مولانا غلام محمد وستانوی
کودارالعلوم دیوبند کے منصب اہتمام سے فارغ کردئے جانے کا واقعہ افسوسناک
توہے مگر انوکھا نہیں ہے۔ہماری تاریخ میں ایسے کئی واقعات درج ہیں،جن کو سن
کرایک عالم صورت حیرت بن کر رہ گیا، مگر’ اولی الامر‘ کے فیصلے کے سامنے سر
اطاعت جھکادیااور اسلامی کردار کی اعلا مثال قائم کردی۔مولانا وستانوی نے
مجلس شوری کے فیصلے کو قبول فرماکر بیشک بڑی حد تک ایک بھولا ہوا سبق یاد
دلا دیا ہے۔ سبحان اللہ۔
یہاں حضرت خالدبن ولیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تاریخی واقعہ کا اجمالاً ذکر
بےجا نہ ہوگا۔حضرت خالدؓ کے جوہر شجاعت اور فن سپہ گری کی قدر افزائی
فرماتے ہوئے خود اللہ کے رسول نے ان کو’سیف اللہ ‘کا خطاب عطا فرما یا تھا۔
سیدنا حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں وہی اسلامی
افواج کے سپہ سالاراعظم تھے اور جس محاذ پر جاتے فتح و نصرت ان کا استقبال
کرتی۔حضرت خالدؓخلیفہ ثانی سیدنا حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے
چچازاد بھائی بھی تھے۔ لیکن حضرت عمر ؓ نے منصب خلافت پرفائز ہوتے ہی ان کو
ہٹا کر حضرت ابو عبیدہ ؓ کو سپہ سالار اعظم مقرر کر دیا۔ حضرت خالدؓ نے
خلیفہ کے فیصلے کو خندہ پیشانی سے قبول کیا اورفیلڈ کمانڈر کی حیثیت سے جس
محاذ پر بھی حضرت ابو عبیدہ ؓ نے ان کو بھیجا ، گئے اور فتح یاب ہوکر لوٹے
،یہاں تک کہ بلا فصل ایک سو زیادہ معرکوں میں ان کی قیادت میں اسلامی افواج
فتح سے ہم کنار ہوئی۔یہ سلسلہ جاری تھا کہ امیرالمومنین حضرت عمر ؓ نے فوج
سے ہی ان کی معزولی کا حکم صادر فرمادیا۔اس حکم سے اور اس طریقہ کار سے جو
بحکم خلیفہ اس کے نفاذ کےلئے اختیار کیا گیا اس سے حضرت خالد ؓ کو تو فطری
طور سے صدمہ پہنچا ہی ، حضرت عبیدہؓ بھی رنجیدہ ہوئے ۔ جس نے سناحیران رہ
گیا۔ مگران کے قلوب نور ایمان سے منور تھے۔ کسی نے نہ توحضرت عمرفاروقؓ کی
نیت پر الزام عاید کیا، نہ ان کے خلاف مہم چلائی اور نہ بغاوت ہوئی۔ حضرت
خالد ؓ کو اگرچہ آخری سانس تک یہ صدمہ رہا کہ ان کو محاذ جنگ پر جانے سے
روک دیا گیا اور امکانی شرف شہادت سے محروم رہ گئے، لیکن انہوں نے ’اولا
الی امر‘ (حاکم ) کے حکم کی اطاعت کی جو مثال قائم کی، وہ تاریخ میںسنہرے
حروف سے درج رہے گی۔ مولانا وستانوی کی تقرری اور علیحدگی کے تعلق سے ہمیں
اپنے دلوں کو ٹٹول کر دیکھنا چاہئے کہ ہم کس مقام پر کھڑے ہیں؟قرآن کی
زراسی بے توقیری پر ہم غم و غصہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں،مگر قرآن کے حکم
’اطیعواللہ و اطیعو الرسول و اولی الامر منکم‘(اطاعت کرو اللہ کی، اس کے
رسول کی اور ان کی جو تم میں حاکم مقررکئے گئے ہیں) کی پامالی پر ہمارے دل
و دماغ میں کوئی اضطراب پیدانہیں ہوتا۔ آخر کیوں؟ہم کاغذ کے ان اوراق کو تو
بصد احترام چومتے ہیں جن پر آیات قرآنی لکھی ہوتی ہیں اور اپنے عمل سے اس
حکم کو ٹھکرادیتے ہیں جو ان آیات میں نازل ہوا ہے؟ کیا قرآن کے احترا م کا
حق ادا ہوگیا؟
