم کون سی قومیں اور نسلیں
پروان چڑھائیں گے؟
اس لیے وقت کی ضرورت ہے کہ خواتین کو ان کے بنیادی حقوق فراہم کیے جائیں
تاکہ وہ مکمل قناعت، صلاحیت اور خوشی کے ساتھ ایک بہترین معاشرہ تشکیل دے
سکیں۔ |