منظر۳۲۹
عبدالحق،عارف،سعیداحمد،بشریٰ گھرکے صحن میں کرسیوں پربیٹھے ہیں۔ ان کے
درمیان میں میزرکھی ہوئی ہے تین پلیٹوں میں کھجوررکھی ہوئی ہے سعیداحمد،
بشریٰ الگ الگ پلیٹوں سے عارف اورعبدالحق ایک ہی پلیٹ سے کھجورکھارہے ہیں
بشریٰ۔۔۔۔۔مجھے عبدالحق کی بات پسندآئی اب میں باپ بیٹا دونوں کومبارک
باددیناچاہتی ہوں
سعیداحمد۔۔۔۔۔مبارک بادکامستحق تیرابیٹا ہے
بشریٰ۔۔۔۔آپ بھی برابرکے حق دارہیں
سعیداحمد۔۔۔۔میری الجھن ابھی باقی ہے
بشریٰ۔۔۔۔۔اب کیاالجھن ہے رشتہ داروں کوبتاتودیاہے عارف کی بات کاکیامطلب
ہے
سعیداحمد۔۔۔۔۔۔ہم نے صرف رشتہ داروں بتایاہے ان کویہ بات سمجھ بھی آئی ہے
یانہیں ہم یہ بھی نہیں جانتے
بشریٰ۔۔۔۔انہیں سمجھ نہ آتی توتوپوچھتے کوئی نہ کوئی سوال کرتے
سعیداحمد۔۔۔۔۔انہوں نے تواس بارے کوئی بات ہی نہیں کی کسی نے عارف کے
سوالوں کاجواب ہی نہیں دیا
بشریٰ۔۔۔۔۔یہ کیسے پتہ چلے گا کسی کوسمجھ آئی ہے یانہیں
سعیداحمد۔۔۔۔۔جب ہم کسی کے گھراپنے بیٹے کارشتہ لے کرجائیں گے
بشریٰ۔۔۔۔۔عارف کارشتہ کسی اورگھریاخاندان میں لے کرگئے تو
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
منظر۳۳۰
عرفان، اشرف اوراحمدبخش جاویدکے گھرمیں احمدبخش کے کمرے میں بیٹھے ہیں
اشرف۔۔۔۔۔ہم اس دن تیرے گھرآئے تھے اتنے دنوں سے ملے نہ تھے اس لیے
عرفان۔۔۔۔۔تیرے ابونے کہا کہ ہم تجھ سے نہیں مل سکتے ہم باربارکہتے رہے ہم
اس سے مل کرچلے جائیں گے تیرے ابونے ہماری ایک نہ سنی
اشرف۔۔۔۔اسی دوران تیری امی آگئیں وہ ہمیں گھرلے گئیں پانی پلایا اوربتایا
کہ توچچاکے گھرمیں ہو
احمدبخش۔۔۔۔اب توملاقات ہوگئی ہے اب توخوش ہو
عرفان۔۔۔۔۔ہم بہت خوش ہیں
احمدبخش۔۔۔۔استادصاحب کیسے ہیں کلاس کے لڑکے کیسے ہیں
اشرف۔۔۔۔وہ سب ٹھیک ہیں تجھے یادکرتے رہتے ہیں استادصاحب تیرے بارے میں
پوچھتے رہتے ہیں
احمدبخش۔۔۔۔۔مجھے بھی استادصاحب اورکلاس فیلویادآتے ہیں میری طرف سے
استادصاحب اورلڑکوں کوسلام کہنا اورمیرے لیے دعاکرنے کی درخواست کرنا
عرفان۔۔۔۔استادصاحب تیرے لیے دوباردعاکراچکے ہیں
اشرف۔۔۔۔جب ہم سکول جاتے ہیں اورواپس آتے ہیں تونہیں ہوتا
احمدبخش۔۔۔۔چنددنوں کی بات ہے اس کے بعدمیں بھی تمہارے ساتھ جایاکروں گا
عرفان۔۔۔۔مولوی صاحب ہم تینوں دوستوں کی دعوت کرناچاہتے ہیں وہ کہتے ہیں جس
دن ہم کہیں گے دعوت اسی دن ہوگی اب توبتا ہم مولوی صاحب کوکس دن کاکہیں