دارالعلوم دیوبند کا منصب اہتمام بڑی بھاری ذمہ داری ہے۔ اس دانشگاہ دینی
کی تاریخ یہ رہی ہے اس منصب کے اہل افراد ہمیشہ اس ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے
سے ڈرتے تھے ۔ شوریٰ کی روایت بھی فیصلے عام رائے سے کرنے کی رہی ہے۔ غور و
فکر کے دوران کس نے کیا رائے دی ،وہ بھی ایک بند کتاب ہوتی تھی۔ جوفیصلہ
ہوتا ، وہ سب کا فیصلہ تصور کیا جاتا اور ارکان شوری کے تقوٰی کا یہ عالم
تھا کہ کیا خواص اور کیا عوام ہر کوئی ان پر اعتماد کرتا اور شک کی گنجائش
ہی نہیں رہتی تھی۔ افسوس کہ اس دورِ انحطاط میں یہ روائتیں معدوم ہوتی جاتی
ہیں۔یہ چرچا عام ہے کہ فیصلہ بعض دیگر ترغیبات و محرکات کے تحت بدلا گیا
اور افسوس کہ اس پر یقین کرنے والے بھی کم نہیں ہے۔ وہ ہنگامہ بدتمیزی جو
جنوری میںمولانا وستانوی کے انتخاب کے بعد برپا ہوا وہ بھی اسی انحطاط اور
مجموعی طور سے ذہنوں کی سیاست زدگی کی بدولت ہوا۔ مجھے یہ کہنے کی اجازت
دیجئے کہ اس معاملے نے دیوبند کے وقار اور احترام کو سخت چوٹ پہنچائی ہے ۔
امت مسلمہ علماءدیوبند کو، جو عرف عام میںقاسمی کہلاتے ہیں، دین کا امین ،
شریعت مطہرہ کا محافظ ہی نہیں بلکہ طریقت کارہبر بھی تصور کرتی ہے۔ مگر
افسوس کہ بعض قاسمی حضرات نے جو روش اختیار کی وہ اس مقام و منصب کے منافی
ہے۔
اس ہنگامہ آرائی کا مقصد یہ تھا نئے مہتمم کام نہ کرسکیں۔ چھوڑ کر چلے
جائیں تاکہ مقامی لوگوں کی اجارہ داری بدستور برقرار رہے۔ مولانا کو
دھمکیاں دی گئیں اور اس کا احساس خود مولانا وستانوی کو بھی ہوگیا کہ ان
حالات میں کام کرنا ان کے لئے ممکن نہیں ۔ چنانچہ مہتمم کے حیثیت سے خود
انہوں نے شوری کا ہنگامی اجلاس ۳۲ فروری کو طلب کیااور اپنے مکتوب میںاس کا
ایجنڈہ یہ بیان فرمایا:’ تاکہ مجلس میں بندہ اپنا استعفا پیش کردے اور
دارالعلوم کے نظم و نسق سے متعلق مجلسِ شوری آئندہ کےلئے لائحہ عمل طے
کرے۔‘
لیکن بعد کے واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا محترم اپنے اس ارادے پر
قائم نہیں رہ سکے۔ ان کےلئے ہرچند کہ یہ آسان نہیں تھا کہ مقامی مفادات
خصوصی کوبے اثر کرسکیں جو اخلاق و قانون کی تمام حدود کو پامال کرنے
پرآمادہ رہتے ہیں۔ لیکن انہوں نے اتنی جرات ضرور دکھائی کہ دبنگوں کا
مقابلہ کرنے سے پہلے ہی ہتھیار نہیں ڈال دئے اور اس بات پر اڑ گئے کہ پہلے
ان کو الزامات سے بری اور ہنگامہ کرنے والوں کو بے نقاب کیا جائے۔ چنانچہ
شوری کے اس ہنگامی اجلاس میں فیصلہ یہ ہوا کہ ایک تین رکنی کمیٹی مولانا پر
عائد الزامات اور اس کے بعد کے ہنگامے کی جانچ کرے تاکہ سچائی آشکارہ
ہوجائے اور مولانا وستانوی پر مخالفین نے جو الزامات عاید کئے ہیں ان کی
حقیقت عوام کے سامنے آجائے۔اس میٹنگ میں اگرچہ مولانا کو منصب اہتمام سے
ہٹایا نہیں گیا لیکن ایک بااختیار قائم مقام مہتمم مقرر کرکے ان کے جملہ
اختیارات سلب کرلئے گئے اور چند ہی روز بعد ان طلباءکے اخراج کو منسوخ
کردیا گیا جو مولانا کی تقرری کے خلاف ہنگامہ آرائی میں ملوث تھے۔ ان سے
یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے شوری نے اگرچہ باقاعدہ مولانا کو منصب اہتمام
سے ۴۲ جولائی کو علیحدہ کیا ہے ،مگر یہ ذہن پہلے ہی بنا لیا گیا تھا اور
کمیٹی کا قیام اور جانچ کا اہتمام محض خانہ پوری کےلئے تھا۔
دارالعلوم کے دفتر اہتمام سے ۷۲ جولائی کو ایک وضاحت جاری کی گئی ہے اس میں
بھی یہی کہا گیا ہے کہ ”۳۲ فروری کے اجلاس میں بھی ارکان شوری نے مولانا سے
مطالبہ کیا تھا کہ وہ میٹنگ کے مقررہ ایجنڈے کے مطابق اپنا استعفا پیش
فرمادیں، لیکن انہوں نے تحقیقاتی کمیٹی کے قیام پر اصرار فرمایا اور یہ
یقین دہانی کرائی کہ رپورٹ ان کے حق میں ہو یا خلاف ہو، وہ بہر حال مستعفی
ہوجائیں گے۔“ مولانا وستانوی کے اس عندیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی دلچسپی
منصب اہتمام سے چمٹے رہنے میں نہیں تھی، بلکہ اس میں تھی کہ ان کے خلاف جو
پروپگنڈاہوا ہے اس سے ان کا دامن صاف ہوجائے۔ افسوس کہ دارالعلوم کے محترم
ارکان شوری نے اس اہمیت کو نہیں سمجھا کہ دارالعلوم کی مجلس اعلا سے ایک
مدت سے وابستہ رکن کے خلاف عائد کردہ الزامات ، جو مفاد خصوصی کی ایک چال
ہیں ،ان کی وضاحت ہو نی چاہئے۔۳۲ فروری کے اجلاس میں استعفے کے مطالبہ اور
اب رپورٹ پر غور کئے بغیر مولانا کی علیحدگی کاجوفیصلہ صادرہوا ہے اس سے یہ
سمجھا جاسکتا ہے کہ محترم ارکان شوری کی نظر میں مولانا پر لگائے گئے
الزامات درست ہیں ۔ اب خدانخواستہ اگر الزاما ت درست ہیں تو یہ سمجھ
میںنہیں آرہا کہ منصب اہتمام سے استعفے کے مطالبے کے ساتھ مولانا سے کیوں
نہیں کہا گیا کہ وہ شوری سے بھی استعفا دے دیں؟جو شخص ان بیہودہ الزامات کی
وجہ سے ارکان شوری کی نظر میں مہتمم رہنے کے اہل نہیں اس کو وہ نظام اہتمام
کا حصہ رہنے کے اہل کیسے سمجھتے ہیں؟ خود حضرت مولانا وستانوی کی خودداری
کا تقاضا بھی یہ ہونا چاہئے کہ اب جبکہ انہوں نے دارالعلوم کو خیرباد کہہ
دینے کا اعلان کردیا ہے تو شوری سے بھی مستعفی ہوجائیں۔ ہم نہیں سمجھتے کہ
موجودہ حالات میں اب وہ کوئی مفید خدمت انجام دے سکیں گے۔
دارالعلوم کی مذکورہ وضاحت سے یہ منکشف ہوتا ہے کہ ۳۲ اور ۴۲ جولائی کے
اجلاس میں کمیٹی کی جو رپورٹ پیش ہوئی ،جسے مولانا واستانوی نے ادھورا اور
دفتر اہتمام نے پورا قرار دیا ہے، اس پر شوری نے سرے سے غور ہی نہیں کیا
اور یہ کہا کہ اگر پوری رپورٹ پر غور کیا جاتا تو” اس میں وقت بہت لگ جائے
گا اور نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلے گا“۔ اتنا ہی نہیںنہ ارکان نے پوری رپورٹ
کو پڑھا اور نہ سنا۔ محترم ارکان شوری کا سارا زور اس بات پر رہا کسی طرح
مولانا استعفا دیدیں۔ چنانچہ مختلف پیراﺅں سے ان سے یہ مطالبہ کیا جاتا رہا
کہ کیونکہ ۳۲ فروری کی میٹنگ میں انہوں نے ”یہ قطعی وعدہ کیا تھا کہ کمیٹی
کی رپورٹ کچھ بھی ہو ، استعفا دیدوں گا۔“ اس لئے وہ استعفا دےدیں۔ ان کو
مشورہ دیا گیا، ” آپ اپنی مصروفیات کا حوالہ دے کر استعفا دیدیں تاکہ مسئلہ