احمدبخش۔۔۔۔۔مجھے توچچاجان گھرسے باہرنہیں جانے دیتے تم چچاسے پوچھ لو وہ
جس دن کاکہیں گے میں تمہارے ساتھ چلاجاؤں گا
اسی دوران جاویدتین پلیٹوں میں دودھ چاول لے آتاہے
اشرف۔۔۔۔چچاجان مولوی صاحب ہم تینوں کی دعوت کرناچاہتے ہیں اجازت ہوتوہم
اپنے دوست کولے جائیں
جاوید۔۔۔۔۔کب ہے دعوت
عرفان۔۔۔۔وہ ہم نے بتاناہے
جاوید۔۔۔۔تم جب چاہو اس کولے کرجاسکتے ہو اس کواپس بھی خود چھوڑ کرجاؤگے
اشرف۔۔۔۔استادصاحب اس کی صحت کے بارے میں پوچھ رہے تھے
جاوید۔۔۔۔اس کی صحت میں بہتری آرہی ہے استادصاحب سے کہنا اس کوبیس دن کی
مزیدچھٹیاں دے دیں
عرفان۔۔۔۔استادصاحب کہتے ہیں اس کوٹھیک ہونے میں چھ ماہ بھی لگ سکتے ہیں
جاوید۔۔۔۔۔یہ اپنے گھرمیں ہوتا تومزیدبیمارہوجاتا میں اسے اس لیے اپنے
گھرلے آیاہوں تاکہ یہ جلدسے جلدصحت یاب ہوجائے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
منظر۳۳۱
عبدالمجیدکھیتوں کوسیراب کرنے کے لیے بنائی گئی چھوٹی کھال کے کنارے
پربیٹھاہے۔ اس نے اپنی ٹانگیں کھال میں لٹکائی ہوئی ہیں ۔کھال خشک ہے۔
عبدالغفوراورظفراقبال عبدالمجیدکی پیٹھ کی طرف سے آتے ہیں ان میں سے ایک
عبدالمجیدکے دائیں طرف بیس میٹر کے فاصلے پربیٹھ جاتاہے جب کہ دوسرااتنے ہی
فاصلے پر اس کی بائیں جانب بیٹھ جاتاہے عبدالمجیدکھال کی طرف دیکھ رہاہے۔
اپنے ہاتھ سے اپناسرپکڑتاہے پھرچھوڑدیتاہے ۔عبدالغفوراورظفراقبال اسے دیکھ
رہے ہیں۔ دونوں نے ایک ہی رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ ایک ہی رنگ کے بڑے
رومال سے سراورمنہ ڈھانپے
ہوئے ہیں۔ عبدالمجیدایک کی طرف دیکھتاہے تووہ آنکھوں کے سامنے ہاتھ کی چھت
بناکراسے ایسے دیکھنے لگ جاتاہے جیسے وہ اسے دورسے پہچاننے کی کوشش
کررہاہو۔ عبدالمجیداٹھنے لگتاہے توجس کودیکھ رہاتھا وہ ڈرجاتاہے اورسہم
جاتاہے وہ مٹی کاڈھیلااٹھاتاہے اورعبدالمجیدکے سرکے اوپرسے دوسری طرف پھینک
دیتاہے۔ عبدالمجیددوسری طرف دیکھتاہے تواس طرف بھی ایک شخص بیٹھاہواہے وہ
بھی اسی طرح عبدالمجیدکودیکھنے لگ جاتاہے جیسے وہ پہچاننے کی کوشش
کررہاہو۔وہ اسی حالت میں ایک چوتھائی دائرہ میں اپناسرگھماتاہے پھرسرکوآگے
کی طرف کرکے عبدالمجیدکوپہچاننے کی کوشش کرتاہے۔ پھرڈرکرسہم جاتاہے۔ مٹی
کاایک روڑہ اٹھاکرعبدالمجیدکے سرکے اوپرسے اس کی دوسری طرف پھینک دیتاہے۔
عبدالمجیددوبارہ پہلی طرف دیکھتاہے تووہ شخص وہ چھوٹے رومال سے اس طرح