ختم ہوجائے۔ ہم آپ پر کوئی چارج نہیںلگائیں گے۔“مقام حسرت ہے کہ حجت کے
بجائے حیلہ سازی کی جانب راغب کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس وضاحت میں مزید کہا
گیا ہے،” ہر طرح خوشامد کی گئی مگر مولانا اس مکمل رپورٹ کو برابر نامکمل
کہہ کر استعفے سے انکارکرتے رہے۔ بالاخر صدر مجلس نے فیصلہ کردیا کہ اب اس
کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ مولانا کی سبکدوشی کی تجویز لائی جائے ۔“ ہم
نہیںسمجھ سکے کہ محترم ارکان شوری کو حتمی فیصلے کی ایسی کیا عجلت تھی؟
ہونا یہ چاہئے تھا کہ رپورٹ کی کاپیاں تمام ارکان کو مہیا کی جاتیں ، ان کی
رائے بھی آتی اور جس کو ملزم بناکر کھڑا کیا گیا ہے اسے بھی مزید صفائی کو
موقع دیا جاتا اور حجت تمام ہونے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جاتا۔ چنانچہ اس
وضاحت سے صاف پتہ چلتا ہے کہ محترم صدر مجلس اور ان کے ہم خیال ارکان شوری
یہ ذہن پہلے ہی بنا چکے تھے کہ کمیٹی کی رپوٹ چاہے کچھ بھی کیوں ہو، بہر
حال مولانا وستانوی کو ہٹانا ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے مولانا پر جو
الزامات لگائے تھے وہ اس رپورٹ سے ثابت نہیں ہوتے تھے، اگر ثابت ہوئے ہوتے
ان سے یہ نہ کہا جاتا کہ ’ ہم آپ پر کوئی چارج نہیںلگائیں گے‘ بلکہ یہ کہا
جاتا کہ’ آپ الزامات کی زد میں ہیں ،اس لئے استعفا دیدیجئے۔‘
جیسا کہ عام قاعدہ ہے رائے شماری کے وقت مولانا مجلس سے اٹھ کر چلے گئے۔
واپس آئے توفیصلہ ان کے خلاف ہوچکا تھا مگر انہوں نے اس کا کوئی شکوہ نہیں
کیا، کوئی وضاحت نہیں چاہی، بلکہ خندہ پیشانی سے اس کو قبول کرلیا۔ دفتر
اہتمام کے اعلان کے بموجب ، ” اپنے خلاف فیصلہ ہونے کے باوجود انہوں نے
مجلس میں اعلان کیا کہ فیصلہ مجھے تسلیم ہے اور میں عدالت میں نہیں جاﺅنگا۔
انہوں نے نومنتخب مہتمم مفتی ابوالقاسم کو مبارکباد پیش کی ، اختتامی دعا
میں شریک ہوئے اور پھر اخبارات کےلئے جو اعلانیہ جاری ہوا اس کو دیکھا اور
کہا صحیح ہے۔“
یہ خلاصہ خود دفتر اہتمام دارالعلوم کا جاری کردہ ہے اس لئے اس پر کوئی شک
نہیں کیا جاسکتا ۔ بنظر غائر اس کا مطالعہ کیجئے توصاف ظاہر ہوتا ہے کہ
انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے اورروش وہی اختیار کی گئی جو عام طور پر
سیاسی پارٹیاں اختیارکرتی ہیں ۔اس میں شک نہیں کہ تدبیر، تدبر اور حکمت اہل
ایمان کے ہتھیار ہیں، مگر انکے ساتھ انصاف ، شفافیت اور تقویٰ کے تقاضے
مجروح نہیں ہونے چاہئیں۔اس کا ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس میں وہ جرات
ایمانی نظر نہیں آتی، جس کی توقع ہم اپنے ارباب حل وعقد سے کرتے ہیں۔حضرت
ابوبکر صدیقؓ تو منکرین ذکوٰة کے مقابلے اس بات پر اڑ گئے تھے کہ حق قائم
کرکے رہیں گے ،لوگوں سے اللہ کا حق لیکر رہیں گے، چاہے وہ کیسا ہی حقیر
کیوں نہ ہو، اور اس کےلئے کیسی ہی قربانی کیون نہ دینی پڑے۔ مگر یہ فیصلہ
ان دبنگوں کے سامنے سپر ڈال دینے کے مترادف ہے ، جنہوں نے اپنے مفاد خصوصی