آنکھیں صاف کررہاہوتاہے جیسے وہ آنسوصاف کررہاہو عبدالمجیددوبارہ دوسری طرف
دیکھتاہے تووہ بھی اسی طرح آنسوصاف کررہاہوتاہے عبدالمجیداپنے سامنے کھیتوں
کودیکھنے لگ جاتاہے کھال کے کنارے پرکھڑاہوجاتاہے اپنے کپڑے درست کرتاہے ان
کوہاتھوں سے دوبارہ جھاڑتاہے اپنے دائیں بائیں دیکھتاہے تواسے کوئی بھی
دکھائی نہیں دیتا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
منظر۳۳۲
مسجدکے صحن میں مولوی صاحب کے ساتھ دورکی مساجدسے آئے ہوئے مولوی صاحبان
مقابلے کرانے والی مردوں کی چاروں کمیٹیوں کے ممبران بیٹھے ہوئے ہیں۔
مسجدکاصحن بچوں اوربچیوں سے بھراہواہے۔ اخترحسین مولوی صاحب کے پاس آتے
ہیں۔
اخترحسین۔۔۔۔مولوی صاحب سے۔۔۔۔۔مقابلے شروع کرائیں
مولوی صاحب۔۔۔۔۔میں نے الگ الگ گروپ بنادیے ہیں۔
اخترحسین۔۔۔ٹھیک ہے ہرگروپ کے منصفین میں ایک ایک منصف ہماری طرف سے بھی
شامل کرلیں ۔
مولوی صاحب۔۔۔۔آپ خودجس کوجس گروپ میں چاہیں بٹھاسکتے ہیں
اخترحسین۔۔۔۔آپ گروپوں کوالگ الگ کرکے مقابلے شروع کرائیں
مولوی صاحب۔۔۔۔کھڑے ہوکر۔۔۔۔۔توجہ کریں سب لوگ
مسجدمیں بیٹھے ہوئے تمام لوگ مولوی صاحب کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں
مولوی صاحب۔۔۔۔۔آج مقابلوں کاپہلادن ہے آج ہونے والے تمام مقابلوں کے لیے
الگ الگ گروپ بنادیے گئے ہیں میں منصفین سے کہوں گاکہ وہ اپنی اپنی جگہوں
پرچلے جائیں مولوی صاحبان اٹھ کرمسجدکے صحن میں مختلف جگہوں پربیٹھ جاتے
ہیں۔
مولوی صاحب۔۔۔۔سب سے پہلے وضوکرنے کامقابلہ ہوگا اس کے بعدترتیب سے
ہرمقابلے کے بیس سے پچیس منٹ کے بعداس مقابلے سے بعدوالامقابلہ شروع ہوگا
اخترحسین۔۔۔۔۔تمام مقابلے ایک ہی وقت میں بھی شروع کرائے جاسکتے ہیں پھریہ
ان کی ٹائمنگ میں فرق کیوں ہے
مولوی صاحب۔۔۔۔اکثربچے اوربچیاں ایک سے زیادہ مقابلوں میں حصہ لے رہی ہیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
منظر۳۳۳
جاوید گھاس کاٹ رہاہے۔ اس کے ایک طرف کاٹے ہوئے گھاس کی چھوٹی چھوٹی
ڈھیریاں پڑی ہیں۔ رحمتاں گٹو سے بنایاگیاچھوٹا ترپال بچھاتیاس میں گھاس کی
ڈھیریاں رکھنے لگ جاتی ہے
رحمتاں۔۔۔۔گھاس کی ایک ڈھیری اٹھاتے ہوئے۔۔۔۔۔آپ نے اپنے بھائی اوربھتجے کے
بارے میں بتاناتھا وہ سب کے سامنے بتادیا
جاوید۔۔۔۔گھاس کی ڈھیری پرگھاس رکھنے کے بعد۔۔۔۔۔توکیاوہ سب کچھ سب کے
سامنے نہیں بتاناچاہیے تھا یاسب سے پہلے تجھے بتاناچاہیے تھا
رحمتاں۔۔۔۔۔آپ نے وہ بات سب کے سامنے کرکے بہت اچھاکیا مجھے بھی پہلے
بتاناضروری نہیں تھا
جاوید۔۔۔۔پھریہ کہنے کی ضرورت کیوں پڑی
رحمتاں۔۔۔۔آپ نے اپنی بات توکہہ دی میں بھی آپ سے ایک بات کرناچاہتی ہوں
جواب تک نہ کہہ سکی
دونوں مل کرگھاس کی گٹھڑی باندھتے ہیں۔ جاویدگٹھڑی اٹھاتاہے رحمتاں اس کی
مددکرتی ہے۔ جاویداوررحمتاں گھرکی طرف آرہے ہیں
جاوید۔۔۔۔۔بتاؤ تم نے کیابات کرنی ہے
رحمتاں۔۔۔۔اریبہ اورراشدہ ہمارے گھرآئی تھیں
جاوید۔۔۔۔۔وہ توپہلے بھی آتی ہیں
رحمتاں۔۔۔۔۔راشدہ کواریبہ میرے پاس لے آئی تھی
جاوید۔۔۔۔۔خیریت توتھی ضرورکوئی بات ہوگی
رحمتاں۔۔۔۔۔وہی بات میں آپ کوبتاناچاہتی ہوں
جاوید۔۔۔۔۔ہاں بتاؤ
رحمتاں۔۔۔۔راشدہ آپ کے بھائی کی وجہ سے پریشان تھی
جاوید۔۔۔۔۔وہ تواس کی وجہ سے پریشان ہی رہتی ہے
رحمتاں۔۔۔۔اس دن اس کی پریشانی سن کرمیں بھی پریشان ہوگئی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
منظر۳۳۴
مسجدمیں وضوکرنے کامقابلہ ہورہاہے صحن میں ایک سائیڈپردوبینچ ایک دوسرے کی
سائیڈ سے ملاکررکھے ہوئے ہیں۔ ان بینچوں پربیٹھ کردوبچے بغیرپانی کے
وضوشروع کرتے ہیں۔ منصفین میں سے ایک منصف کہتاہے دونوں نے ایک دوسرے کی
طرف دیکھنانہیں ہے جس نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اس کومقابلے میں نہیں رہنے
دیاجائے گا ایک بچہ ہاتھ دھونے لگتاہے توسامنے صحن میں بیٹھے ہوئے بچوں میں
سے ایک بچہ کہتاہے پانی کے بغیروضوہوجاتاہے کیا ایک اوربچہ کہتاہے ان سے
وضوتوکرارہے ہو ان کوپانی تودے دو وہ بچہ ہاتھ روک کربیٹھاہے۔ ایک منصف اس
بچے کوہاتھ کے اشارے سے وضوکرنے کوکہتاہے۔ دونوں بچے ایک ساتھ ہاتھ دھوتے
ہیں، کل کرتے ہیں۔ منصفین ان سے رک جانے کواوربینچوں سے نیچے اترنے کوکہتے
ہیں۔ دونوں بچے نیچے اترآتے ہیں۔ منصفین کے اشارہ کرنے پردواوربچے بینچوں
پربیٹھ جاتے ہیں۔ ایک منصف ان بچوں سے کہتاہے جہاں تک ان بچوں نے وضوکیاتھا
تم دونوں اس سے آگے وضوکرو ۔دونوں بچے بیٹھ جاتے ہیں وضونہیں کرتے۔ منصفین
پھراشارہ کرکے بچوں کووضوکرنے کاکہتے ہیں۔ دونوں بچے اب بھی وضونہیں کررہے
۔
ایک منصف ۔۔۔۔۔لگتاہے بچوں کووضوکرنانہیں آتا
دوسرامنصف۔۔۔۔۔بچے ہیں کسی کھیل یاکسی اورطرف ان کی توجہ ہوگی ہوسکتاہے ان
بچوں کووضوکرتے دیکھاہی نہ ہو