کےلئے بار بار دارالعلوم کو یرغمال بنایا۔ اس سے ان کے حوصلے اور بڑھیں گے۔
اندیشہ یہ ہے اس کے نتائج بڑے بھیانک ہونگے۔ اب یہ دیکھا جارہا ہے کہ ہمارے
تعلیمی ادارے ہی نہیں مساجد تک کااہتمام ایسے دبنگوں کے قبضے میںجارہا ہے
،جو ہرگز دین کے تقاضوں کا پاس و لحاظ نہیں رکھتے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ
محترم ارکان شوری نے یہ فیصلہ شرپسندوں کے نفسیاتی دباﺅ میںکیا ہے۔ ان کو
اندیشہ یہ رہا ہوگا کہ اگر مولانا کو منصب اہتمام پر برقرار رکھا گیا تو
دارالعلوم میں پھر شورش برپا ہوگی۔لیکن اس حکمت عملی سے شورش پسندوں کی
سرکوبی نہیںہوئی بلکہ حوصلے بڑھے ہیں اور ان کی گرفت اور مضبوط
ہوگی۔باالفاظ دیگر پہلے اخراج شدہ طلباءکو رپورٹ کا انتظار کئے بغیر بحال
کرکے اور اب رپورٹ پر غور و فکر کئے بغیر مولانا وستانوی کو رخصت کرکے،
دیوبند کے ارباب حل وعقد نے دبنگوں کی اجارہ داری کو قبول فرمالیا ہے اور
حق کی طرفداری کی ان روایات کو مجروح کیا ہے جو ہمارے اسلاف نے اپنے آرام
اور جان کی قربانیاں دے کر قائم کی ہے۔ مقصود اداروں کا چلانا رہ گیا ہے ،
اس کردار کا تحفظ اب ترجیحات میں شامل نہیں رہا، جس کےلئے یہ ادارے قائم
کئے گئے تھے۔یہ اس خاص ذہنیت کی بالادستی ہے جس کی نظر میںدین کی اصل بس
اسی خطے میںمحفوظ ہے۔البتہ یہ بات لائق ستائش ہے کہ نو منتخب مہتمم حضرت
مفتی ابوقاسم بنارسی مظلہ العالی کا تعلق اس طبقہ اشراف سے نہیںجو
صدیوںدوسروںپر انحصار فرماتے رہے ہیں، بلکہ اس محنت کش طبقہ سے ہے جو اپنے
قوت بازو سے رزق حاصل کرتے ہیں۔ آج وہ جس مقام پر پہنچے ہیں وہ اکتسابی
ہے،اس میںکسی خاندانی اثرورسوخ کا دخل نہیں۔یہ بڑی بات ہے۔ اللہ ان کے
درجات کو بلند فرمائے۔آمین۔
مولانا غلام محمد وستانو ی کاشوری کے فیصلے کوقبول کرلینا اور عدالت
میںچارہ جوئی نہ کرنے کا اعلان لائق ستائش ہے۔ آج ہمارے بہت سے دینی اداروں
کے معاملات عدالتوں میں زیر غور ہیں۔ جو افراد یا ادارے مروجہ نظام عدل کو
باطل گردانتے ہیں اور قانون شریعت کو ہی اصل معیار حق تصور فرماتے ہیں ،ان
کےلئے یقینا یہ بات باعث عار ہونی چاہئے کہ وہ اپنے معاملات کے تصفیہ کےلئے
عدالتوں سے رجوع کریں اور اللہ کی عدالت کو بھول جائیں۔ ہرچند کہ دارالعلوم
کی وضاحت سے ایسا لگتا ہے کہ فیصلہ منطقی ہے، لیکن اس منطق سے انصاف کے
تقاضے پورے نہیں ہوگئے ہیں۔ اس کے باوجود یہ کیسے سمجھ لیا جائے کہ عدالت
میں معاملہ جس حاکم کی روبرو پیش ہوگا وہ یقیناً بڑا ہی خداترس اور عدل
پرور ہوگا اور وہاں سے جوفیصلہ صادر ہوگا، اس سے حق قائم ہوجائیگا اور
تنازعہ حل ہوجائےگا۔ہم دعا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ہماری لغزشوں کو درگزر
فرمائے ، جو فیصلہ ہوگیا ہے اس کو دارالعلوم کے حق میں اور اس مقصد کےلئے
جس کےلئے دارالعلوم قائم ہوا ہے باعث برکت فرمائے۔ رمضان کا ماہ مبارک
ہمارے اوپر سایہ فگن ہے۔ موقع ہے ہم اللہ کی جانب رجوع کریں اور ایمان میں
استحکام و اسلام استقلال کی دعاکریں۔ آمین۔ |