ایک اورمنصف۔۔۔۔۔تمام بچوں اوربچیوں سے۔۔۔۔۔جوبچے بینچ پروضوکریں تمام بچے
اوربچیاں انہیں غورسے دیکھیں اس کے بعدوہ بینچ پربیٹھے ہوئے بچوں سے
وضوشروع کرنے کوکہتاہے دونوں بچے تین بارہاتھ دھوکرتین بارکلی کرتے ہیں ایک
بچہ جیب سے مسواک نکال کرمنہ سے باہرسے ہی اشارے سے مسواک کرتاہے ۔دوسرابچہ
انگلی کے اشارے سے دانت صاف کرتاہے اس کے بعددونوں کلی کرتے ہیں ناک میں
پانی چڑھاتے ہیں ان کوروک دیاجاتاہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
منظر۳۳۵
سعیداحمد۔۔۔۔۔بشریٰ سے۔۔۔۔۔میں نے جوپکوان تیارکرنے کوکہے تھے وہ تیارہوچکے
ہیں؟
بشریٰ۔۔۔۔۔میں نے وہ برتنوں میں پیک بھی کردیے ہیں ۔
اسی دوران عبدالحق کھیتوں سے سبزی توڑ کرلے آتاہے۔
بشریٰ۔۔۔۔عبدالحق سے۔۔۔۔۔۔اس کواچھی طرح دھوکرتھیلے میں ڈال دو
سعیداحمد۔۔۔۔سبزی تویہ لے آیاہے فروٹ نہیں لایا
بشریٰ۔۔۔۔۔وہ اس کے چچالائیں گے
سعیداحمد۔۔۔۔عارف سے۔۔۔۔۔تم رکشہ تیارکرو اس میں یہ سامان رکھواؤ
عارف رکشہ کی طرف چلاجاتاہے
سعیداحمد۔۔۔۔عبدالحق سے۔۔۔۔۔یہ سبزی تمہاری ماں دھوئے گی اورتھیلے میں ڈالے
گی تم چچاکے گھرجاؤ ان سے پتہ کرو وہ تیارہوئے
ہیں یانہیں
بشریٰ تازہ پانی میں سبزی دھونے لگتی ہے سعیداحمدبرتنوں میں پیک کیے گئے
پکوان اٹھاتاہے اوررکشے کی پچھلی سیٹ پررکھ دیتاہے ۔عارف رکشہ کاموٹرسائیکل
صاف کررہاہے۔ عبدالحق کریم بخش کے گھرجاتاہے نورالعین کریم بخش کے اتارے
گئے کپڑے اٹھاکرکمرے میں جارہی ہے۔ کریم بخش گلے کے بٹن بندکررہاہے۔
عبدالحق۔۔۔۔السلام علیکم ابوبلارہے ہیں کتنی دیرہے ابھی
کریم بخش۔۔۔۔تم یہ پکوان اٹھاکرلے جاؤ میں بھی آرہاہوں
عبدالحق پکوان کابرتن اٹھاکرچچاکے گھرسے چلاجاتاہے ۔ سعیداحمدرکشہ کی اگلی
سیٹ پربیٹھاہے۔ عارف رکشہ اسٹارٹ کرکے بیٹھاہے۔
بشریٰ۔۔۔۔احتیاط سے جانا اس بچے کومیری طرف سے دعائیں دینا عارف رکشہ گھرسے
باہرنکالتاہے
عبدالحق۔۔۔۔۔پکوان کابرتن رکشہ کی پچھلی سیٹ پررکھتے ہوئے۔۔۔۔۔چچاابھی آرہے
ہیں
عبدالحق گھرمیں چلاجاتاہے۔ کریم بخش ہاتھ میں تھیلاپکڑے ہوئے رکشے کے پاس
آجاتاہے اپناتھیلاسعیداحمدکے تھیلے کے ساتھ اگلی سیٹ کے درمیان میں رکھ
کراس کے ساتھ بیٹھ جاتاہے۔ عارف رکشہ سے اترکرپچھلی سیٹ پررکھے ہوئے پکوان
کے برتنوں کومضبوطی سے رسی سے باندھ دیتاہے۔ عبدالحق آکرپچھلی سیٹ پربیٹھ
جاتاہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
|